خدا کا عقیدہ/مبشر حسن

کہا جاتا ہے کہ خدا کی بنیاد پر کائنات کی توجیہہ کرنا اصل مسئلے کا حل نہیں ۔ کیوں کہ پھر فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا نے کائنات کو بنایا تو خدا کو کس نے بنایا۔ مگر یہ ایک غیر منطقی سوال ہے ۔ اصل مسئلہ ” بے سبب‘ خدا کو ماننا نہیں ہے ۔ بلکہ دو بے سبب‘ میں سے ایک بے سبب کو ترجیح دینا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے سامنے ایک پوری کائنات موجود ہے ۔ ہم اس کو دیکھتے ہیں ۔ ہم اس کا تجربہ کر رہے ہیں ۔ ہم کائنات کے وجود کو ماننے پر مجبور ہیں ۔ ایک شخص خدا کو نہ مانے ،تب بھی عین اسی وقت وہ کائنات کو مان رہا ہوتا ہے۔ اب ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کا ئنات کو بے سبب مانے ۔ مگر اس قسم کا عقیدہ ممکن نہیں۔ کیوں کہ کائنات میں تمام واقعات بہ ظاہر اسباب و علل کی صورت میں پیش آتے ہیں ۔ ہر واقعے کے پیچھے ایک سبب کار فرما ہے۔ اس طرح خود کائنات کی اپنی نوعیت ہی یہ چاہتی ہے کہ اس کے وجود کا ایک آخری سبب ہو ۔ جب کائنات کے حال کا ایک سبب ہے تو اس کے ماضی کا بھی لازمی طور پر ایک سبب ہونا چاہیے۔ یعنی وہی چیز جس کو علت العلل کہا گیا ہے۔ بے سبب کائنات کو ماننا ممکن نہیں، اس لیے لازم ہے کہ ہم اس کا ایک سبب مانیں۔ کائنات لازمی طور پر اپنا ایک آخری سبب چاہتی ہے ۔ یہی منطق اس کو لازمی قرار دیتی ہے کہ ہم خدا کو مانیں ۔ اس لاینحل مسئلہ کو حل کرنے کی دوسری کوئی بھی تدبیر ممکن نہیں ۔ جب ہم بے سبب خدا کو مانتے ہیں تو ہم دو ممکن ترجیحات میں سے آسان تر کو ترجیح دیتے ہیں۔ بے سبب خدا کو مان کر ہم اپنے آپ کو بے سبب کائنات کو ماننے کے ناممکن عقیدہ سے بچالیتے ہیں۔ خدا کوماننا عجیب ہے۔ مگر خدا کو نہ ماننا اس سے بھی زیادہ عجیب ہے ۔ خدا کو مان کر ہم صرف زیادہ عجیب کے مقابلے میں کم عجیب کو اختیار کرتے ہیں۔
یہ صرف خدا کے وجود کا معاملہ نہیں ۔ خالص سائنسی نقطۂ نظر سے، اس دنیا میں کوئی بھی چیز نہ ثابت (prove) کی جاسکتی ، اور نہ غیر ثابت (disprove) کی جاسکتی۔ کسی بھی چیز کو ماننے کے معاملے میں یہاں انتخاب (option) ثابت شدہ (proved) اور غیر ثابت شدہ (unproved) کے درمیان نہیں ۔ بلکہ ہر انتخاب ورک ایبل (workable) اور نان ورک ایبل (non-workable)‏ کے درمیان ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر اہل سائنس عام طور پر کشش (gravity) کے نظریے کو مانتے ہیں۔ مگر یہ ماننا اس لیے نہیں کہ کشش ثقل کوئی ثابت شدہ نظریہ ہے۔ نیوٹن نے سیب کو درخت سے گرتے ہوئے دیکھ کر یہ سوال کیا تھا کہ سیب نیچے کیوں آیا، اور پھر تحقیق کر کے اس نے کشش ارض کا نظریہ دریافت کیا۔ مگر ایک سائنس داں نے کہا کہ نیوٹن کو اس پر تعجب ہوا تھا کہ سیب نیچے کیوں آیا۔ مجھے یہ تعجب ہے کہ سیب او پر کیسے گیا۔ درخت کی جڑ نیچے کی طرف جاتی ہے، اور اس کا تنہ اوپر کی طرف ۔ اگر جڑ کے نیچے جانے کا سبب یہ بتایا جائے کہ زمین میں کشش ہے تو تنہ اور شاخوں کے اوپر جانے کی توجیہہ کس طرح کی جائے گی۔
یہی معاملہ تمام سائنسی نظریات کا ہے۔ سائنس میں جب بھی کسی نظریے ( theory) کو مانا جاتا ہے تو وہ غیر ثابت شدہ کے مقابلے میں ثابت شدہ کو ماننا نہیں ہوتا۔ بلکہ نان ورک ایبل تھیری ‏(non-workable theory) کے مقابلے میں درک ایبل تھیری (workable theory)‏ کو ماننا ہوتا ہے ۔ ٹھیک یہی اصول نظریہ خدا کے معاملے میں بھی چسپاں ہوتا ہے۔ کشش کے معاملے میں ہمارے لیے جو انتخاب ہے وہ کشش رکھنے والے مادہ اور بے کشش مادہ میں نہیں ہے۔ بلکہ کشش رکھنے والے مادہ اور غیر موجود مادہ میں ہے۔ چونکہ غیر موجود مادے کا نظریہ ورک ایبل نہیں ہے۔ اس لیے ہم نے کشش رکھنے والے مادہ کا انتخاب لے رکھا ہے، خالص علمی اعتبار سے یہی معاملہ خدا کے عقیدہ کا بھی ہے۔ کائنات کے اندر تخلیق کی صلاحیت نہیں ، وہ اپنے اندر کے ایک ذرے کو نہ گھٹا سکتی ، اور نہ بڑھا سکتی۔ اس لیے، دوسرے تمام سائنسی نظریات کی طرح، یہاں بھی ہمارے لیے انتخاب با خدا کائنات (universe with God) اور بے خدا کائنات universe without God)‏ میں نہیں ہے ۔ بلکہ باخدا کائنات اور غیر موجود کائنات (non-existent universe) میں ہے ۔ چونکہ ہم غیر موجود کائنات کا انتخاب نہیں کر سکتے ۔ اس لیے ہم مجبور ہیں کہ باخدا کائنات کے نظریے کا انتخاب کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply