عمران خان ، گھر سے گھر تک ۔۔آصف محمود

عمران خان واقعی ایک منفرد رہنما ہیں ۔ باقی رہنما اقتدار میں کئی برس گزارنے کے بعد بے نقاب ہوئے ، عمران خان یہ کارنامہ حکومت میں آئے بغیر ہی انجام دیے چلے جا رہے ہیں ۔ لمحہ لمحہ وہ ضائع ہو رہے ہیں ، برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ دے ۔ نیک نامی کے سوا ان کے دامن میں تھا ہی کیا ، اس متاع عزیز سے وہ جس تیزی سے محروم ہو رہے ہیں کاش وہ اس کا احساس کر سکیں ۔اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں ان کی بے اعتنائی اور بے نیازی دیکھ کر خوف بھی آتا ہے اور دکھ بھی ہوتا ہے ۔ ان کے لفظ بھی اب دوسروں کی طرح بے معنی ہوتے جا رہے ہیں اور ان کے طویل خطبے بھی اب اسی طرح بے تاثیر ہیں جیسے دوسروں کے۔ وہ اس بوڑھی عورت کے مثل ہیں ، ساری عمر جس نے سُوت کاٹا اور آخر میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیے ۔ عمران نے بھی طویل ریاضت کی اور جب لوگ ان کے اخلاقی وجود کے قائل ہو گئے تو حادثہ یہ ہوا کہ وہ خود اس سے بے نیاز ہو گئے ۔ اب انہیں دیکھتا ہوں تو جان ایلیا یاد آتے ہیں :
’’ محبت بری ہے ، بری ہے محبت
کہے جا رہے ہیں ، کیا جا رہے ہیں‘‘

عمران خان کی کہانی بھی بس اتنی سی ہے کہ کہے جا رہے مگر ساتھ ساتھ کیے بھی جا رہے ہیں ۔ موروثی سیاست سے لے کر سرکاری وسائل کو چراگاہ سمجھ لینے تک جس جس چیز کو وہ برا کہے جا رہے ہیں ، سچ یہ ہے کہ وہی کچھ خود بھی کیے جا رہے ہیں ۔ معلوم نہیں ان کے حلقہ احباب میں کوئی رجل رشید ہے جو انہیں تنبیہہ کر سکے یا اب رہنمائی کو صرف شیخ رشید ہی میسر ہیں ۔

پاکی داماں کے قصے تو اتنے تھے کہ گماں ہوتا تھا قائد انقلاب دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں لیکن معلوم یہ ہوا نئے پاکستان کی ساری جدوجہد بس ’’ آنیوں جانیوں ‘‘ پر ہی مشتمل ہے ۔ اور یہ آنیاں جانیاں بھی براستہ جی ٹی روڈ نہیں کیونکہ قافلہ انقلاب کے مغنی کا کہنا ہے کہ’’ جی ٹی روڈ تے بریکاں‘‘ لگ جاتی ہیں اس لیے انقلاب کے راستے کی یہ کٹھن مسافتیں جلد از جلد طے کر نے کے لیے کے پی کے حکومت کے ہیلی کاپٹر سے شغل فرمایا گیا ۔ نونہالان انقلاب چاہیں تو ان ’’ آنیوں جانیوں ‘‘ کی تفصیل جیب میں رکھیں اور سر راہ لوگوں کو روک روک سنائیں اور پھر بغلیں بجا بجا گنگنائیں کہ یہ ہوتا ہے قائد اور یہ ہوتا ہے ویژن ۔

پرانے زمانے میں گاڑیوں پر لکھا ہوتا تھا روٹ ہمراہ ہے ۔ عمران کا یہ سفر بھی روٹ ہمراہ ہے کے زرین اصول کے تحت طے ہوتا رہا ۔ بنی گالہ سے کوہاٹ ، کوہاٹ سے پشاور ، پشاور سے بنی گالہ۔ بنی گالہ سے مالا کند ، مالا کنڈ سے بنی گالہ۔ بنی گالہ سے پشاور ، پشاور سے بنی گالہ، بنی گالہ سے مردان ، مردان سے بنی گالہ ۔بنی گالہ سے بحریہ کیمپ ، بحریہ کیمپ سے بنی گالہ ۔ بنی گالہ سے گورنر ہاؤس ، گورنر ہاؤس سے بنی گالہ ۔ بنی گالہ سے بٹگرام ، بٹگرام سے بنی گالہ۔ بنی گالہ سے چکدرہ، چک درہ سے بنی گالہ ۔ بنی گالہ سے پشاور، پشاور سے بنی گالہ ۔ پھر بنی گالہ سے پشاور ، پشاور سے بنی گالہ ۔ ایک بار پھر بنی گالہ سے پشاور اور پشاور سے بنی گالہ ۔ ایک بار مزید بنی گالہ سے پشاور ، پشاور سے بنی گالہ۔ ایک بار اور بنی گالہ سے پشاور ، پشاور سے بنی گالہ ۔ بنی گالہ سے کوہاٹ، کوہاٹ سے بنی گالہ ۔ بنی گالہ سے ایبٹ آباد ، ایبٹ آباد سے بنی گالہ ۔ بنی گالہ سے ہری پور ، ہری پور سے بنی گالہ ۔ بنی گالہ سے پشاور،پشاور سے بنی گالہ ۔ پھر بنی گالہ سے پشاور اور پشاور سے بنی گالہ ۔ دو دفعہ مزید بنی گالہ سے پشاور ، پشاور سے بنی گالہ ۔ بنی گالہ سے چترال، چترال سے بنی گالہ۔ بنی گالہ سے مالم جبہ، مالم جبہ سے بنی گالہ ۔ بنی گالہ سے پشاور ، پشاور سے بنی گالہ ۔ بنی گالہ سے نوشہرہ، ناشہرہ سے بنی گالہ۔ بنی گالہ سے پشاور ، پشاور سے بنی گالہ۔ایک بار پھر بنی گالہ سے پشاور اور پشاور سے بنی گالہ ۔ نتھیا گلی سے پام ہائٹس ایبٹ آباد اور ایبت آباد سے نتھیا گلی۔ آپ غور فرمائیں قریبا تمام سفر صاحب کے گھر سے گھر تک ہیں۔ جب سوال اٹھا کس حیثیت میں تو کے پی کے حکومت نے کہا وہ اکیلے نہیں تھے ان کے ساتھ وزیر اعلی بھی ہوتے تھے۔ اب سوال یہ ہے وزیر اعلی کیا عمران خان کے ذاتی خدمت گار ہیں کہ وہ پہلے بنی گالہ آتے تھے اور یہاں سے قائد انقلاب کے ساتھ جھولے لینے جاتے تھے ؟ کوئی ایک دو سفر وزیر اعلی ہاؤس سے بھی شروع ہوئے ہوتے تو اس کہانی کا کچھ بھرم تو رہ جاتا کہ وزیر اعلی ساتھ ہوتے تھے۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ نئے پاکستان میں وزیر اعلی میر منشی ہوتا ہے؟

ہیلی کاپٹر کے پی کے حکومت کا ہو یا جہانگیر ترین کا ، خان صاحب کو بہت پسند ہے۔ سرکاری ہیلی کاپٹر پر عمران خان نے 73 گھنٹے اور 55 منٹ سیر فرمائی۔ یہ مفت کے جھولے 18 ہزار کلومیٹر پر محیط ہیں ۔ آپ نئے پاکستان کی انتظامیہ کے کمالات دیکھیے اور ان کی کفایت شعار واردات کو دود دیجیے ، حکومت نے ایک کلومیٹر کے سفری اخراجات کا تخمینہ صرف 28 ہزار 8 سو پینسٹھ روپے فی گھنٹہ لگایا یعنی مارکیٹ سے قریبا 7 گنا کم ۔ یعنی یہی ہیلی کاپٹر اگر مارکیٹ ریٹ پر لیا جاتا تو فی منٹ قریبا ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ خرچہ آتا لیکن اپنی حکومت ، اپنا ہیلی کاپٹر اپنا اکاونٹنٹ اور اپنا تخمینہ ۔ یا پھر ہو سکتا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ کے پی کے حکومت کا ہیلی کاپٹر صاف چلے شفاف چلے کے سنہرے اور انقلابی اصول پر عمل پیرا ہو اس لیے اس پر کم خرچ آتا ہو۔ کاروباری دنیا کا اصول ہے کہ سہولت اگر گھر میں پہنچانی ہے تو ریٹ اور زیادہ ہو جائے گا اور خان صاحب کو ہیلی کاپٹر چونکہ ان کے گھر سے لے کر اڑتا رہا اس لیے اصل اخراجات تو شاید دو لاکھ روپے فی منٹ سے بھی زیادہ ہوں ۔ اور اگر دو لاکھ بھی ہوں تو ذرا دو لاکھ کو تہتر گھنٹے پچپن منٹ سے ضرب دے کر دیکھیے نیا پاکستان اس قوم کو کتنے میں پڑ رہا ہے۔ ہیلی کاپٹر کے جھولے اگر قائد محترم کو اتنے ہی پسند ہیں تو کیوں نہ اگلے الیکشن میں بلے کی بجائے ہیلی کاپٹر کو تحریک انصاف کا انتخابی نشان بنا دیا جائے۔ نیا پاکستان بنے نہ بنے ابرار الحق ایک نیا گانا تو بنا ہی دیں گے ۔صاف چلی شفاف چلی کے بعد اب : ’’ میں اُڈی اُڈی جاواں ہوا دے نال‘‘۔

تبدیلی آ نہیں رہی ، تبدیلی آ چکی ہے ۔ ایک شخص جو کے پی کے حکومت کا حصہ نہیں ، جو اس کے وسائل استعمال کرنے کا کوئی استحقاق نہیں رکھتا ، جو کے پی کے کا رہائشی نہیں ، جس کے پاس اس صوبے کی کوئی ذمہ داری یا کوئی منصب نہیں وہ شخص صوبے کے وسائل سے اس بے رحمی سے لطف اندوز ہو رہا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کے پی کے کی حکومت تحریک انصاف کے پاس امانت نہیں بلکہ نونہالان انقلاب کو مال غنیمت میں ملی ہے۔

موروثی سیاست کبھی بری چیز تھی ۔ اب ق لیگ والے میجر طاہر صادق کو کور کمیٹی کا رکن بنا لیا گیا ہے ۔ ان کے بیٹے زین طاہر سنٹرل ایگٹو کمیٹی کے رکن بنا دیے گئے ہیں اور ان کی صاحبزادی ایان طاہر بھی سی ای سی کی رکن ہیں۔ جسٹس وجیہہ الدین جیسے نجیب لوگ برداشت نہ ہو سکے اور یہاں تین اہم ترین عہدے ایک گھر میں دے کر عمران خان نے گویاموروثی سیاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔ پارٹی نے طے کیا ہوا ہے کہ سی ای سی میں کس کو لیا جائے گا لیکن سارے اصول پامال کر دیے گئے اور جنہیں پارٹی میں شامل ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے وہ سی ای سی کے رکن بن بیٹھے ۔ یوسف خٹک بھی سی ای سی کے رکن اور ان کی صاحبزادی بھی ۔ چکول کے علی ناصر بھی سی ای سی کے رکن اور ان کی اہلیہ بھی ۔ وہ لوگ بھی سی ای سی میں ہیں جن کے خلاف اپنی ہی پارٹی کی کمیٹی فیصلہ دے چکی ہے۔ اوپر سے لہجے اور افتاد طبع ، گنڈاپوری شہد کے تذکرے تو چھوڑ ہی دیجیے ، صاحب کا اپنا رویہ گاہے اتنا غیر سنجیدہ ہو جاتا ہے کہ خوف آنے لگتا ہے۔ لمبے لمبے دعوے اپنی جگہ ، سچ تو یہ جہاں جہاں تحریک انصاف ابھی نہیں آزمائی گئی وہ ایک نجات دہندہ معلوم ہوتی ہے لیکن جہاں جہاں آزمائی گئی ، اسی منڈی کا مال نکلی ۔
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply