• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پارلیمنٹ کی بالا دستی کا مطلب کیا؟-ڈاکٹر ابرار ماجد

پارلیمنٹ کی بالا دستی کا مطلب کیا؟-ڈاکٹر ابرار ماجد

پارلیمان کی بالادستی کا مطلب عوام کی بالادستی ہے کیونکہ ممبر پارلیمان عوامی نمائندے اور ان کی آواز ہوتے ہیں اور اگر کوئی اس اہلیت پر پورا نہیں اترتا تو اس کو اس نمائندگی کے دعوے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔

عوامی نمائندگی کا مطلب عام شہری کے رہن سہن اور ماحول کو ایک معیار رکھتے ہوئے اوپر سے لے کر نچلی سطح تک جہاں جہاں بھی قومی خزانے سے سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں کو برابری کی بنیاد پر رائج کرنا ہے۔ آقا و غلام کے ماحول کو ختم کرکے طاقت کے ایوانوں میں عام شہری کی حالت زار کے احساس کو اجاگر کرنا ہے۔ اور اگر عوام کی نمائندگی کے حصول کے بعد عوام شودر بن جائیں اور عوامی نمائندوں کے رہنے کی جگہ ریڈ زون بن جائے تو تف ہے ایسی بالادستی پر۔

اس وقت پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں پارلیمان کا حصہ ہیں اور آئین میں ترامیم کے علاوہ عوامی فلاح کے لئے کسی بھی قانون سازی میں ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ بلکہ آئین پاکستان شہریوں میں برابری کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ریاستی اداروں کو اس پر عمل کو یقینی بنانے کا پابند ٹھہراتا ہے اور امتیازی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کو روکنا عوامی حکومت کی اولیں ترجیح ہونی چاہیے چہ جائے کہ وہ اس امتیازی تفریق کو بڑھا رہے ہوں۔

عوام جاننا چاہتی ہے کہ کون سی ایسی سوچ و عمل ہے جو ان کو ایسے اقدامات اٹھانے میں مانع ہے۔ وہ خود اس کو ختم کرنے سے خائف ہیں یا کوئی نظام کا عمل ان کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے یا ان کے اندر وہ اہلیت نہیں کہ نظام کو درست سمت میں چلانے کے لائق بنایا جا سکے۔ ان کو چاہیے کہ اگر کوئی امر مانع ہے تو قوم کے سامنے رکھیں وگرنہ یہ ساری ذمہ داری ان پر ہوگی۔

اس سے اچھا موقع نہیں مل سکتا کہ جب ایک دوستانہ حزب اختلاف بھی ان کو میسر ہو اور برابری کو سبوتاژ کرنے میں بڑی رکاوٹیں سخت عوامی تنقید کی زد میں ہوں اور ان کے اعصاب شل ہو چکے ہیں لہٰذا سیاسی قائدین اور جماعتوں کو اپنی اہلیت اور توانائی کو ثابت کرتے ہوئے اصطلاحات کے ذریعے سے برابری کو رائج کرکے اپنا قومی فریضہ ادا کرنا ہوگا۔

اگر معاشروں کی تشکیل مادی وسائل کی بنیاد پر کی جا رہی ہو اور برابری اور کردار کو کوئی اہمیت نہ دی جا رہی ہو۔ انسانوں کی پہچان گاڑی، گھر اور رہن سہن ہو تو پھر اچھے کردار کے حامل افراد کی ایسے معاشروں میں کوئی جگہ نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی رائے کو کوئی فوقیت دی جاتی ہے۔ جب عوام غربت سے مر رہے ہوں اور ملکی طاقت، وسائل اور اختیارات پر بیٹھے لوگوں کو اعلیٰ تنخواہیں، وظائف اور مراعات حاصل ہوں تو ان کو غربت کی تکلیف کا کیا احساس ہوگا۔ اگر ان کی تنخواہیں، وضائف اور مراعات عام شہری جیسی ہونگی تو ان کو مشکلات کا احساس بھی ہوگا۔

اگر ان کی تنخواہوں، وظائف اور مراعات کی آسائشوں اور آسودہ حالی کو ختم نہ کیا گیا تو یہ انکے ثمرات سے اسی طرح پارلیمان کو مشکلات کا شکار اور عوام کا جینا دوبھر بنائے رکھیں گے۔ جن کو قومی خزانے سے گھر، گاڑی اور بنگلہ میسر ہو اور ہر مہینے کی پہلے تاریخ کو لاکھوں جیب میں آ جائیں اور اوپر سے جوابدہی کا کوئی ڈر خطرہ بھی نہ ہو۔ اور اس کا وہاں پہنچنے کا میعار اور اخلاقی سطح بھی بدتر ہو تو اس سے سازشوں کے علاوہ کیا امیدیں لگائی جا سکتی ہیں بلکہ وہ تو چاہے گا کہ اس کی موجیں اسی طرح لگی رہیں اور وہ سادہ عوام کو بے وقوف بنائے رکھیں۔

ان اصطلاحات اور تبدیلیوں کے بغیر کوئی بھی سیاسی عمل جس میں انتخابات بھی شامل ہیں کسی کام کا نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی عدم استحکام اور بدعنوانی سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اچھے معاشروں کی تشکیل کے لئے اچھے اقدار کو فروغ دینا پڑتا ہے۔

سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ حالیہ انکشافات میں جب پارٹی ٹکٹ ہی کروڑوں میں بک رہے ہیں تو پھر اچھے لوگوں کا سیاست میں آنا کیسے ممکن ہے۔ جو کروڑوں خرچ کرکے آئے گا اس کا مقصد کیا واقعی عوامی فلاح و بہبود ہوگا؟ اس مکروہ دھندے کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے اور اگر کوئی ادارہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام ہے تو پارلیمان کس مرض کا علاج ہے۔ اور یہ سب کچھ اس وقت ہی ممکن ہے جب عوامی درد رکھنے والے صحیح نمائندگی کے حقدار لوگ پارلیمان میں پہنچیں گے۔

جس کا آغاز سیاسی جماعتوں بارے نظم و ضبط سے ہونا چاہیے۔ جس میں ان تمام کوتاہیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جو یا تو موجودہ قوانیں کی راہ میں عملدرآمد کی راہ میں حائل ہیں یا جن کے بارے قوانیں خاموش ہیں۔ اس کا حل سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی ترویج اور سیاسی کارکنوں کی کردار سازی سے ہے۔ پاکستان کی اکثریتی سیاسی جماعتیں حکومت میں موجود ہیں اور اگر وہ حالات سے سبق سیکھتے ہوئے کوئی لائحہ عمل نہیں بناتیں تو پھر یہ کہنے میں قوم بھی حق بجانب ہوگی کہ سب اقتدار کے بھوکے ہیں اور سیاست کو کاروبار بنایا ہوا ہے۔ دوسرا امتیازی سلوک کو ختم کرنا ہوگا جس کی بنیاد پر آج بھی جوابدہی کے عمل میں استثنیٰ کا حق برابری کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

اس سے زیادہ اچھا وقت شائد ان کو نہ مل سکے اور ان کو چاہیے کہ اس امتیازی سلوک کے بت کو توڑ ڈالیں اور تمام کے تمام شہریوں اور اداروں میں مراعات، وضائف اور تنخواہوں میں برابری کو یقینی بنا دیں۔ تمام کے تمام وہ قوانین جو اختیارات اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے آپ کو نوازنے کے لئے بنتے رہے ہیں ان کو ایک ہی جنبش میں نکال پھینکیں اور حقیقی خدمت کو برابری کی بنیادی پر یقینی بنا دیں۔ سب کو جوابدہی کے عمل کا حصہ بنا دیں اور ہر طرح کے استثنیٰ کے ظالمانہ قوانیں کو ختم کرکے برابری کے اصولوں کو رائج کرکے قوم کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیں اس کے علاوہ حالات کی بہتری کی امید لگانا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور اگر اب بھی موجودہ حکومت جس میں پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں کسی مثبت تبدیلی کے لانے میں ناکام رہیں تو پھر عوام کا اس جمہوری نظام سے یقین اٹھ جائے گا اور اس کی ذمہ دار خود سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتیں ہونگیں۔ عوام مہنگائی، بے روزگاری تو کسی نہ کسی طرح برداشت کر سکتی ہے اور ملک اس کے ساتھ قائم رہ سکتے ہیں مگر بد عنوانی، ناانصافی اور امتیازی سلوک کے ساتھ جینا اور قائم رہنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply