ذاتی مفادات کے بیانیے

قیام پاکستان سے ایک ملک تو وجود میں آ گیا مگر ہم بدقسمتی سے ایک قوم نہ بن سکے۔۔کیوں نہ بن سکے یہ سوالیہ نشان ہے، بقول ڈاکٹر مبارک علی “حکمرانوں کے ذاتی مفادات ہی قومی مفادات کہلاتے ہیں، ان مفادات کا فائدے تو حکمران اٹھا لیتے ہیں مگر ان کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے”۔غلام محمد کے حق میں جسٹس منیر احمد کا نظریہ ضرورت کا بیانیہ ہو یا ایوب خان کا امریکی چھتر چھایہ میں جا بیٹھنے کا بیانیہ،بھٹو کا روٹی کپڑا مکان کا بیانیہ اور پھر جنرل ضیا کا مشہور زمانہ جہادی بیانیہ،جنرل مشرف کا روشن خیالی کا بیانیہ اور زرداری کا جمہوریت بہترین انتقام کا بیانیہ اور اب نواز شریف کے بدلتے بیانیہ کا چرچا ہے۔۔یہ تمام بیانیے ان حکمرانوں کے ذاتی مفادات کے نتیجہ میں وجود میں آئے، ان بیانیوں نے اس ملک کو فائدہ سے زیادہ نقصان ہی پہنچایا۔۔آج کل ایک طرف انتہا پسندی کے ذریعے اسلام کے حقیقی تصور کو مسخ کیے جانے والا بیانیہ ہے تو دوسری طرف غامدی صاحب کا وہ روشن خیالی کا بیانیہ ہے جو مغرب کا پسندیدہ بیانیہ ہے۔یہ دونوں بیانیے انتہاؤں پر کھڑے نظر آتے ہیں، شدت دونوں میں ہے، ایک میں تنگ نظری کی شدت ہے تو دوسرے میں روشن خیالی کی شدت۔ آخر ہمیں یہ بیانیے بار بار کیوں بدلنے پڑ رہے ہیں؟ جب اسلام ہمیں ایک پریکٹیکل بیانیہ فراہم کرتا ہے تو کیا ضرورت ہے کسی اور خود ساختہ بیانیوں کی۔۔۔
اسلام اعتدال کی راہ اپنانے کا حکم دیتا ہے، ہمیں ان شدت پسندی اور لبرل بیانیہ کو مسترد کر کے وہ بیانیہ رائج کرنا ہو گا جو چودہ سو سال پہلے میرے آقاﷺنے رائج کیا، وہ بیانیہ جس پر عمل کر کے صحابہ کرام نے مثالی معاشرہ قائم کیا کہ جہاں زکوٰتہ دینے والے تو بہت تھے مگر لینے والا کوئی نہیں، وہ بیانیہ جس پر چل کر مسلمانوں نے دنیا کی قیادت کی، وہ بیانیہ جس میں بغداد علم و تعلیم کا گڑھ تھا، وہ بیانیہ جس نے البیرونی، لکندی، ابن رشد، الفارابی ابن خلدون جیسے نامور لوگ پیدا کیے، وہ بیانیہ جو قائد اعظم نے12فروری1988کو سبی کے مقام پر بیان کیا ۔
’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرﷺ اسلام نے دیا ہے‘‘۔
اگر سیاستدان اپنے ذاتی سیاسی مفادات کی خاطر گول میز کانفرنس کر سکتے ہیں تو پاکستان کے تمام مسالک کے علماء کو بھی اپنے مسلکی اختلافات کو بھلا کر یکجاء ہو کر بیٹھنا ہو گا اور ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینا ہو گا جو شدت پسندی اور آج کل کی روشن خیالی سے بہتر ہو۔۔یہ دونوں انتہائیں پاکستان کی دشمن ہیں، پاکستانی عوام اس شدت پسندی کو مسترد کر چکی ہے، علماء اعتدال کی راہ کا تعین کریں اور پھر اس بیانیہ کو ہی سیاستدانوں اور متعلقہ اداروں کے اتفاق کے بعد سرکاری پالیسی کےطور پر رائج کیا جائے اور جو بھی اس بیانیہ سے روگردانی کرے اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔

Facebook Comments

سرفراز قمر
زندگی تو ہی بتا کتنا سفر باقی ہے.............

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply