مہم جوئی تھی شادی آخری قسط

تو جناب پچھلی قسط ٹھیکیداری تک پہنچی تھی ۔۔۔۔
کہ یہ عشق کیاکیا کرواتا ہے۔۔۔ ویسے اس ٹھیکیداری کے خشک موضوع پر گفتگو سے یہ فائدہ تو ہوا کہ بجری سیمنٹ لوہے کا تناسب پتہ چل گیا۔ مزدور کی ہماری نظروں میں حیثیت ہوگئی اور بل کلیئر کروانے کے لیے رشوت کا تناسب بھی پتہ چلا ۔۔۔ مگر ابھی مشن کچھ اور تھا۔
خیر جی سترہ اٹھارہ سلام پہنچنے کے بعد محترمہ کے دل میں اتنی جگہ تو بن گئی کہ گفتگو کے لئے دو منٹ مل گئے ۔ یہ تو پتہ تھا کہ گفتگو میں زیر کرلیں گے۔ اس دن منہ پر صابن زیادہ ملا، پورے دانتوں والی کنگھی سے بال سنوارے۔ شرٹ اور پینٹ کی ایک ایک شکنیں صفحۂ کپڑا سے مٹا دیں۔ کچھ اشعار جو کچے تھے پکے کیے۔ سوچا کچھ کتابوں کے نام بھی یاد کرلوں جس میں عشق انتہا کو پہنچتا ہوں۔ شومئی قسمت گھر سے نکلتے نکلتے آخری چٹان پر نظر پڑ گئی۔ بھائی ہم کیا کریں ہمارے پاس اسی قسم کی کتابیں ہیں۔ اور نائن الیون کا تازہ تازہ واقعہ بھی ہوا تھا۔
خیر جی وقتِ مقررہ ۔۔۔ واقعی ہر چیز کا وقت مقرر ہے، ہم دوست کے گھر پہنچے۔ ڈرائنگ روم میں پہلی دفعہ عزت سے بٹھایا گیا ورنہ بے تکلف، خاص کر محلے کے دوستوں کے چبوتروں پر ہی جگہ ملتی ہے۔
ہمارا خیال تھا کہ ایک روایتی پٹھان کی طرح ایک شرماتی لڑکی داخل ہوگی جس کا سر جھک کے گھٹنوں پر ہوگا اور ہم ایسے بیٹھے ہوں گے جیسے اپنے آفس میں نئے چہروں کا آڈیشن لیتے ہیں۔ دھڑ سے دروازہ کھلا۔ دوست کی بہن کے ساتھ لال کپڑوں میں لال دوپٹہ کندھے پر ڈالے لال ہونٹوں سے زور سے سلام کیا اور پوچھا: آپ ہیں صہیب جمال؟ محلّے کے واحد ادیب، شوبز سے وابستہ؟ لہجہ پی ٹی وی کی اناؤنسر جیسا مکمل اردو صاف۔ واقعی ایسا لگا کہ نسیم حجازی کے ناول کا کردار چاند بی بی۔ ہماری ساری بے باکی دھری کی دھری رہ گئی۔ جو سو حسیناؤں کا آڈیشن لے چکا ہو وہ ہاری ہوئی فوج کا ادنیٰ سپاہی لگ رہا تھا۔ جیسے گردن جھکائی ہوئی ہو اور محترمہ کہیں۔۔۔ ایسے ہی رہنا آتی ہوں تلوار تیز کرکے ۔۔۔
اس سوال کے بعد آواز حلق میں پھنس گئی۔ دل چاہا کہ لکھ کر جواب دوں کیونکہ لکھنے اور بولنے میں فرق ہوتا ہے۔ لکھتے ہوئے میدان خالی ہوتا ہے اور بولتے ہوئے آپ سے بھی اچھے زبان دراز ۔۔۔
ہم کہا ۔۔ آ۔۔۔ آ۔۔۔
محترمہ نے بیچ میں بات کاٹ دی
آ ۔۔ آ ۔۔۔ کیا کر رہے ہیں موصوف۔ آ تو چکی ہوں۔ بتائیے کیا چاہتے ہیں؟
ہمیں لگا ایسی دکان پر کھڑے ہیں خالی جیب جہاں لکھا ہے ۔۔۔ آج نقد کل ادھار ۔۔۔
ہم نے کہا: وہ ۔۔۔ دراصل ۔۔ خواجہ صاحب کی بیٹی کی شادی میں آپ کو دیکھا تھا۔
محترمہ کو اندازہ تھا کہ شادی میں کیوں دیکھا تھا
وہ یکدم کھڑی ہوئیں اور کہا: دو منٹ پورے ہوئے۔ ہم پٹھان زبان کے پکےّ ہیں۔ آپ اپنے گھر کی خواتین کو ہمارے گھر بھیج سکتے ہیں۔ جو فیصلہ ہوگا گھر کے بڑے کریں گے۔
اب آگے مراحل آسان تھے ۔۔ باجی ۔۔ بھابی ۔۔۔ امیّ۔۔۔ یہ تو چلے ہی جائیں گے ۔۔۔
رشتہ چلا گیا ۔۔۔ بات آگے بڑھی ۔۔ کچھ زبان و برادری کے مسائل آئے ۔۔۔
ان کے گھر جانے بھیجنے کے بعد تو محترمہ کے والد کے رستوں سے ہم کٹ کر نکل جاتے تھے۔ ایک دن انکل گھر لے گئے۔ تفصیلی انٹرویو ہوا۔ اے این پی کے بارے میں ہمارے خیالات پوچھے۔ بھائیو! نظریات کے معاملے میں ہم پکےّ ہیں۔ نظریہ نہیں چھوڑا مگر باچا خان کی امن پسندی اور خدائی خدمت گاری کی تعریف ضرور کردی۔
آخر شادی کا دن بھی آگیا۔ بارات میں اچھے خاصے اکابرینِ جماعت اور لڑکی والوں کی طرف اے این پی، جے یو آئی کے لوگ کثرت سے تھے۔ تصادم کا خطرہ نہیں تھا کیونکہ ان دنوں مشرف کے خلاف تینوں ہی تھے۔ یوں ہمارا عشق اختتام کو پہنچا۔ بلکہ ناکام ہوگیا۔ کیونکہ محبوبہ سے ہماری شادی ہوگئی۔
ویسے دوستو! وہ پہلی ملاقات کا ماحول گھر میں اب تک ہے۔ اور پٹھان کی زبان کا معاملہ اب تک درپیش ہے۔ اب تک جماعتی اوپر سے بہاری، ان دونوں صلاحیتوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ بچےّ جب ننھیال سے آتے ہیں تو کچھ گھنٹوں تک اپنے آپ کو پٹھان کہتے ہیں۔ پھر دادی سے تھوڑی دیر کی بہاری لہجے کی کلاس دلوانا پڑتی ہے۔ ویسے عجیب بات ہے بچوں کے فارم پر مادری زبان اردو ہے اور ماں پٹھان۔

Facebook Comments

صہیب جمال
جب کھیلنے کودنے کی عمر تھی تو رسالہ ساتھی کا ایڈیٹر بنادیا گیا ۔۔۔ اکیس سال کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے ۔۔۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو اشتہارات کی دنیا نے اپنی طرف کھینچ لیا ۔۔۔ پھر تو لائیٹ کیمرہ ایکشن اور خاص کے حسیناؤں کے ایکشن نے ایسا گھیرا کہ اب تک ۔۔۔ کٹ ۔۔ کٹ ۔۔۔ اور پیک اپ سے نہ نکل سکے ۔۔۔ مگر قلم کا ساتھ نہیں چھوٹا ۔۔ ڈرامہ ، پولیٹیکل سٹائر ، نظمیں ، ترانے ، گانے ،نثری شاعری سب کی ریڑھ لگائی ۔۔۔ بچوں کی تحریریں لکھتے لکھتے ۔۔۔ بچوں کے لئے کمارہے ہیں ۔۔۔ شہر کراچی میں رہتے ہیں ہم ۔۔۔ جہاں لوگ کھل کر جیتے ہیں اگر کچھ دن جی لیے تو ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply