بنام رنگِ آرزو ۔۔۔ سنی ڈاہر
تمہیں شاید خبر ہو کہ پردیس کاٹتے انسان پر رنج و الم دوگنا بھاری ہو کر گزرتے ہیں ۔اور وہ رات جو مجھ پر قیامت بن کر گزری تھی تو کسی تسلی، دلاسے اور ہمدردی کے باوجود میری ہر سانس آزار تھی ۔تو تب! ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ میرے ریزہ ریزہ ہوتے وجود کو صرف تمہاری آغوش میں بکھر جانے کی ضرورت تھی مگر تم نہ تھیں! کچھ تھا تو تمہاری آواز تھی جو میرے زخموں پر پھاہے رکھتی تھی اور میرا دل اپنی بے بسی پر گھنٹوں لہو روتا تھا۔← مزید پڑھیے