Sunny Dahar کی تحاریر

بنام رنگِ آرزو ۔۔۔ سنی ڈاہر

تمہیں شاید خبر ہو کہ پردیس کاٹتے انسان پر رنج و الم دوگنا بھاری ہو کر گزرتے ہیں ۔اور وہ رات جو مجھ پر قیامت بن کر گزری تھی تو کسی تسلی، دلاسے اور ہمدردی کے باوجود میری ہر سانس آزار تھی ۔تو تب! ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ میرے ریزہ ریزہ ہوتے وجود کو صرف تمہاری آغوش میں بکھر جانے کی ضرورت تھی مگر تم نہ تھیں! کچھ تھا تو تمہاری آواز تھی جو میرے زخموں پر پھاہے رکھتی تھی اور میرا دل اپنی بے بسی پر گھنٹوں لہو روتا تھا۔←  مزید پڑھیے

سفرنامۂ میٹرو ۔۔۔ سنی ڈاہر

حسینہ نہایت پرجمال ہونے کے ساتھ ساتھ مناسب مقامات سے پرگوشت بھی تھی اور علاوہ ازیں وہ لباس کی قلت کا بھی شکار نظر آتی تھی۔ میں نے پھسلتی نظر کو فٹافٹ لپیٹا اور دل ہی دل میں خلافت عثمانیہ کے جلد از جلد احیاء کی دعائیں مانگنے لگا ۔←  مزید پڑھیے

میں نامور رائٹر کیسے بنا۔۔۔ سنی ڈاہر

یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب مجھے انجینیرنگ کی ڈگری وصول ہونے کے بعد بے روزگاری اور “ویلے نکمے” کا راگ درباری ہر ناشتے اور کھانے کے ساتھ سنایا جاتا تھا۔ حالانکہ میرے بڑے اور سنجھلے بھائی بھی حسب←  مزید پڑھیے