• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نانک سو سہاگنی جو بھاوے بے پروا۔۔ڈاکٹر صغریٰ صدف

نانک سو سہاگنی جو بھاوے بے پروا۔۔ڈاکٹر صغریٰ صدف

بابا گرو نانک کے وقت ہندوستان کی عورت جبر کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ یوں تو پورا معاشرہ ذات پات کی اونچ نیچ کا شکار تھا مگر عورت کی حیثیت آزاد فرد کی ہرگز نہ تھی۔ کسی خاندان کے ایک فرد سے کوئی لڑکی بیاہ کر جاتی تھی مگر وہ خاندان کے تمام افراد کی ملکیت تصور کی جاتی تھی۔ جب اس کا خاوند مر جاتا، حادثے کا شکار ہو جاتا تو اُسے بھی اس کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسی رسمیں تھیں جو عورت کی تذلیل پر مبنی تھیں۔ بابا گرو نانک عورت ذات کے مداح اور قدر دان تھے۔ وہ کہتے ہیں ’’سو کیوں مندا آکھیے جِت جمے را جان‘‘ اس عورت کو حقیر کیوں سمجھیں جو راجوں کو جنم دیتی ہے اور راجاؤں کے گھر جنم لیتی ہے۔ انھوں نے اپنی دائی مائی دولتاں اور سگی بہن نانکی سے سب سے زیادہ محبت کی۔ اُن کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں جس میں انھوں نے عورت ذات کی سربلندی کی بات نہ کی ہو۔ انھیں عورت کی بے حرمتی کا قلق تھا۔ پچھلے پانچ سو سال کے دوران بابا گرو نانک عورت کی حرمت کے سب سے بڑے علمبردار ہیں جنھوں نے عورت پر جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور عملی کاوش کی۔
بابا گرو نانک کی فکر کی روشنی میں جب ہم سہاگن عورت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس عورت کا نکاح ہو گیا وہ سہاگن ہوگئی، نکاح نامے میں اس کا نام لکھا گیا خاوند کے ساتھ، وہ میکے سے سسرال چلی گئی۔ بھلے اس نے دنیا داری کی ساری رسمیں پوری کرلی ہوں پھر بھی اسے سہاگن نہیں کہا جاسکتا۔ سہاگن وہ ہے جو اپنےبےپروا(مالک) کے دل میں اُتر جانے کی صلاحیت رکھے۔ اس کی توجہ میں گھر کر لے، اس کی سوچ میں بس جائے، اس کے من کو اپنی جانب مبذول کر لے۔ اگر تمام مروجہ رسموں کی پاسداری کرتی ہے، زبانی قول اقرار کرتی ہے، نکاح نامے پر دستخط کرتی اور اپنے انگوٹھے کے لمس کی گواہی دیتی ہے لیکن وہ بے پروا (مالک) کی توجہ حاصل نہیں کر پاتی تو پھر وہ ساری کارروائی بے بنیاد ہو جاتی ہے بے فائدہ رہتی ہے۔
بابا گرو نانک نے عورت کے ذریعے خدا اور انسان کی محبت کا اظہار کیا ہے۔ جس طرح ایک عورت اپنا گھر، اپنا میکہ چھوڑ کر اپنے سسرال جاتی ہے، ظاہر ہے ایک گھر چھوڑ کر دوسرے گھر میں جانا اور وہاں آباد ہونا آسان نہیں ہوتا۔ یہ ایک دنیا سے دوسری دنیا کا سفر ہے، سسرال اور میکہ دو دنیائیں ہیں جو یکسر مختلف ہیں۔ میکے کے اپنے اصول اور ضابطے ہیں، محبتوں کی فراوانی ہے، لاڈ ہے، پیار ہے، کھیل ہے، ہمجولیاں ہیں، باپ کا سایہ دار درخت سر پر ہے، ماں کی محبت بھری محفوظ جھولی ہے جبکہ سسرال میں لمحے لمحے کا حساب رکھنے والی نندیں ہیں، ذرا سی غلطی پر ٹوکنے والی ساس ہے، شرارتی دیور ہیں، رعب والے جیٹھ ہیں، سخت گیر سسر ہے اور بہت سے دوسرے رشتے دار ہیں جن کی جی حضوری کرنا ضروری ہے۔ ہر لمحہ یہ احساس ساتھ رکھنا کہ کوئی غلطی نہیں کرنی کیونکہ کوتاہی کی گنجائش نہیں ہے ورنہ سارا کیا دھرا ختم ہو جائے گا اور طعنے دیئے جائیں گے کہ میکے سے کیا سیکھ کر آئی ہو۔ ایک ایک قدم پھونک کر رکھنا پڑتا ہے کیونکہ میکے کی لاج آپ کے عمل سے جڑی ہوئی ہے۔ ذات کی گواہی ہر عمل سے مشروط ہے، اپنے آپ کو منوانا ہے، ثابت کرنا ہے، پل صراط ہے، اس پر سے گزر کر دکھانا ہے اور پھر سب سے بڑی آزمائش یہ کہ وہ جس کے نام کے ساتھ آپ کا نام لکھا گیا ہے اس کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ اس کی توجہ صرف محبت اور عشق سے حاصل کی جاسکتی ہے۔اس کے لئے اپنی مَیں(انا) کو ختم کرنا ضروری ہے، اپنی انا کی قربانی دینا، اپنی خودی کو ترک کرنا ہے اور جب انسان اپنی مَیں کو ختم کر کے اپنی نفی کرتا ہے، اپنے محبوب کے رنگ میں رنگ جاتا ہے تو پھر بے پروا متوجہ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا چاہنے والا اپنی ذات اس کی ذات میں گم کر دے۔
بابا گرو نانک کے 552 ویں جنم دن کے موقع پر پنجاب حکومت کے تمام ادارے اور خصوصاً انفارمیشن و کلچر خصوصی تقریبات کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اُمید ہے کہ اس سے بین المذاہب ہم آہنگی اور خیر سگالی کے جذبات فروغ پائیں گے۔
سوہرے پیئے کنت کی، کنت اگم اتھاہ
نانک سو سہاگنی، جو بھاوے بے پروا
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply