مراکش کی مختصر روداد۔۔عظیم الرحمٰن عثمانی

الحمدللہ کچھ ماہ قبل میں نے مراکش کا سات دنوں پر مشتمل سفر کیا. جس نے مجھے اتنی خوبصورت یادیں دی ہیں جو ان شاء اللہ تاحیات ساتھ رہیں گی. سچ یہ ہے کہ مراکش جانے سے قبل میں یہ سوچ کر پریشان تھا کہ اس شہر میں شاید  ایسا کچھ خاص نہیں جس کیلئے وہاں جایا جائے. نہ سمندر، نہ ہریالی، نہ اونچی فلک شگاف بلڈنگز. مگر اب سوچتا ہوں کہ میری وہ سوچ کتنی حماقت بھری تھی؟ مراکش تو ایسا جادو ہے جو آپ کو مسحور کرنے کی پوری سکت رکھتا ہے. میں نے اور میری فیملی نے اس ٹرپ کو حد سے زیادہ پرلطف پایا. براعظم افریقہ کے اس شہر مراکش کی وہ کیا بات تھی جس نے مجھے مسحور کردیا ؟ یا جو ہر آنے والے کو اس شہر سے لگاؤ عطا کرتی ہے؟ …

بہت سوچا کہ آخر وہ کیا بات ہے جسے میں محسوس کررہا ہوں مگر الفاظ کی پوشاک نہیں پہنا پارہا؟ اور پھر جو سمجھ آیا اسے ایک سطر میں لکھے دیتا ہوں ۔۔ “مراکش جاکر یوں لگا جیسے کسی نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے آج سے ہزار سال پیچھے کھڑا کردیا ہو”۔۔ میرے سامنے ایک پرانی تہذیب تھی اور مزیدار بات یہ کہ یہ تہذیب کسی میوزیم کا حصہ نہیں بلکہ جیتی جاگتی سانس لیتی زندہ ہے. مجھے احساس ہوا کہ لوگ بناء ٹیکنالوجی بھی خوش رہ سکتے ہیں. نہ کسی کو انٹرنیٹ کی فکر، نہ اسمارٹ فون کا نشہ، نہ ٹی وی سیٹلائٹ کی پرواہ۔۔ کیسی جگہ ہے یہ ؟ جہاں لوگ ایک دوسرے سے مل کر خوش ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کرنا انہیں سوشل میڈیا سے زیادہ عزیز ہے. ایسا نہیں ہے کہ مراکش میں یہ سب ٹیکنالوجی موجود نہیں. سب موجود ہے مگر اس شہر کا مزاج یہ ٹیکنالوجی قطعی نہیں ہے. یہ تو سادہ مزاج زندہ دل لوگوں کی نگری ہے. جہاں لوگ ماضی کی پرچھائیوں یا مستقبل کے اندیشوں میں نہیں بلکہ ‘آج’ اور ‘ابھی’ میں جیتے ہیں.

مراکش ائیرپورٹ پر جو پہلا تاثر مجھے اور میری بیوی کو ملا وہ یہ کہ سب کتنے خوش مزاج اور مسکراتے ہوئے ہیں. غالب ترین اکثریت میں لوگ دبلے پتلے مگر مضبوط اجسام رکھتے ہیں. اس شہر کے لوگوں نے پاکستان یا عرب ممالک سے متعلق میرا وہ عذر بھی پاش پاش کردیا کہ گرم موسم کے ممالک میں لوگ گرم مزاج ہوا کرتے ہیں. اگر یہ سچ ہے تو پھر اس گرم ترین شہر کے لوگ اتنے شائستہ اور مسکراہٹ سے بھرپور کیسے ہیں؟۔۔

مراکش کو سرخ شہر یعنی ‘ریڈ سٹی’ بھی کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں گھروں سمیت تمام عمارتیں سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں جو دیکھنے والو کو خوب لبھاتی ہیں. مراکش میں دو طرح کے حویلی نما طرز تعمیر پر گھر ہوتے ہیں. پہلا ‘ریاض’ کہلاتا ہے اور دوسرا ‘دار’ کے نام سے جانا جاتا ہے. ریاض کے معنی باغ کے ہیں اور دار کے معنی گھر کے ہیں. یہ دونوں ملتے جلتے طرز تعمیر ہیں جہاں ایک وسیع دالان کے گرد کشادہ کمرے موجود ہوتے ہیں. ایک حسین سجائی ہوئی چھت ہوتی ہے. باغ یا پودے ہوتے ہیں اور بیچ میں ایک تالاب اور فوارہ لگا ہوتا ہے. ‘ریاض’ حجم کے اعتبار سے عموماً ‘دار’ سے بڑا ہوتا ہے. میں چونکہ مراکش کی اصل روح سے آشنا ہونے کی خواہش رکھتا تھا اسلئے میں نے کسی ہوٹل یا ریزورٹ کی بجائے، ایک نہایت حسین ‘ریاض’ میں اور مراکش کے مصروف ترین علاقے ‘مدینہ’ میں کمرہ حاصل کرلیا.

خوبصورت طرز تعمیر، صاف ستھرے کشادہ کمرے، لکڑی کے دیو قامت دروازے، بل کھاتی سیڑھیاں، سوئمنگ کیلئے تالاب، دلکش فوارہ، کینو کے چھوٹے چھوٹے درخت، پیاری سی چھت اور اس چھت پر بچھے کنگ سائز بستر. یہ اس ‘ریاض’ کے کچھ خواص تھے. ناشتے میں پراٹھوں سے لے کر مکھن تک ، پھلوں سے لے کر دہی تک اور اورنج جوس سے لے کر جام تک ہمیں ہر شے تازہ اور ‘اورگینک’ دی جاتی. جسے وہاں موجود باورچی خاتون پیش کرتی. مجھے سب سے زیادہ اس ریاض کی چھت پسند تھی لہٰذا ایک رات تو میں چھت پر ہی تاروں بھرے آسمان کو دیکھتے ہوئے سو گیا. گو آدھی رات میں سردی سے آنکھ کھلی تو سمجھ آیا کہ صحرائی سردی کہتے کسے ہیں؟

ہماری رہائش سے کوئی پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر مراکش کی سب سے حسین مارکیٹ ‘جامع الفناء’ موجود تھی. یہ کوئی شاپنگ مال نہیں ہے بلکہ روشنیوں سے نہایا ہوا ٹھیلوں اور اسٹالوں کا بازار ہے جو رات گئے تک کھلا رہتا ہے. جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے مجمعے لگے ہوئے ہیں. کوئی دیسی مٹھائیاں بیچ رہا ہے، کوئی کپڑوں کی صدا لگا رہا ہے، کوئی حسین قمقمے سجائے کھڑا ہے، کوئی رقص کر رہا ہے، کوئی تماشا دیکھا رہا ہے، کوئی فوک گانے سنا رہا ہے، کوئی سانپوں کے کرتب کررہا ہے، کوئی شرطیں لگا رہا ہے، کوئی پتنگ اڑا رہا ہے، کوئی جانور بیچ رہا ہے اور کوئی اپنے ریسٹورنٹ بلا رہا ہے. سب مسکرا رہے ہیں، سب خوش لگتے ہیں. مجھے احساس ہوا کہ جہاں سیاحت سے اس شہر کو فائدہ ہورہا ہے وہاں ایک نقصان شائد یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل ان ہی میلوں ٹھیلوں میں الجھ کر تعلیم سے دور ہورہی ہے. ‘جامع الفناء’ اپنی شدید بارگینگ کی وجہ سے بھی مقبول ہے. یہاں ایک ہی شے ایک فرد کو اگر ہزار روپے میں ملی ہے تو ممکن ہے دوسرے کو دس ہزار میں ملے. یہاں وہی کامیاب ہے جو بارگیننگ کا بادشاہ ہے. میں نے صدر کراچی میں بہت بارگیننگ دیکھی اور کی ہے مگر یقین کریں مراکش بارگیننگ میں بہت شدید ہے.

مراکش نوسربازی کیلئے بھی سیاحوں میں بدنام ہے مگر سچ پوچھیے تو ہمارا تجربہ اس کے برخلاف رہا اور کسی نے دھوکہ دہی یا بدتمیزی نہیں کی. اسی بازار میں ایک ترتیب سے ریسٹورنٹ کھلے ہوئے ہیں. مجھے دیکھ کر وہ نعرے لگاتے ‘سینس بری’، ‘ٹیسکو’، لیڈل’ … (یہ انگلینڈ کی معروف سپر مارکیٹس کے نام ہیں) – گویا ان میں سے اکثر پہچان گئے کہ میں انگلینڈ سے آیا ہوں. کچھ پوچھتے ۔۔’پاکستانی؟’ میں ہاں میں سر ہلاتا تو نعرہ مارتے ‘پاکستان زندہ باد’ .. کچھ مجھے انڈین سمجھ کر بولی وڈ کے ایکٹروں کے نام سے بلاتے. ایک ریسٹورینٹ کو میں نے ہاں کردی. جیسے ہی ہاں کہا تو وہاں موجود انتظامیہ کے افراد خوشی سے ناچنے لگے. مجھے بھی پکڑ کر ساتھ لے آئے اور مجھے بھی چارو ناچار ان کے ساتھ کچھ ہلنا پڑا. چاروں طرف ‘باربی کیو’ کا خوشبو دار دھواں تھا اور وہ گلوکارہ شکیرہ کا معروف گانا گا رہے تھے. “زا مینا مینا .. اے اے .. وکا وکا اے ئے .. زا مینا مینا زانگ لائیوا .. دس ٹائم فار افریقہ” .. کھانا مزیدار تھا.

مراکش کی سب سے مقبول ڈش ‘تجین’ کہلاتی ہے جو گوشت اور سبزی دونوں سے بنتی ہے. مقامی افراد اس ڈش کے اتنے دیوانے ہیں کہ تصویر کھینچتے ہوئے بھی ‘چیز’ نہیں کہتے بلکہ ‘تجین’ کہتے ہیں. کھانے کے دوران ایک سات آٹھ سال کی چھوٹی سی پیاری سی مقامی بچی میرے پاس آئی اور ہاتھ تھام کر پورے حق سے کہا کہ میں بھی کھاؤں گی. میں نے کہا آجاؤ تو جلدی سے میرے برابر میں لگ کر بیٹھ گئی جیسے میری ہی سگی بیٹی ہو. اسی طرح دیگر موقعوں پر اسی پورے حق سے ایک بچے نے ہم سے آئسکریم اور ایک نے پانی لیا. جب تک ہم مراکش میں رہے بار بار مارکیٹ ‘جامع الفناء’ آتے رہے.
.
جامع الكتبية – مراکش کی سب سے بڑی اور تاریخی مسجد ہے. اس کا نہایت اونچا مخصوص مینار، بڑے بڑے فانوس اور بہترین طرز تعمیر سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے. میں نے اس مسجد میں کچھ وقت گزارا اور شائد عصر کی نماز ادا کی. کوئی پچاس ساٹھ سال قبل ایک فرانسیسی مصور ‘جیکوئس مجوریل’ مراکش کے حسن سے متاثر ہوکر یہاں آبسا تھا. اس نے کوئی چالیس سال کی محنت و لگن سے ایک باغ تیار کیا ہے جسے ‘مجوریل گارڈن’ کہا جاتا ہے اور جو اپنی مثال آپ ہے. خوبصورتی سے لگے حسین پھول، پیڑ، پودے، تالاب، دلفریب خوشبو، رنگ برنگی مچھلیاں اور بیچ میں گہرے نیلے اور دیگر دلفریب رنگوں سے سجا اسٹوڈیو آنے والو کو اپنا مداح کرلیتا ہے. خواتین کیلئے یہ باغ اس لئے بھی دلچسپی کا سبب ہے کہ یہاں تصاویر بہت اچھی آتی ہیں.

مراکش میں دو محلات تاریخی طور پر سب سے نمایاں رہے ہیں. ‘بہائیہ پیلس’ اور ‘البدیع پیلس’. شروع شروع میں مجھے یہ روایتی شان والے محل نہ لگے بلکہ کسی شاندار حویلی کی مانند محسوس ہوئے. مگر جیسے جیسے محل کے در کھلتے گئے، اسکی شاہانہ شان نکھر کر سامنے آنے لگی. بادشاہی نقش و نگار سے مزید چھتیں اور دیواریں، خوبصورت پتھروں سے بنا فرش، قد آور آئینے اور مہکتے ہوئے باغات ان محلوں کو چار چاند لگا دیتے ہیں. مراکش شہر میں ١٩١٧ میں کھدائی کے دوران ایک زمین دوز قبرستان دریافت ہوا. جس میں ایسی ہی شاندار قبور ہیں جیسی پاکستان میں ‘مکلی’ کے قبرستان میں نظر آتی ہیں. سعدی سلطنت کی ساٹھ قبریں یہاں موجود ہیں جن میں سلطان احمد بن منصور بھی مدفون ہے. سیاح قبروں کے ساتھ تصاویر بنا رہے تھے جو میری طبیعت نے گوارا نہیں کیا لہٰذا کسی تصویر کے بناء فاتحہ پڑھ کر باہر آگیا. ساتھ ہی ایک پرانی اور پروقار مسجد تھی جس سے اذان بلند ہوئی. میں جماعت کیلئے مسجد کے اندر چلا آیا. وضو کیلئے دیکھا تو وضو خانہ نہیں تھا بلکہ صحن کے بیچوں بیچ ایک حوض نما جگہ تھی جس کے گرد بیٹھ کر سب وضو کررہے تھے. میں بھی سلام کرکے بیٹھ گیا لیکن چونکہ اس طرح وضو کی عادت نہ تھی تو دونوں ہاتھ استعمال کر رہا تھا. بیٹھے افراد آپس میں گفتگو کرنے لگے. مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے صحیح طریقہ سیکھانا چاہیے. سب نے بہت ہی محبت سے بات کی اور پھر ایک بزرگ مجھے اپنے ساتھ مسجد کے اندر لے گئے، جہاں ان کے ساتھ میں نے نماز ادا کی. ایک بات جو نوٹ کی وہ یہ کہ امام کی جائے نماز مقتدیوں کی نسبت تھوڑی سی ترچھی تھی جو فقہی رو سے جائز ہے.

ایک روز ہم نے ‘کواڈ بائیکنگ’ کا فیصلہ کیا. یہ ایک بہت ہی مزیدار تفریح ثابت ہوئی. جس میں کوئی تین گھنٹے سے زیادہ ہم نے صحرائی گھاٹیوں میں ‘کواڈ بائیکنگ’ کی. میں چونکہ ہمیشہ سے بائیکنگ پسند کرتا آیا ہوں لہٰذا نہ صرف مجھے خوب مزہ آیا بلکہ سارے گروپ میں سب سے آگے میں ہی رہا. ان ہی بائیکوں کو دوڑاتے ہوئے ہم ایک گاؤں پہنچے جہاں ایک مقامی کچے گھر میں ہم نے چائے نوش کی. یہاں سے واپسی پر ہم ایک نخلستان گئے جہاں تاحد نظر کھجوروں کے درخت اور ریت تھی. ہمیں  گہرے نیلے رنگ کا روایتی جبہ پہنایا گیا اور ایک مخصوص پگڑی باندھی گئی. اس کے بعد ہم نے سفید اور بھورے اونٹوں پر کوئی گھنٹہ ڈیڑھ سواری کی اور اس نخلستان نما جگہ میں گھومتے رہے. میں اونٹنی پر سوار تھا اور اس کا بچہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا. اسے کبھی شرارت سوجھتی تو اپنے چہرے سے میرے پیر گدگدانے لگتا.

اسی طرح ایک دوسرے روز ہم نے مراکش کے پہاڑی سلسلے کو دیکھنے کا ارادہ کیا، جسے اطلس ماؤنٹین کہا جاتا ہے. اسی سلسلے کے ایک حسین پہاڑ پر ہم پہنچے جس کا نام ‘اوریکا پہاڑ’ ہے. خوبصورت دلفریب وادیوں میں گھرا یہ پہاڑ اور اس وادی میں بسے پہاڑی لوگ مثالی محسوس ہوتے ہیں. خوبصورت پگڈنڈیوں سے گزر کر ہم پہاڑ پر پہنچے اور قدرتی مگر قدرے پرخطر رستے سے اپنے گائیڈ کے ساتھ اپر چڑھنے لگے. کتنے ہی شفاف جھرنے پہاڑوں کا سینہ چیر کر بہہ رہے تھے. ایک اونچی آبشار بھی بیچ میں آئی جس کے ٹھنڈے یخ پانی کے نیچے کچھ دیر میں کھڑا رہا. جگہ جگہ کولڈ ڈرنکس مل رہی تھیں، مقامی لوگوں نے پتھروں اور آبشار کے ٹھنڈے پانی سے فریج بنا رکھے تھے جس میں ڈرنکس اور جوس رکھے ہوئے تھے. چھوٹی چوٹی دکانیں تھیں جہاں قدرتی خوبصورت رنگ برنگے پتھروں سے تراشے مجسمے بک رہے تھے. ایک پتھر ایسا بھی تھا جسے گیلا کرو تو وہ ہر بار ایک نیا رنگ بدل لیتا تھا. ایک بہتے جھرنے کے بیچ ہماری ٹیبل لگا دی گئی اور کھانا پیش کیا گیا. گویا ہم ننگے پیر آدھے پاؤں بہتے پانی میں ڈبوئے بیٹھے تھے اور کھانا کھا رہے تھے. ایسے میں دو مقامی گلوکار آگئے اور کچھ مقامی گانے سنانے لگے. ظاہر ہے سمجھ تو ایک لفظ نہ آیا مگر پھر بھی ان کی خوش کن آواز سے لطف اندوز ہوئے.

پہاڑوں پر خوبانی کے درخت موجود تھے جس سے توڑ توڑ کر خوب شہد سے میٹھی خوبانیاں کھائیں. نیت نہ بھری تو ایک چھوٹی بالٹی بھر کر اپنے ساتھ لے گئے. ایک دوسرے پہاڑ کی بلندی پر ہمیں ایک ایسی جگہ جانے کا موقع ملا جہاں ‘آرگن’ کا تیل بنایا جاتا ہے. یہ ایک ایسی جڑی بوٹی ہے جو مراکش میں خاص درختوں سے ملتی ہے. مراکش کے لوگ آرگن کے تیل کو بے تحاشہ اہمیت دیتے ہیں اور اسے اپنے ملک کی سوغات بتا کر فخر محسوس کرتے ہیں. شیمپو سے لے کر صابن تک، کھانا پکانے سے لے کر چیزیں صاف کرنے تک، پرفیوم سے لے کر ادویات تک ہر ہر شے میں آرگن کا استعمال عام ہے. ہم اس جگہ پر تھے جو آرگن سے پروڈکٹس بنانے میں ماہر تھی. انہوں نے ایک جناتی سائز کی چکی دیکھائی جس میں وہ آرگن پیستے تھے. بہت سی عورتیں آرگن سے چیزیں تیار کررہی تھیں. ہم نے بھی پرفیوم لیا اور واپسی کی راہ لی.

اطلس پہاڑوں میں بسنے والی پہاڑی تہذیب تین سے چار ہزار سال پرانی ہے. انہیں ‘بربر’ کہا جاتا ہے. ان تک اسلام کیسے پہنچا؟ اس کے بارے میں متفرق آراء ہیں مگر ایک مقبول تر رائے یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب فتوحات ہوئیں اور مسلم فوجیں یہاں پہنچیں تو ‘بربر’ قوم نے جنگجو ہونے کے باوجود یہ اندازہ کر لیا کہ مسلمانوں کو شکست نہیں دی جاسکتی لہٰذا شکست خوردہ نہ کہلانے کیلئے انہوں نے بحیثیت اجتماعی اسلام قبول کرلیا. میں ایک ‘بربر’ کے گھر گیا جو آج بھی اسی چار ہزار سال پرانی تہذیب کا شاہکار ہے. باورچی خانے سے لے کر کپڑے دھونے تک اور نہانے سے لے کر سبزیاں اگانے تک سب دیکھا اور سمجھا. پورے مراکش میں جگہ جگہ ‘بربر’ تہذیب کی چیزیں ملتی ہیں جیسے مٹی کی کٹوری سے لپ اسٹک وغیرہ، جسے پاکستانی میں ‘مسی’ بھی کہتے ہیں.

ان دنوں ایک ایسا شخص میرا دوست بھی بن گیا جس کے والد بربر اور والدہ عرب تھیں. میں نے اس سے پوچھا کہ میں تم لوگوں کو کیا سمجھوں؟ تم لوگ شکل سے عربی لگتے ہو لیکن عرب نہیں ہو. رہتے افریقہ میں مگر افریقی لگتے نہیں ہو. بربر تہذیب رکھتے ہو مگر سب بربر نہیں ہو. وہ ہنسا اور اس نے سمجھایا کہ تم ہمیں صرف ‘موروکن’ کہو. کیونکہ یہاں کی نسل میں بربر، عرب اور افریقی سب ایسے مل گئے ہیں کہ اب ان کی جداگانہ شناخت صرف موروکن ہوسکتی ہے. اپنے ‘ریاض’ پر میری ایک نیوزی لینڈ سے آئےلڑکے لڑکیوں کے گروپ سے گپ شپ ہوئی جو ایک مہینے سے مراکش میں کوہ پیمائی کررہے تھے.

Advertisements
julia rana solicitors london

آخری روز میں نے ایک دوسرے شہر جانے کا فیصلہ کیا. جس کا نام ‘ای سویرا’ تھا اور جہاں ایک حسین سمندر ہمارا منتظر تھا. وہاں کا مقامی بازار بھی تہذیب کا نمونہ تھا. مقامی مچھلی بازار گیا تو ایسی ایسی مچھلیاں بک رہی تھیں جنہیں میں نے ڈسکوری چینل پر بھی کبھی نہ دیکھا تھا. ایک جگہ بیشمار سفید بگلے موجود تھے جن کے ساتھ سب تصاویر کھنچواتے رہے. غرض یوں ہمارا مختصر مگر انتہائی یادگار سفر اپنے حسین اختتام کو پہنچا. ساری دنیا سے لوگ مراکش گھومنے آتے ہیں مگر معلوم نہیں کیوں؟ پاکستانیوں میں سے بہت کم وہاں جاتے ہیں. ہمارا مشورہ ہے کہ اگر آپ مراکش گھومنے جاسکتے ہیں تو ضرور جایئے کہ یہ شہر منفرد بھی ہے اور تاریخی بھی.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مراکش کی مختصر روداد۔۔عظیم الرحمٰن عثمانی

Leave a Reply