سب کا بائیکاٹ کریں پھر/مظہر کھوکھر

رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی جہاں نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ وہاں ضرورت کی ہر چیز کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یعنی مسلمان ایک طرف اللّه کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹتے ہیں اور دوسری طرف اللّه کی مخلوق کو بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔ دین اور دنیا کو جدا نہیں ہونے دیتے بلکہ ساتھ لیکر چلتے ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ کہ اسلامی اقدار کے تحفظ کے دعویداروں میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں کہ جس کی ہم مثال دے سکیں کہ جہاں مذہبی آیام کے تقدس اور احترام میں حکومت یا تاجر رضا کارانہ طور پر لوگوں کو ریلیف دیتے ہوں۔

حالانکہ دنیا بھر میں خاص طور پر یورپی ممالک میں كرسمس ہو ایسٹر ہو یا کوئی بھی مذہبی یا ثقافتی تہوار، نہ صرف حکومت عوام کو خاطر خواہ ریلیف دیتی ہے بلکہ تاجر بھی رضا کارانہ طور پر لوگوں کو ریلیف دیتے ہیں۔ ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں نصف سے بھی کم کر دی جاتی ہیں۔ کئی کئی ہفتے پہلے سیل شروع کر دی جاتی ہے۔ مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ کمزور اور غریب طبقے کو خوشیوں میں شامل کیا جائے۔ جو اپنی غربت اور بے بسی کی وجہ سے ضرورت کی چیزیں نہیں خرید سکتے سستی اور ریاعتی اشیاء فراہم کرکے احساس محرومی سے بچایا جاتا ہے۔

جبکہ ہمارے ہاں صورتحال اس کے بالکل الٹ ہے۔ جیسے رمضان، عیدین یا کوئی بھی مذہبی تہوار آتا ہے۔ تو اوپر سے نیچے تک مافیا کچھ اس انداز سے متحرک ہوتا ہے کہ کھانے پینے اور ضرورت کی ہر چیز کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ ناقص اور غیر معیاری اشیاء بھی ڈبل سے زیادہ مہنگی کر دی جاتی ہیں۔ اس رمضان المبارک کو ہی دیکھ لیں۔ رمضان سے ایک روز قبل جو خربوزہ سو 120 روپے کلو تھا۔ وہ چاند نظر آتے ہی اڑھائی سو روپے کلو ہوگیا۔

اسی طرح دیگر فروٹ، سبزیاں، سموسے پکوڑے وغیرہ ہر چیز کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا۔ ایسے میں حکومت کیا خاک اقدام کرے مہنگائی میں اضافے کا سب سے بڑا جواز حکومت فراہم کرتی ہے۔ اور پھر اسے کنٹرول کرنے کے لیے بھی کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ یہی وجہ ہے جس کا جتنا دل چاہتا ہے وہ عوام کا خون نچوڑ لیتا ہے۔ مگر مہنگائی، گرانی اور لوٹ مار کے اس دور میں خوش آئند پہلو بائیکاٹ مہم ہے۔ جو پچھلے چند سالوں سے مختلف مواقعوں پر دیکھنے کو نظر آرہی ہے۔

ان دنوں مختلف شہروں سے آنے والی خبروں کے مطابق لوگوں نے سوشل میڈیا پر مہنگے پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس سے قبل مرغی کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی۔ مری کے ہوٹل مالکان کے نامناسب روئیے اور لوٹ مار کے خلاف بائیکاٹ مری کی مہم بھی چلائی گئی۔ بائیکاٹ مہم کے کب کیا نتائج نکلے اور اس مہم کے کیا نتائج نکلنے کی امید ہے۔ اس سے قطع نظر ہم اس طرح کی مہم اور ٹرینڈ شروع ہونے کے عمل کو ہی حوصلہ افزا اور خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ شعور کی پختگی اور حقوق کے احساس کی علامت ہے کہ لوگ ہر جبر پر آنکھیں بند کر نہیں بیٹھ جاتے۔ بلکہ اپنے اور دوسروں کے حق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا ایک طاقتور فورم ہے۔ جس کی اہمیت پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کی کردار کشی اور الزام تراشی کے لیے سوشل میڈیا ونگز قائم کر رکھے۔ جن کا کام ہی سیاسی انتشار کو ہوا دینا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ بلکہ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کون سہی ہے اور کون غلط۔

مگر اس اندھیر نگری میں بائیکاٹ مہم کی صورت میں جنم لینے والی امید کی کرن انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ اور سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی طرف ایک خوبصورت پیش رفت بھی ہے۔ بلکہ اس بائیکاٹ مہم کو صرف پھلوں وغیرہ تک محدود نہیں رکھنا چاہئے۔ بلکہ اس کا دائرہ وسیع کرکے ہر اس عمل، ہر اس کردار اور ہر اس چیز کے بائیکاٹ کا آغاز کرنا چاہئے۔ جو عوام کا استحصال کرنے میں زرہ برابر بھی اگر معاون یا مددگار ہے۔

ہمیں مہنگے پھلوں کے ساتھ مہنگے انصاف اور اس نظام انصاف کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ ہمیں سادگی کا درس دینے والی مہنگی پڑنے والی کابینہ اور مہنگے پڑنے والے اسمبلی اجلاسوں کے خلاف بھی اس طرح کی مہم چلانی چاہئے۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر ووٹ کا تقدس پامال کرنے والوں کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ ہمیں جمہوریت کا لالی پاپ دے کر آمریت کی گود میں کھیلنے والوں کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں اس فرسودہ اور استحصالی نظام اور اس کی پرورده قوتوں کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ جمہوریت کا نعرہ لگا کر غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار کا کردار ادا کرنے والوں کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب تک ہم ضمیر فروشوں سے لے کر انصاف فروشوں تک اور اقتدار پرستوں سے لیکر مفاد پرستوں تک سب کا بائیکاٹ نہیں کریں گے اس وقت اس ملک میں نہ تو حقیقی جمہوریت قائم ہو سکتی ہے۔ نہ ہی اس قوم کو لوٹ مار مافیا سے نجات مل سکتی ہے۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply