• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی سیاست میں مذہبی استحصال کی روش۔۔صاحبزادہ امانت رسول

پاکستانی سیاست میں مذہبی استحصال کی روش۔۔صاحبزادہ امانت رسول

یہ ایک فطری امر ہے جو شخص جس نظریے سے تعلق رکھتا ہے، اس کی ایک جذباتی وابستگی بھی اپنے نظریے سے قائم ہو تی ہےاور اس کا اظہار اجتماعی زندگی میں بھی دکھائی دیتا ہے۔پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے ،مسلمان اسلام سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔اگر جذباتی وابستگی فکری وا بستگی سے محروم ہوتو با مقصد نتائج کا حصول نا ممکن ہو جا تا ہے۔جذباتی وابستگی وہ”دکھتی رگ “ہے جس پہ”نبض شناس”راہنما ہمیشہ ہاتھ رکھنے کی کوشش کر تے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں عقیدت، احترام اور حمایت حاصل کر نے کیلئے مذہب بطور آلہ استعمال ہو تا ہے ۔تقویٰ،زہد،عبادت کے اظہار اور خود ستائی سے عوام کو اپنی طرف متوجہ کیا جا تا ہے ۔اگر چہ یہ طریقہ کار دیر پا نہیں رہتا جو بھی اس حلیے میں آیا ،وہ جلد پہچانا گیا اور اس کے پس پر دہ عزائم بھی پوشیدہ نہ رہ سکے لیکن اس وقت تک قوم کا قیمتی وقت غیر ضروری مشق اور بے مقصد سر گرمیوں کی نذر ہو کر ضائع ہوگیا ۔

پاکستان میں سیاسی رہنما ہوں یا مذہبی ،تمام اپنی عزت و تو قیر بڑھانے یا کم از کم ذلیل و رسوا ہونے سے بچنے کیلئے مذہب کا سہارا ضرور لیتے ہیں۔نیتوں کے حال سے خدا واقف ہے لیکن با قاعدہ منظّم طریقے سے ایسی ویڈیوز تیار کی جاتی ہیں کہ عوام اس سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتے اور انہیں یقین دلا یا جا تا ہے کہ آپ کا راہنما مذہبی خیالات کا مالک ہی نہیں بلکہ اسلام کے نام پہ سب کچھ لٹانے کیلئے تیار بیٹھا ہے ۔لڑائی میں جیسے فیصلہ کر نا مشکل ہو تا ہے کہ آغاز کس نے کیا اس طرح یہاں بھی فیصلہ کر نا مشکل ہو جا تا ہے کہ یہ خو د نمائی کا آغاز مخالفین کے ملک دشمن اور مذہب دشمن فتوؤں کے دفاع میں ہو ا یا عوام سے ووٹ اکھٹے کر نے کیلئے۔دو نو ں صورتوں میں مذہب کا بے دریغ استعمال ہو تا ہے ۔

سیاسی راہنما اتنے ہی مذہبی ہو تے ہیں جتنے عوام۔وہ مسلمان ہوتے ہیں لیکن مولوی،ملاّ یا مو لا نا نہیں ہو تے ۔ان کی گزر او قات مذہب سے وابستہ نہیں ہو تی ۔اصل مسئلہ وہاں پیدا ہو تا ہے جب ایک مذہبی پس منظر اور خاص طور پر مسلکی پس منظر رکھنے وا لا شخص ایک سیاسی جماعت قائم کر کے میدان سیاست میں قدم رکھتا ہے ۔اس کی بو د و باش سے لیکر وابستگی تک ،اس کی تعلیم سے تربیت تک،ہر مقام پہ مذہب دکھائی دیتا ہے ۔پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ مذہبی پس منظر رکھنے والی سیاسی جماعتیں کبھی بر سر اقتدار نہیں آ ئیں لیکن ایک “پریشر گروپ”بن کر حکومتِ وقت سے اپنے مطالبات ضرور تسلیم کر واتی رہی ہیں۔حکومت وقت بھی اس خوف سے مطالبات تسلیم کر تی رہی کہ ان کے مطالبات کو تسلیم نہ کر نا گو یا کہ مذہب مخالف ہونے کا الزام اپنے سرلینا ہے ۔ایوب خان سے لیکر بھٹو تک مطالبات تسلیم کیے جانے کی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی دکھائی دیتی ہے ۔اس کے مقابل سیاستدانوں میں ردّعمل کے طور پر یہ سوچ پروان چڑھی کہ اس ملک میں سیاست و حکومت کر نی ہے تو مذہبی رسوم ورواج ،ظاہری خدو خال اور تصنع کا انداز اختیار کر نا ہو گا ۔نتیجتاًاس ملک میں اسلام کے نام پہ منافقت کا چلن عام ہوا۔

اس تناظر میں ہمارے مذہبی راہنماؤں،حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ویڈیوز ،تصاویر اور پیغامات کو دیکھا ، پڑھا جا سکتا ہے۔یہ کلچر آہستہ آ ہستہ ہمارے ہاں پروان چڑھا ۔ نو بت بایں جار سیداب حکمران علماء و مشائخ کے حضور کلمہ پڑھ کر ختم نبوت پہ ایمان کا اقرار کر تے اور انہیں اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔مجھے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف پہ لگائے جانے والے الزامات میں زمانے کے اختلاف کے سوا کوئی اور اختلاف دکھائی نہیں دیتا ، پہلے اصغر خان تھے اب عمران خان ،پہلے مفتی محمود تھے اب مولانا فضل الرحمن،پہلے پروفیسر غفور تھے اب سراج الحق،پہلے نواب زادہ نصر اللہ خان تھے اب ڈاکٹر طاہر القادری،لیکن الزامات پہلے بھی یہی تھے اوراب بھی وہی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

تصور کریں کہ آج قائد اعظم ہو تے تومو جو دہ سیاسی ماحول میں ان کی ذات پہ کتنے رکیک حملے ہو تے ۔وہ مذہب کو سیاسی اور ذاتی مفاد کیلئے استعمال کر نے کے با لکل حق میں نہ تھے ۔ان کی ذاتی زندگی سے متعلق ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ انہو ں نے اپنی شا ن و شوکت اور عزت و احترام بڑھانے کیلئے کبھی مذہب کا استعمال نہیں کیا تھا ۔ مذہب ،قر آن اور سیرت رسول ﷺسے کتنی وابستگی اور عقیدت تھی۔کچھ لو گو ں نے ان کے خفیہ گوشوں کو اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے مثلاًیحیٰ بختیارمرحوم بیان کر تے ہیں کہ میں قائد اعظم کی تصاویر بنا یا کر تا تھا۔ ایک روز دیکھا کہ قائد اعظم حدیث کی ایک کتاب پڑھ رہے تھے ۔میں نے حدیث کی کتاب کے ساتھ انکی تصویر بنانے کی کوشش کی لیکن قا ئد اعظم نے کتاب کے ساتھ تصویر نہیں بنانے دی بلکہ کتاب ایک طرف رکھ دی ۔یہ واقعہ ظاہری طور پرمعمولی سا ہے لیکن اس پہ غور کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ اس واقعہ میں غیر معمولی سبق پنہاں ہے ۔اگر قائداعظم چاہتے تو کتاب کے ساتھ تصویر اترو ا سکتے تھے، اس تصویر کی سینکڑوں کا پیاں بنا کر تقسیم بھی کی جا سکتی تھیں تا کہ لو گو ں کو قائد اعظم کی اسلام سے محبت کا ثبوت ملتامگرقائد اعظم کے انکار سے یہ پیغام ملا کہ مذہب کے نام پر عوام کا جذباتی استحصال درست عمل نہیں۔مذہب پہ عمل کیا جا ئے اور اس کے سنہری اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے مگر اس نام پر عوام کا جذباتی استحصال نہ کیا جائے۔قائد اعظم بَر ملا اسلام کے اعلیٰ اصولوں کو بیان کر تے اور پاکستان کو اسلام کی تجر بہ گاہ قرار دیتے تھے لیکن وہ کسی طرح بھی ایسے مذہبی کلچر کے حق میں نہیں تھے جس میں مذہب کو سیاست و ریاست کے معاملات میں استحصال و تعصب کیلئے استعمال کیاجائے۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply