• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خاکوانی و تارڑ صاحب، آئیٹم سانگ اور سول ایوارڈز ۔۔۔۔علی اختر

خاکوانی و تارڑ صاحب، آئیٹم سانگ اور سول ایوارڈز ۔۔۔۔علی اختر

میرے ایک بہت ہی پسندیدہ کالمسٹ جناب محترم خاکوانی صاحب نے پچھلے دنوں ایک کالم “سول ایوارڈ” سے متعلق لکھا ۔ یہ ایوارڈ ہر سال مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق لوگوں کو  23 مارچ کو صدر پاکستان کے ہاتھ ایک پر وقار تقریب کے دوران دیئے جاتے ہیں ۔

پھر ایک ایسے رائٹر، کالمسٹ ، کمپئیر، اداکار جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور جن کی تحریریں ذاتی درجے میں مجھے عشق کی حد تک پسند ہیں جناب “تارڑ” صاحب نے اس موضوع پر یکے بعد دیگرے دو کالم لکھے ۔ ان کالمز میں ان ایوارڈ ز کے بارے میں اپنے ذاتی تجربات، ایواڈز لینے کے لیئے کی جانے والی کوششوں اور آخر میں ایواڈز کس طرح دیئے جاتے ہیں کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ۔

اس موضوع پر راقم کی جانب سے کچھ لکھنا “چھوٹا منہ بڑی بات” ہی ہوگی لیکن پھر بھی کیونکہ کل  23 مارچ “یوم پاکستان” تھا  اور  سول ایوارڈز کی تقسیم کا دن بھی   سو ہم نے سوچا کہ  اس موضوع سے متعلق اپنے کچھ “نیک خیالات ” رقم کیئے جائیں ۔ ایک اور بات کہ  میں مضمون کے شروع ہی میں لکھ رہا ہوں کہ  یہ محض میری رائے اور خیالات ہیں ۔ نہ ہی میری خواہش ہے کہ آپ میری  رائے سے متفق ہو جائیں، سو اختلاف کریں لیکن تمیز کے دائرے میں ۔ مکالمہ کے صفحات آپ کے لیئے بھی حاضر ہیں ۔

محترم “خاکوانی” صاحب کے کالم کے توسط سے پتا چلا کہ  اس بار ایک عدد سول ایوارڈ ایک شعبہ “اداکاری” میں گراں قدر خدمات فراہم کرنے کی  وجہ سے ایک نو جوان خوبرو اداکارہ کو بھی دیا جا رہا ہے۔ راقم کے دل میں تجسس نے انگڑائی لی کہ  اس “گراں قدر خدمت ” کا کچھ مشاہدہ ہمیں بھی کرنا چاہیے۔

سو جب “یو ٹیوب” پر محترمہ کا اسم گرامی لکھ کر سرچ کیا تو ایک عدد “آئیٹم سانگ” سر فہرست تھا ۔ “آئیٹم سانگ” کیا ہوتا ہے؟ اٹھانوے فیصد قاری تو سمجھ ہی گئے ہونگے پھر بھی دو فیصد جنتی قارئین کے لیئے وضاحت کر دیتا ہوں ۔

“آئٹم سانگ” کسی بھی فلم کے درمیان اچانک آموجود ہونے والا گانا ہوتا ہے جسکا فلم کی بنیادی کہانی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ “سینما ہال” کے ایئر کنڈیشنڈ “چلڈ” ماحول میں خون کو گرما کر مساموں سے گاڑھا  پسینہ نکالنے کے لیئے یہ روایت ہمارے پڑوسی ملک میں شروع کی گئی۔

اس گانے کے بول بھی انتہائی “غیر نصابی” جیسے “جوانی سے اب جنگ ہونے لگی کہ  چولی میری تنگ ہونے لگی ” یا “چکنی چمبیلی چھپ کے اکیلی ، پوا چڑھا کے آئی” وغیرہ ٹائپ ہوتے ہیں ۔

اس گانے میں مرکزی کردار ایک “بے پردہ دار خاتون ” کا ہوتا ہے جسکا لباس اسکے جسمانی “اسرار و رموز و خدو خال” چھپانے کو انتہائی  درجہ پر ناکافی ثابت ہوتا ہے اور باقی ماندہ “اثاثہ جات” مستقل “دھما چوکڑی” “شدید بے چین کیفیت” اور “فزیکل ایکٹوٹیز” کی وجہ سے جزوی طور پر ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ مزکورہ بالا صورتحال کی وجہ سے فلم بینوں میں “سنسیشن ” پیدا کرنا بھی ایک فن ہے اور ویسے بھی ہر ایکٹریس اس سب “غیر مناسب ” سی صورت حال کے لیئے نہ ہی راضی ہوتی ہے اور نہ ہی “موزوں” سو “اداکاری” کے اس شعبہ کوباقی شعبوں سے الگ کر کے اس “مرکزی کردار” کو ایک نیا نام “آئیٹم گرل” دیا گیا ہے ۔

ماضی یعنی “قبل از پیدائش راقم” کے تاریک دور میں “بالی وڈ ” فلموں میں یہ گراں قدر خدمت “ہیلن” نام کی ایک خاتون ادا  کیا کرتی تھیں اور آج کل کے جدید دور میں “کینیڈا” سے امپورٹ شدہ مشہور “پورن اسٹار” “سنی لیونی”، “آئٹم سانگ” کرنے میں سر فہرست ہیں ۔ جو کہ  نارمل اداکاری کے حوالے سے “غیر موزوں” لیکن مزکورہ بالا شعبہ اداکاری کے حوالے سے “موزوں ترین” واقع ہوئی ہیں ۔

ہماری فلم انڈسٹری نے جہاں دیگر اچھی روایات کو اپنایا وہیں پڑوسی ملک کی “آئیٹم سانگ” والی اچھی روایت کو بھی اپنا کر اپنی فلموں میں دھڑا دھڑ”آئیٹم سانگ” شامل کرنا شروع کر دیے۔

تو بات ہو رہی تھی “سول ایوارڈ” کی حقدار قرار دی جانے والی اداکارہ کی ۔ سو جو گانا محترمہ کی اداکاری کے شعبہ میں پیش کی گئی  “گراں قدر خدمات ” میں سر فہرست تھا اسکے بول کچھ اس طرح تھے ۔

گٹکا میں ہوں چبالے
ٹی ٹی میں ہو ں چلا لے
جھنڈا میں ہوں لگا لے
گدا میں ہو ں بچھالے
ٹھرا میں ہوں چڑھالے
جب بھی کاٹوں میں رستہ میں دنگے کراؤں
مجھے کہتے ہیں “بلی”
میاوں میاوں

مذکورہ بالا شاہکار شاعری کے ساتھ ہی ساتھ گانے پر اچھل، بیٹھ اور لیٹ لیٹ کر “وجود انسانی ” میں پیدا کردہ طلاطم نما”رقص بسمل” ، عین پاکستانی و مشرقی اقدار و کلچر سے ناصرف مطابقت رکھتا تھا بلکہ بقیہ حاضرین و تماشبین کے ہاتھوں میں خود کار ہتھیار دے کر  پاکستان کا امیج دنیا بھر میں “مزید ” بہتر کرنے کی مخلصانہ کوشش بھی کی گئی  تھی ۔

یہاں راقم اس شعبہ میں مذکورہ اداکارہ کو ایوارڈ دینا محض ان ناانصافیوں کے ازالے کی ایک معمولی کاوش قرار دینے میں حق بجانب ہے کیونکہ راقم کے مشاہدہ کے مطابق اس شعبہ سے وابستہ خاص کر “پشتو” فلموں کی بہت سی اداکارائیں اس معیار و گراں قدر خدمت پر بہت پہلے پوری ہی اتر چکی ہیں اور سول ایوارڈ کی یہ بھی حقدار ہیں ۔

اسکے ساتھ ساتھ کھیتوں میں یا بارش کے دوران گانے فلم بند کرانے والی پرانی اداکارائیں یا وہ اسٹیج ڈرامے جن میں اداکار ایک دوسرے کے گنجے سروں پر تھپڑ مار کر یا  ذومعنی جملے بول کر حاضرین کو محظوظ کرتے ہیں ،اسکے علاوہ اسٹیج پر وہ دھماکے دار ڈانس پرفارمینس جن کے درمیان اچانک لباس کا کوئی  انگ اٹھا کر حاضرین کو بلند فشار خون کا مریض بنا دیا جاتا ہے ۔ ان سب کا کیا قصور ؟یہ ناانصافی کیسی ؟ انہیں بھی ایوارڈز دیے جانے کا راقم پُر زور مطالبہ کرتا ہے۔

ایسا نہیں کہ  پاکستان میں صرف “آئیٹم سانگ” یا “آئیٹم گرلز” ہی ہوتی ہیں بلکہ معین اختر، بشرا انصاری، راحت کاظمی، طلعت حسین وغیرہ جیسے بہترین اداکار بھی اسی دھرتی کے باسی ہیں ۔ ضیاء محی الدین جیسے مکالمہ بولنے والے ، سعید خان (رنگیلا) جیسا ٹیلنٹ جو ایک ہی وقت اداکار، اسکرین پلے رائٹر، گلوکار اور ڈائریکٹر بھی تھے اور اس پرانے دور میں “کبڑا عاشق” “انسان اور گدھا” جیسی غیر روائتی فلمیں بنانے  والے  بھی اسی ملک میں نام کمانے میں کامیاب ہوئے ۔

ان سب کے ساتھ ساتھ ہی ریڈیو، چھوٹی و بڑی اسکرین پر نام کمانے والے اور ساتھ ہی ایوارڈز اور دیگر مراعات حاصل کرنے والے بہت سے ایسے بھی ہیں جو اداکاری کے اسرار سے چاہے واقف نہ ہوں لیکن بہت سی” دیگر” صلاحیتیں  انہیں ان سب مراعات و نوازشات کا حقدار بناتی ہیں ۔

محترم و محبوب تارڑ صاحب بڑے آدمی ہیں اور انکے مقام و مرتبہ کو سوٹ نہیں کرتا ہے کہ  وہ ایوارڈ پانے والوں یا کوششیں کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے انکی اس قسم کا بھی ذکر کر دیتے سو راقم جو کہ  بہت ہی چھوٹا انسان ہے اور اسکے علاوہ ماضی میں ایک قاری کی جانب سے ” حیرت ہے یہ چیز بھی مکالمہ میں جگہ پا گئی ” جیسے کمپلیمنٹ بھی حاصل کر چکا ہے تو مناسب ہے کہ  اس کیٹیگری کے “ٹیلنٹ” رکھنے والے افراد کا ذکر خیر راقم خود ہی کر دے ۔

ویسے تو راقم یہ سب بیان کرنے والا پہلا انسان نہیں بلکہ بہت سے تاریخی حوالہ جات و کتب اس حوالے سے پہلے بھی موجود ہیں ۔ بہت سے با برکت نام نامی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی بھی زینت ہیں ۔ اداکارہ ترانہ کے قومی ترانے میں تبدیلی کا قصہ بھی بہت مشہور ہے۔ پنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور سیاستدان کے اس دور کے قصے جب وہ وزیر سیاحت تھے ، حویلی پر ہونے والے پرائیویٹ مجروں کی کہانیاں بھی زبان زدعام ہیں ۔

تازہ ترین مثال محترمہ شہلا رضا صاحبہ کی جانب سے ایک مشہور سنگر، ہوسٹ، ایکٹر جنہیں ہم بچپن سے ٹیلیویژن پر دیکھتے ہیں سے متعلق تھا جب وہ مشہور قوال جناب امجد صابری کے کراچی میں بے رحمی سے قتل ہو جانے کے بعد ایک موومنٹ کی قیادت کر رہے تھے دیا جانے والا بیان تھا۔ شہلا رضا صاحبہ نے انہیں تضحیک  کے ساتھ اداکار ماننے سے انکا کر دیا تھا اور “سندھ سنسر بورڈ” کا چیئرمین ہونے کے باوجود پوچھا تھا ۔ “کون! وہ جنرل رانی کے نواسے” ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اس بات کی تائید نہیں کرتا کہ  انہوں نے صحیح کہا لیکن ایک آرٹسٹ سے پہلے وہ کیا ہیں یا اس مقام پر کیسے پہنچے یہ بیان اسی سے متعلق ایک طعنہ تھا۔ تو صاحبو راقم یہاں صرف اشارے کنائے کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہے ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply