رومی وہیں تھا/ڈاکٹر حفیظ الحسن

ٹیکسی نے ہوٹل کے سامنے آکر ہارن بجایا۔ میں عثمانیہ دور کے طرز پر بنے ہوٹل کے کاؤنٹر پر چیک آؤٹ کر کے بِل ادا کر رہا تھا۔ دسمبر کی اُس شام میں خوش تھا۔ بالآخر بچپن کا خواب پورا ہونے والا تھا۔ میں قونیا جا رہا تھا۔ رومی سے ملنے۔۔

استنبول کے صبیحہ گوکچن ائیرپورٹ سے جہاز رن وے پر آیا۔ مسافروں نے سیٹ بیلٹ باندھ لیے۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک اُدھیڑ عمر ترک بیٹھا تھا۔ اُسے ٹوٹی پھوٹی جرمن آتی تھی۔ جرمن میں بات شروع ہوئی تو کہنے لگا قونیا کیوں جا رہے ہو؟
میں نے کہا سِماع دیکھنے؟  میں بولا۔ کل ہفتہ ہے۔ مولانا(رومی) کلچرل سینٹر میں سِماع ہو گا۔ درویش گھومیں گے۔ کائنات میں ہر شئے گھومتی ہے۔ درویش کائنات کا حصہ بنے ایک ہاتھ آسمان کی جانب اور دوسرا زمین کی طرف کیے محوِ رقص ہونگے۔ کائنات سے زمین تک کا رابطہ کیے۔
“خوب۔ اُمید کرتاہوں تمہیں قونیا شہر پسند آئے” ۔ وہ بولا
“قونیا میں سلجوق ٹاور ہے وہاں بھی جانا۔۔اُسکی اوپری منزل پر ایک دکان ہے وہاں سے مولانا کینڈیز ملتی ہیں۔” اُس نے بتایا۔
مولانا کینڈی؟ میری ہنسی چھوٹ گئی۔ یہ کیا ہے؟
“لوگ اسے اکثر چائے کے ساتھ کھاتے ہیں میٹھے کے طور پر۔۔” اُس نے بتایا ۔
ٹھیک ہے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
“کیا تمہیں معلوم ہے قونیا میں شمس تبریز کا بھی مزار ہے؟” اُس نے پوچھنے کے لہجے میں بتایا۔
اچھا ! واہ یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے،میں خوش ہوا۔

جہاز قونیا میں ائیرپورٹ پر اُترا۔ میرا دوست مجھے لینے اپنے والد کے ساتھ گاڑی پر آیا تھا۔
گھر پر ترکش کھانا بنا تھا۔
کوفتے اور علی نازِک۔ بینگنوں پر گوشت کی بوٹیوں سے بنی ڈِش۔

رات سکون سے نیند آئی۔ صبح اُٹھا تو دوست اور والد ناشتے کی ٹیبل پر میرا انتظار کر رہے تھے۔

انڈوں اور ترکش ساسیج جسے مقامی زبان میں سُجوک کہتے ہیں کا بنا آملیٹ جسے “سُجکلایمرتا” کہتے ہیں، قپنی خوشبو بکھیر رہا تھا۔
انکل آج کہاں جائیں گے؟ میں نے ناشتے کے دوران پوچھا۔
“سِماع شام میں ہے۔ آج شہر گھومیں گے۔ مولانا رومی کے مزار پر  جائیں گے۔ اسکے ساتھ منسلک میوزیم ہے وہ دیکھیں گے۔ تمہیں ترکش فنِ تعمیر دکھاؤں گا۔
عثمانیہ دور سے قبل سلجوق مساجد بھی یہاں ہیں۔ “” انکل نے بتایا۔
خوب ! میں خوش ہوا۔

سلجوق دور کی علاؤالدین قیقوبک مسجد دیکھ کر دسمبر کی اس دوپہر ہم مولانا کے مزار پر پہنچے۔ زائرین کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ دنیا بھر سے لوگ رومی سے ملنے آئے تھے۔
مزار کے احاطے سے متصل رومی میوزیم تھا جس میں رومی کے درویش بننے کے مراحل دکھائے گئے تھے۔ ایک ہزار دن کا مراقبہ۔ ایک جگہ پر بیٹھ کر جوتوں کا رخ اپنی طرف۔ ایک جگہ آلتی پالتی مار کر بیٹھنا۔ کھانا پینا دوسرے درویشوں کے ذمے۔ خود بس اپنے اندر جھانکنا۔ جب ایک ہزار دن پورے ہو جائیں تو جوتوں کا رخ بدل دینا۔ اب رومی کا درویش تیار ہے۔ وہ زمین پر چل سکتا ہے۔
مزارپر پہنچا تو رومی کی قبر دستار باندھے سو رہی تھی۔

میں نے قبر کو غور سے دیکھا۔ رومی وہاں نہیں تھا۔مجھے مایوسی ہوئی۔ دل میں سوچا “رومی یار تمہارے لیے آیا تھا تم تو موجود ہی نہیں۔ کیا مہمان نوازی ہے؟”
مزار سے بوجھل قدموں سے باہر نکلا تو رومی دور بیٹھا ہر آتے جاتے زائرین کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
انکل ! رومی تو یہاں ہے؟
کہاں بیٹا؟
وہ۔۔ وہ!سامنے۔ ۔ میں نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
بیٹا رومی کو ڈھونڈنے لوگ قونیا آتے ہیں مگر رومی تو دلوں میں بستا ہے۔ تم اُسے جہاں چاہو گے دیکھ سکو گے۔
میں نے ماہوسی میں سر جھٹکا۔ شاید۔۔۔۔

چلو سامنے مسجد ہے جہاں وہ کنواں ہے جس میں شمس تبریز نے چھلانگ لگا کر خودکشی کی تھی؟ انکل نے ایک ماہر گائیڈ کی طرح بتایا۔
خود کشی؟
ہاں رومی کی جدائی میں – انکل مسکرائے۔
مگر اسکا مزار تو ایران میں ہے۔ میں حیران ہوا۔
ہمم۔ انکل نے سر ہلایا۔

بیٹا یہ روایتیں ہیں میں تمہیں وہ  روایات بتا رہا ہوں جو یہاں مشہور ہے۔ سامنے شمس مسجد ہے جس کے پاس وہی کنواں ہے اور اندر شمس کی قبر خود دیکھ لو۔
مسجد میں جوتے اُتار کر گیا تو ایک کونے میں شمسِ تبریزکی قبر تھی۔
رومی مگر وہاں بھی نہیں تھا۔

مسجد سے باہر نکلے تو شام ہونے والی تھی۔

چلو مولانا سینٹر جہاں سِما ہونا ہے۔ انکل نے فوراً سے کہا۔

ہم رات گئے تک سِماع دیکھتے رہے۔رومی کے درویش رومی کی نظموں پر رقص کرتے رہے۔ پورا ہال خاموشی اور ادب  سے سُنتا اور دیکھتا رہا۔ مگر میں سِما کے دوران رومی کو ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ کہیں نظر نہ آیا۔

سِماع ختم ہوا تو میری فرمائش پر انکل مجھے سلجوق ٹاور لے گئے۔ٹاور کی اوپری  منزل پر ایک دکان تھی جہاں سفید رنگ کی نرم مگر چھوٹے پتھروں جیسی  مٹھائی پڑی تھی۔ پوچھنے پر دکاندار نے بتایا یہ مولانا کینڈی ہے۔
آ ہا مولانا کینڈی۔ مجھے جہاز میں پاس بیٹھے مسافر کی بات یاد آ گئی۔
ایک پیکٹ دے دیں۔
مولانا کینڈی کھاتے میں ٹاور سے قونیا شہر کو دیکھنے لگا۔

پورا شہر میرے سامنے تھا۔ دور پہاڑوں پر روشنی ٹمٹما رہی تھی اور نیچے سڑک پر ٹریفک دوڑ رہی تھی۔ رومی کہیں نہیں تھا۔

رات بارہ بجے استنبول کی واپسی کی فلائیٹ تھی۔ قونیا سے جہاز رات کے اندھیرے میں اُڑا۔ میں نے کھڑکی سے نیچے شہر کو دیکھا۔ رومی وہاں بھی نظر نہ آیا۔ میں نے تنگ آ کر کھڑکی بند کر دی۔
استنبول پہنچ کر ہوٹل میں سامان رکھا اور سو گیا۔

صبح دیر سے آنکھ کھلی۔ اُٹھا تو میں ایک الگ انسان تھا۔ اب میں رومی کو  نہیں ڈھونڈ رہا تھا۔ میں جان گیا تھا کہ رومی قونیا میں نہیں رہتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہوٹل کی کھڑکی کھولی تو نیچےایک ریسٹورانٹ میں “نے” (بانسری) بج رہی تھی۔ سیاحوں کے بیچ ایک درویش اُنہیں محظوظ کرنے کے  لیےجھوم رہا تھا۔
“نے”کی آواز نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے۔۔
ارے رومی تو یہاں ہے۔ اس “نے” میں، مجھے رومی کی نظم یاد آ گئی۔
“سنو “نے” کی جدائی کی داستاں
جب سے میں بانس سے الگ ہوئی میں رو رہی ہوں
وہ جو محبوب سے جدا ہوتا ہے وہ میرا درد سمجھ سکتا ہے
وہ جو اپنے اصل سے بچھڑا وہ تمام عمر اس سے ملنے کی خواہش کرتا ہے
میں ہر لمحے یہیں تو ہوں تمہاری خوشیوں اور غموں میں”
رومی وہیں تھا۔ خوشیوں اور غموں میں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply