مذہب کا استدلالی مقدمہ/عرفان شہزاد

انسانی علم مشاہدہ و تجربہ اور ان سے حاصل ہونے والے حسی اخبار و معلومات پر مبنی عقلی استدلال پر مشتمل ہے۔ حس و مشاہدہ کی خبر غلط اور ناقص بھی ہو سکتی ہے۔ عقلی استدلال بھی نا درست ہو سکتا ہے۔ تاہم، عقلی استدلال درست ہو تو حس و مشاہدہ کی خبر سے بڑ ھ کر درست ہو جاتا ہے۔
استدلالی نتائج دو طرح کے ہوتےہیں، اپنے شواہد کے براہ راست اثرات کی شہادت پر مبنی، جس کی سادہ مثال دھواں ہےجو آ گ کا پتا دیتا ہے۔اسی طرح الیکڑان اور پروٹان ہیں جو اپنے اثرات کی بنا پر تسلیم کیے جاتے ہیں، مگر وہ ابھی مشاہدہ کی گرفت میں نہیں آئے۔
دوسرے، ایسا استدلالی نتیجہ جو کسی حسی خبر کا عقلی تقاضا ہو۔ اس صورت میں ایسے وجود کی موجودگی کی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے جو ابھی علم میں موجود نہ ہو۔ جیسے کیپلرکا فلکیاتی نظریہ جس نے نظام شمسی کی بُنت کو کلیت میں دیکھے بغیر اس کی حقیقت دریافت کر لی، پیریاڈک ٹیبل میں مستقبل میں دریافت ہونے والے عناصر، مثلا گیلیم اور جرمینیم کی پیشین گوئیاں، اور بلیک ہول کی پیشین گوئی جو بعد میں حقیقی وجود کے طور پر ثابت ہوا۔ مذہبی اصطلاح مستعار لیں تو عقل واستدلال میں ثابت مگر حس و مشاہدہ میں نامعلوم وجود کو عالَم غیب یا غیبی وجود کہتے ہیں۔
مذہب میں استدلال کا یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ مذہب ایسےاخبار دیتا ہے جس کی کوئی توجیہ اس کےسوا نہیں ہو سکتی کہ اس کے پیچھے خدا کی ہستی کارفرما ہے۔ اس میں سب سے بڑی نشانی بنی اسرائیل کا تاریخی وجود ہے۔ خدا کے ساتھ ان کی مخاطبت اور معاملت کی دو ہزار سال کی متواتر تاریخ ہمارے سامنے موجود ہے۔خدا نے ان کے ساتھ عہد باندھا کہ وہ خدا کے فرماں بردار رہے، اس کے پیغمبروں کو مانا اور ان کی پیروی کی تو دنیا میں سرفرازی پائیں گے اور نا فرمانی اختیار کی تو اسی دنیا میں ذلت و نکبت کا نمونہ بن جائیں گے۔ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ اس عہد کے عین مطابق عروج و زوال اور سرفرازی اور مسکنت کی تاریخ ہے۔ اور یہ ان کے ساتھ بار بار ہوا۔ ایسی کوئی اور قوم نہیں جن پر عروج و زوال کے اتنے دور آئے ہوں۔ خدا نے اعلان کیا کہ خدا سے عہد توڑنے کی پاداش میں وقت و فوقتا ان پر کوئی نہ کوئی طاقت خدا کا عذاب بن کر نازل ہوتی رہے گی۔ ان کی پوری تاریخ خدا کے اس اعلان کی گواہ ہے۔ ہمارے دور میں ہٹلر کی صورت میں ان پر خدا کا قہر نازل ہوا۔ خدا نے بتایا کہ بنی اسرائیل میں آخری پیغمبر، مسیح علیہ السلام کے انکار کے بعد اب وہ ہمیشہ مسیحیوں کے زیر نگیں رہیں گے۔ تب سے اب تک ان کی قومی زندگی یہی دکھا رہی ہے۔ اس مظاہرے سے خدا یہ دکھانا چاہتا ہے کہ خدا کا وجود اور آخرت میں خدا کی عدالت کا اعلان ایک حقیقت ہے۔
اگر کسی کی حساسیت ایسے خدا کو پسند نہ کرے جو اپنے مجرموں اور سرکشوں کو اس طرح سزا دیتا ہے تو اس سے یہ حقیقت باطل نہیں ہوتی، خدا بہرحال ایسا ہی ہے ۔دنیا عبث پیدا نہیں کی گئی۔ انسان کو اس کے اعمال کا جواب دہ ہونا ہوگا۔
تاریخی معلومات کے اعتبار کے جس اصول پر سقراط، افلاطون اور ارسطو اور ان کے ساتھ بیتے واقعات ہمارے اعتبار و یقین کے لیے کافی ہو جاتے ہیں، اسی طرح بنی اسرائیل کے قومی وجود کی تاریخ کے ساتھ جڑے مہا واقعات تاریخی طور پر ثابت اور معتبر ہیں۔ سوائے یہ کہ یہ دعوی کیا جائے کہ سقراط، افلاطون اور ارسطو کے وجود افسانہ اور ان سے منسوب کتب کا انتساب مشکوک ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک کے تاریخی وجود کو معتبر اور دوسرے کو نا معتبر مانا جائے اور وجہ یہ ہو کہ ایک کے ساتھ بیتے واقعات ہم انسانوں کے علم و تجربہ سے ماورا ہیں۔ اپنے اثرات سے اپنے وجود کا ثبوت الیکڑان و پروٹان دیں یا کسی عقلی اقتصا سے گیلیم اور جرمینیم اپنا ان دیکھا وجود ثابت کریں یا بنی اسرائیل کی قومی تاریخ خدا کے ساتھ اپنے عہد کے اثرات و نتائج سے خدا کے وجود کا اثبات کرے، یہ سب علمی اور عقلی استدلال کی راہ سے اپنے غیبی وجود کا اثبات کرتے ہیں۔
عرفان شہزاد
مذہبی استدلال کے ایسے اور متعدد ناقابل تردید اور ناقابل توجیہ شواہد اور پہلو ہیں، جن کو تفصیل سے میری آئندہ کتاب، “مذہب کا استدلال” میں دیکھا جا سکے گا، ان شاء اللہ۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply