کشمیر کا یومِ مزدور/قمر رحیم

کشمیر میں شال بافی کی تاریخ کے بارے میں مختلف آرا ء پائی جاتی ہیں۔معلوم تاریخ میں اس کے شواہد گیارہویں صدی عیسوی میں ملتے ہیں۔ لیکن یہ صنعت زیادہ پرانی ہے۔بعض مورخین کا ماننا ہے کہ کشمیری شالیں تیسری صدی قبل مسیح ، اشوکا کے عہد میں بھی مشہور تھیں۔ابتداء  میں شال کا استعمال گرم کپڑوں میں کیا جاتا تھا۔ تیرہویں صدی عیسوی میں شال کے معیار میں بہتری آئی اور اسے فیشن کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔یہ حکمران اور امیر طبقہ کے استعمال میں آگئی۔جہاں سے اس نے ایک سٹیٹس سمبل کی حیثیت اختیار کرلی۔چودہویں صدی میں زین العابدین بڈ شاہ کے زمانے میں اس صنعت نے بہت ترقی کی۔شہنشاہ بابر کے دور میں وزراء اور دیگر معززین کو خلعت پہنائی جاتی تھیں، جن میں پگڑی، گاؤن، قمیض ،جیکٹ، شلواراور سکارف وغیرہ شامل ہوتے تھے۔یہ تمام لباس یا ان میں سے کچھ پشمینہ کے بنے ہوتے تھے جن پر سونے کے دھاگے کی کڑھائی ہو تی تھی۔اس کے بعد بھی افغانوں اور سکھوں کے درباروں میں پشمینہ شال کا استعمال کثرت سے ہوتا رہا۔ اٹھارہویں صدی میں کشمیری شال یورپ میں پہنچی۔ برطانوی اور فرانسیسی امرأاور حکمران اسے شوق سے استعمال کرتے تھے۔ اور یہ ہندوستان سے واپس جانے والے یورپین کی طرف سے ان کے متعلقین کے لیے سب سے قیمتی تحفہ سمجھا جاتا تھا۔پشمینہ اور شاتوش شال ملکہ وکٹوریا اور فرانس کی حکمران جوزفین بونا پارٹ کے استعمال میں رہیں۔کہا جاتا ہے کہ جوزفین کے پاس پشمینہ کی 60شالیں تھیں جو اسے مصر کے شاہی خزانے سے ملی تھیں۔یوں کشمیری شال دنیا میں اسٹیٹس سمبل کے ساتھ کشمیر کی پہچان بھی بن گئی۔

1852ء میں اپنے عہد کے عظیم ناول نگار چارلس ڈکنز نے میگزین Household Wordsمیں لکھا کہ اگر لباس کے آئٹمز میں کوئی چیز ایسی ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے تو وہ کشمیری شال ہے۔اس کا ڈیزائن لافانی ہے۔
ایرانی مورخ زین العابدین رہنمانے لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ پیغمبر اسلام محمدﷺ سے نکاح کے بعداپنے ساتھ جو بہت ساری چیزیں لائیں ان میں کشمیری شال بھی شامل تھی۔

اس قدر قیمتی شال کو بنانے والوں کی اپنی زندگی ناقابلِ  یقین غربت میں گزر رہی تھی۔برٹش آرمی آفیسر لارڈ برڈ وُڈ نے لکھا ہے کہ ڈوگرا عہد میں اون کی بنی تمام چیزوں پر 85%ٹیکس عائد تھا۔ ایک شال باف کی پورے مہینے کی کمائی 7یا 8چِلکی روپے تھی۔ جس میں سے اسے 5یا 6چلکی روپے ٹیکس ادا کرنے کے بعد پورا مہینہ دو یا تین چلکی میں گزارا کرنا ہوتا تھا۔Adobe of Snowکے مصنف Andrew Wilsonنے لکھا ہے کہ شال بافوں کو ریاست چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی۔تاکہ ان کی ہجرت سے شال بافی کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدن کم نہ ہوجائے ۔اس کے باوجود شال باف چھپ چھپا کر پنجاب کی طرف ہجرت کر جاتے تھے۔ دراصل ان کی حیثیت زر خرید اور فاقہ زدہ غلاموں کی جیسی تھی۔

ان کے پاس جو دو تین روپے بچتے تھے ان سے وہ کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں خرید سکتے تھے۔ سوائے شاہ بلوبط (Chestnuts)کے، جس کے ذریعے وہ اپنی روح اور بدن کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے تھے۔ شالبافوں کو ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ، جسے ‘داگ ِشال’ کہا جاتا تھا، کے زیر نگرانی کام کرنا پڑتا تھا۔ اگر کوئی شال باف کام چھوڑ دیتا تو ‘داگِ شال’ کے اہلکار اس کے بیوی بچوں کو پولیس کے ذریعے پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے۔‘داگِ شال ’ کا محکمہ اس وقت حکومت کو 12لاکھ روپے آمدن مہیا کرتا تھا۔ 1965میں حکومت نے ‘داگِ شال’ کا یہ محکمہ ایک امیر کشمیری پنڈت راج کاک دھر کو20لاکھ روپے کے عوض ٹھیکے پر دے دیا۔یوں راج کاک ان شال بافوں کا نیا آقا بن گیا جو ڈوگرا سپاہیوں کے ذریعے اپنی مرضی کے ٹیکس وصول کرتا تھا۔ریونیو ریکارڈ کے مطابق اس صنعت کی سالانہ آمدن پچاس لاکھ روپے تھی۔جبکہ اس صنعت میں کام کرنے والوں کی تعداد 125,000کے قریب تھی۔

29اپریل 1865ء کو شال بافوں نے ان ظالمانہ ٹیکسوں، معمولی اجرتوں، بے رحمانہ کام اور ریاست سے باہر ہجرت پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا۔ راج کا ک دھر نے ڈوگرا انتظامیہ کوورغلایا جس پر کرنل بجے سنگھ کی قیادت میں ڈوگرا فوج بھیجی گئی۔ جس نے ہجوم کو حاجی پتھر پُل کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔اور لاتعداد مظاہرین دریائے جہلم میں پھینک دیے گئے  ۔ جس کی وجہ سے شال بافوں کی بڑی تعداد لقمہ اجل بن گئی۔ یونیورسٹی آف جموں کی استاد ریکھا چوہدری نے لکھا ہے کہ دوسرے دن دریا سے اٹھائیس لوگوں کی لاشیں نکالی گئیں۔جبکہ سو کے قریب لوگ گولیوں سے زخمی ہوئے۔

شال بافوں کی قیادت میں سے رسول شیخ، علی پال،عبدالقدوس اور سونا شاہ کو جموں کے باہو قلعہ میں قید کر دیا گیا ۔ جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آئے۔ان کی موت جیل میں ہی ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس احتجاج میں مارے جانے والے یہ شال باف مزدوروں کے حقوق کی تحریک کے اولین شہدا ہیں۔لیکن یہ وہ گمنام ہیرو ہیں جو ہماری تاریخ کے اوراق میں دفن ہو گئے۔ ان کی لازوال قربانی پر دنیا تو کجا ان کے اپنے لوگ بھی مہر بہ لب ہیں۔اپنی تاریخ اور کشمیری محنت کشوں کی اس قربانی کے ساتھ نا انصافی نے ہماری غلامی کے اندھیروں  میں مزید اضافہ کیا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اس پر آزاد کشمیر کی آزادی پسند اور ترقی پسند جماعتیں بھی مکمل خاموش ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب بھی شاید کسی کے پاس نہ ہو۔ ہم ہوچی من اور چی گویرا کے گُن تو گاتے ہیں، اور یہ کوئی بُری بات بھی نہیں ہے، لیکن اپنے ہم وطن محنت کشوں کی جدو جہد اور قربانی ہمارے معیار پر پورا نہیں اُترتی۔ اپنی تاریخ ، اپنے لوگوں کی جدوجہد اور اپنے معروض سے کٹ کر ہم کون سی اور کیسی جدہ جہد کر ہے ہیں اورکس رخ پر کر رہے ہیں؟ کیا ہمیں اس بات کا ادرک ہے کہ ہماری موجودہ تحریک یا جدوجہداپنے ماضی سے کٹ کر وہ خود اعتمادی حاصل کر سکتی ہے جو آزادی کی تحریکوں کے لیے بنیادی ضرورت ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply