اب آڈیو لیک بھی؟۔۔محمد اسد شاہ

اب آڈیو لیک بھی؟۔۔محمد اسد شاہ/ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک سے ایک بار پھر اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ تین بار وزیراعظم پاکستان منتخب ہونے والے جناب میاں محمد نواز شریف کے خلاف کہیں کوئی سازشں  یا گڑبڑ ضرور ہوئی ہے ۔ عوام میں تو یہ تاثر انتہائی گہرا اور راسخ ہے ۔ حتیٰ کہ میاں صاحب کے شدید ذاتی اور سیاسی مخالفین مثلاً پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی بھی اس تاثر کو رد نہیں کر سکتے ۔ بلکہ  ڈھکے چھپے الفاظ میں اس تاثر کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ میاں صاحب کی دشمنی میں زیادہ شدید کون ہے ؛ پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی ۔ کیوں کہ سوشل میڈیا پر میاں صاحب اور ان کی جماعت مسلم لیگ نواز کے خلاف جو زبان اور لہجہ پی ٹی آئی کے وزراء اور کارکنان کا ہے ، اس سے کہیں زیادہ شدید پیپلز پارٹی کے بہت سے لوگوں کا ہے ۔ اعتزاز احسن کی تو جیسے زندگی کا اب ایک ہی مشن رہ گیا ہے کہ ہر معاملے کو “نواز شریف دشمنی” کی نظر سے ہی دیکھنا ہے ۔ ہم انھیں پیپلز پارٹی کا ایک نمائندہ سمجھتے ہیں لیکن ان کے بیانات ہمیشہ عمران خان ، فواد چودھری ، فیاض چوہان اور مراد سعید کی زبان اور موقف کے ترجمان ہوتے ہیں ۔

اسی طرح عمران خان کے ذہن پر بھی نواز شریف کی مخالفت اس حد تک سوار ہے کہ گزشتہ تقریباً دس گیارہ سالوں میں ان کی کوئی تقریر اور کوئی بیان میاں صاحب کے ذکر کے بغیر دستیاب نہیں ہے ۔ سوشل میڈیا اور عوام الناس میں تو عمران خان کی اس ذہنی کیفیت پر بے شمار لطیفے بھی گردش کرتے ہیں ۔ ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو سے یہ تاثر مزید پختہ ہو چکا ہے کہ “کوئی” ہے جو میاں صاحب کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے دن سے ہی ، یا شاید اس سے بہت پہلے ہی یہ طے کر چکا تھا کہ انھیں سیاست سے باہر کرنا ہے ۔ وہ جو “کوئی” بھی ہے ، اسے یقیناً ایسا کوئی آئینی یا اخلاقی اختیار حاصل نہیں تھا ۔ کیوں کہ جن ممالک میں آئین نامی کوئی چیز پائی جاتی ہے ، یا جہاں جمہوریت کا دم بھرا جاتا ہے ، وہاں یہ اختیار صرف عوام کے آزادانہ اظہار رائے کو ہی حاصل ہے ۔ یقیناً میاں صاحب کی شخصیت بھی خامیوں سے مبرا نہیں ہے ، ان کی سیاست سے ہزار اختلاف کیے جا سکتے ہیں اور بہت سے معاملات میں ان پر تنقید بھی کی جانا چاہیے ۔ لیکن جب کوئی شخص یا جماعت عوامی اکثریت کی تائید حاصل کر لے تو مخالف سیاسی جماعتوں تک کو اخلاقاً اس تائید کا احترام کرنا پڑتا ہے ۔ کیوں کہ عوام کے اجتماعی فیصلے کو دل سے تسلیم نہ کرنا عوام ، یعنی پوری قوم اور آئین کی اجتماعی توہین ہے ۔

سرکاری اداروں اور ملازمین کا تو یہ آئینی فریضہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کے منتخب وزیراعظم کے ہر حکم کو دل و جان سے تسلیم کریں ، خواہ انھیں پسند ہو یا نہ ہو ۔ اگر کبھی ایسا وقت آئے کہ منتخب حکومت کے کسی حکم پر عمل کرنا ان کے لیے اتنا تکلیف دہ ہو کہ وہ اس پر کسی صورت بھی عمل نہ کر سکیں تو ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ شرافت کے ساتھ ملازمت سے استعفیٰ دے کر چلے جائیں ۔ ۔ بظاہر وہ ریاست کے ملازم ہوتے ہیں لیکن ریاست اپنی اصل میں منتخب حکومت ہی کے طے کردہ اصول و ضوابط کی پابندی کا نام ہے ۔ اگر کوئی سرکاری ملازم یا ادارہ خود کو منتخب حکومت اور تحریری آئین سے برتر یا متوازی سمجھنا یا فیصلے کرنا شروع کر دے تو آئین ، حکومت ، معیشت ، معاشرت ، اداروں اور ریاست ، سب کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ یہ سلسلہ اگر طوالت اختیار کر جائے تو اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوا کرتے ہیں ۔ ثاقب نثار اپنی ذات میں ایک عام شہری ہوں گے ، لیکن جب وہ چیف جسٹس کے عہدے پر تھے ، تب ان کی ذمہ داری بہت اہم اور مقام بہت حساس تھا ۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ایک خالص پیشہ ور جج کے رویے کے برعکس ان کی شخصیت متنازع  ہی رہی  ۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے وضاحت کر دی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی جج پر تنقید کو توہینِ عدالت نہیں کہا جا سکتا ۔ چنانچہ ہم بھی عدلیہ کے حد درجہ احترام کے ساتھ ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس حکم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کرنا چاہیں گے کہ سرکاری عہدے پر ہونے کے باوجود ثاقب نثار کو عوامی اجتماعات میں شامل ہونے ، اداکاراؤں اور ماڈل گرلز کے ساتھ تصاویر بنوانے ، اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین اور سیاسی شخصیات کو اپنے سامنے کٹہرے میں کھڑا کر کے تحقیر کرنے کے جنون کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔ لاہور میں جگر اور گردوں کے بہترین ہسپتال کے سربراہ کے ساتھ ان کا رویہ نہایت افسوس ناک تھا ۔ توہینِ عدالت کے قانون کا سہارا لے کر عطاء الحق قاسمی ، ابصار عالم ، صدیق الفاروق ، سینیٹر نہال ہاشمی ، طلال بدر چودھری اور خواجہ سعد رفیق پر وہ ذاتی جملے کستے رہے ۔ جس سے خود ان کی ذاتی شخصیت کا رعب اور تاثر عوام میں وہ نہ رہا جو کسی جمہوری ملک کے چیف جسٹس کا ہونا چاہیے ۔

اسی طرح شیخ رشید کے مدمقابل محمد حنیف عباسی کو عجلت میں سزا سنائے جانے کے بعد ، انتخابی مہم کے عین عروج پر خود شیخ رشید کے ساتھ ان کے حلقے کا سرکاری دورہ کرنا قطعاً ناجائز اور نامناسب تھا ۔ عدلیہ کا جو احترام ہم سب کے دلوں میں ہے ، ثاقب نثار کا یہ دورہ اس کے خلاف ایک تازیانے کی طرح محسوس ہوا ۔ پھر جس طرح انھوں نے لاہور میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبوں کو ایک مخصوص مدت تک روکے رکھا ، کہ نواز لیگ کی حکومت ان منصوبوں کی تکمیل اور افتتاح نہ کر سکے ، بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے ۔ موصوف نے گزشتہ منتخب حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے سے کئی ماہ پہلے ہی اسے نئے منصوبوں کے آغاز اور افتتاح سے حکماً روک دیا ۔ اس کی بھی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا کہ کسی منتخب حکومت کو اس کی آئینی مدت کے دوران ، خواہ باقی صرف ایک دن ہی رہتا ہو ، کسی جج نے کام کرنے سے روکا ہو ۔ اسی پس منظر میں غور کیا جائے تو ثاقب نثار سے منسوب حالیہ آڈیو لیک سے عوام کو کوئی حیرت نہیں ہوئی ۔ کیوں کہ عوام کے اندر بھی تقریباً وہی تاثر بہت پہلے سے موجود ہے جو اس آڈیو سے پیدا ہوا  ۔

اس سے قبل سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ایک تقریر ، جج ارشد ملک کے تحریری بیان اور چیف جج رانا شمیم کے حلفیہ بیان نے بھی بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مذکورہ ججز کے ان بیانات پر کہیں بھی تحقیقات نہیں کی گئیں ، بلکہ  سیاسی بیانات کے ذریعے انھیں جھٹلانے کو ہی کافی سمجھ لیا گیا ۔ جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ ہماری رائے میں ایسی بے اعتنائی نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے ۔ اب ثاقب نثار کی حالیہ مبینہ آڈیو لیک پر خود ثاقب نثار کا پراسرار ردعمل شکوک و شبہات کو بڑھا رہا ہے ۔ اس پر مزید شکوک اس بات سے بھی پیدا ہو رہے ہیں کہ ثاقب نثار کی صفائیاں دینے اور اس مبینہ آڈیو کو جھٹلانے میں تاقب نثار کی بجائے عمران خان اور فواد چودھری سمیت ان کے وفاقی وزرا کیوں سرگرم ہیں ۔ ان کا اس معاملے سے کیا لینا دینا ؟ ان کا اس معاملے میں کودنا کسی طرح بنتا ہی نہ تھا ۔ لیکن ان کی مسلسل بیان بازی اسی تاثر کو انتہائی تقویت دے رہی ہے ، جس تاثر کو یہ لوگ ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ معروف تحقیقی صحافی احمد نورانی نے تو اس آڈیو کے اجراء کے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ عالمی سطح پر معروف فرانزک لیبارٹری گیرٹ ڈسکوری نے اس آڈیو کی تصدیق کی ہے ۔ لیکن حکومت شاید یہ چاہتی ہے کہ فرانزک کروائے بغیر ہی لوگ صرف اس کے بیانات اور ٹویٹس کی بنیاد پر ہی اس آڈیو کو جھٹلا دیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رکھیے ، کہ ایسا ممکن نہیں ہے ۔ نواز لیگ تو اس آڈیو اور اس تاثر کو برقرار رکھنا اور اس سے فائدہ  اٹھانا چاہے گی ، اور ایسا کرنا ان کا حق بھی ہے ۔ لیکن خان صاحب اور ان کی ٹیم کسی ذاتی مفاد کے تحت اگر ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کے تاثر سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو انھیں اس کا فرانزک ٹیسٹ اور آزادانہ تحقیقات کروانا پڑیں گی ۔ صرف زبانی بیانات اور جوابی الزام تراشی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا ، بل کہ مزید گھمبیر ہوتا جائے گا ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply