غیرت (اپنے بیٹے کے نام ایک خط )-محمد وقاص رشید

یارا ! بس میں ہوتا تو تیرا نام “ازالہ” رکھتا معلوم کیوں ؟ نہیں، نہیں یار۔۔۔۔خود ہی پتا چل جائے گا جب تیری نئی نئی بھیگتی مسیں وقت کی طشتری سے اٹھا کر چاندی کے ورق خود پر اوڑھ لیں گی۔ تب تک مزے کر۔

یار سن ! ہم جس ملک میں رہتے ہیں جسے اپنا وطن کہتے ہیں یہ اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اسلام کو مکمل ضابطہِ حیات کہتا ہے۔ مگر صرف کہتا ہی ہے۔ اس کہنے اور کرنے کے درمیان اتنی بڑی خلیج ہے کہ ایک پوری قوم نہیں۔۔بلکہ قوم نہیں آبادی اس میں غرق ہو چکی۔ کوشش ہے کہ تو اس میں سے نکل آئے۔یہ خط وہی تنکا ہے جسکا میں تجھے اور تیرے ہمعصروں کو سہارا بنانا چاہتا ہوں میرے لعل۔

بچے بات یہ ہے کہ خدا نے اس کائنات کی ترویج کی سکیم مردوزن کے ذریعے قائم کی۔ اس ضمن میں دونوں کی فطرت میں ایک دوسرے کے لیے محبت رکھ چھوڑی۔ ہم مسلمان معاشی و معاشرتی حقائق کے زیرِ اثر قائم کیے گئے محبت کے اس معاہدے کو نکاح کہتے ہیں۔

تو نوجوانی کے میدان میں پاؤں دھرنے کو ہے یہی وہ وقت ہے جب تیرے اندر اس فطرت کی کلی پھوٹے گی۔ تیرے خواب مہکنے لگیں گے۔ تیرے تصور کے کینوس پر خیالوں کے رنگ کوئی تصویر بنا دیں گے ۔ تیرے تصور کے چاک پر پڑی الفت کی مٹی سے تیرا ذوق ایک مجسمہ گھڑ دے گا۔ دستِ وفا کی نرم پوریں تیری سوچوں کے سازندے کے تاریں یوں چھیڑیں گی کہ خیال گنگنانے اور جوبن رقص کرنے لگے گا۔ ہو سکتا ہے ایسے میں زمین پر کوئی چہرہ تجھے تصور کے اس کینوس پر بنی تصویر اور چاکِ تصور پر براجمان مجسمے جیسا لگے اور تجھے اس سے محبت ہو جائے۔ میں تیری محبت کے راستے میں نہیں آؤں گا ہاں تیرے کان میں سرگوشی ضرور کروں گا تجھے یاد دلانے کے لیے کہ تصور اور حقیقت کوئی جذباتیت کا سراب تو نہیں۔ یار آخر ان سرابوں سے بچنے اور بچانے کی دہائیوں کی ریاضت ہے تیرے لیے۔ لیکن فیصلہ پھر بھی تیرا ہی ہو گا۔

اچھا سن ! تجھے تو پتا ہے دعویٰ ہے نہ کوئی زعم بس کہنے اور کرنے کو یکجا کرنے کی مسافت میں دہائیاں کاندھوں پر لاد لیں۔ مجھے یقین ہے تو جس سے محبت کرے گا اسکے بھائی سے یہ توقع کرے گا کہ وہ تیری محبت کے حروف اور املا خلط ملط نہ کرے یعنی محبت کو غیرت نہ لکھے۔ تیری محبت کا مسئلہ اسکی غیرت کا مسئلہ نہ ہو۔ کسی ایسی صورت میں تو فوراً اسلام کا سہارا لے گا کہ اسلام جیون ساتھی کے چناؤ میں پسندیدگی کا اختیار اور حق دیتا ہے۔۔۔ہے ناں ؟

تو چندا سن ! میری ایک بیٹی بھی ہے تیری بہن۔ میں نے جیتے جی خود کو تم دونوں میں برابر تقسیم کر دیا۔ اسلام صرف مرد پر نہیں اترا جگر، عورت کا بھی اتنا ہی دین ہے۔ خدا کی وہ سکیم مردوزن دونوں سے تکمیل پاتی ہے۔ نکاح ایک کے لیے پسند اور دوسرے کے لیے جبر نہیں ہو سکتا۔ مخالف جنس کی کشش ایک  کے لیے محبت دوسرے کے لیے غیرت نہیں ہو سکتی پیارے لعل۔ فطرت کے خالق دو نہیں ایک ہے۔ قل ھو اللہ احد

آئے روز یہاں خبریں آتی ہیں “غیرت کے نام ” پر قتل۔ جب فطرت ایک ہے فطرت کا تخلیق کار ایک ہے تو معیارات دو کیوں۔ سچ کہوں ؟ ذرا گہرائی میں جاتے ہیں۔ یہ نام نہاد غیرت کیا اس چیز کا انکار نہیں کہ اسلام ضابطہءِ حیات ہے ؟۔ کیا اس چیز کی بھی تنسیخ نہیں کہ “لوگو گواہ رہنا کہ میں نے خدا کا دین تم تلک پہنچا دیا” کیا (معاذاللہ ) یہ عملی طور پر اس کا اظہار نہیں کہ دین میں ایک غیرت کا خانہ خالی تھا جو آج کے وہ نام نہاد غیرت مند بھائی آ کر پُر کرتے ہیں جو ایک بہن کے وہ حق استعمال کرنے کی صورت میں اس سے جینے کا حق چھین لیتے ہیں جو انہیں یہ اللہ اور رسول ص کا یہ ضابطہِ حیات دیتا ہے۔ کسی غیر مسلم کا غلطی سے کوئی ورق جلا دینا توہینِ مذہب نہیں۔ یہ ہے توہینِ مذہب۔ چندا

شرم سے ڈوب مرے وہ جنگل نما معاشرہ جس کی نام نہاد غیرت خدا کے دیے ہوئے حق کے استعمال پر یوں طعنہ زن ہوتی ہے کہ کسی کی جان لینے والا قاتل “غیرتمند کہلاتا ہے “۔ یہ غیرت کے نام پر سب سے بڑی بے غیرتی ہے۔

طریقہ ؟ سن ناں۔ زندگی طریقوں کی حسرت سے ہی تو کشید کی جگر گوشے۔ اس وحشی جنگل اور اسکی منافقانہ روایات کو نہ گھر میں جگہ دینا نہ دل میں۔ اسکو کبھی یہ احساس نہ ہونے دینا کہ یہ اتنا اہم ہے کہ تجھے مسلمان بھی اسکو دکھانے کے لیے بننا ہے۔ پتری
بیٹا اس سارے خط کی کہانی کا لبِ لباب Moral of the story ہم سب کے لیے خدا کے آخری پیغمبر کا وہ پیغام ہے جو اپنی ذات میں ایک ضابطہ حیات ہے اور وہ یہ ہے کہ “جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہ دوسرے کے لیے بھی پسند کرو “۔۔میرے لعل اس دوسرے میں تیری بہن بھی آتی ہے کسی کی بھی۔ لختِ جگر یہ ہوتی ہے غیرت۔
“تو جُگ جُگ جیے”
تیرا یار

Advertisements
julia rana solicitors

(محمد وقاص رشید)
خبر ! کوٹ چاننہ میں بھائی نے غیرت کے نام پر بہن کو قتل کر کے اسی وقت دفنا بھی دیا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply