نسیان کا درد/حنظلہ رفیق

(ویتنام کے ایک بوڑھے پروفیسر کی کہانی جو یادداشت کھو کر اپنی بیوی کو اپنی محبوبہ سمجھنے لگا)
کچھ دن قبل ویتنام کے ایک گمنام ادیبViet Thanh Nguyenکی کہانیوں کا ایک مجموعہ میری نظر سے گزرا ؛ اس میں ویتنام کے ان مہاجروں اور نئی نسل کے سوانحی افسانے تھے جو کہ ویتنام جنگ یا ظالم کمیونسٹوں سے جان بچانے کی خاطر اپنے وطن سے ہجرت کر گئے ۔ ویٹ تھین ناگویان پیدائشی طور پر ویتنامی ہے لیکن امریکہ میں رہائش پذیر ہے۔اس کے ویتنام جنگ پر لکھے ناول
” The Symphithizer”کو 2016 میں Pulitzer Prize ملا تھا۔ مذکورہ افسانوں کے مجموعے کا نام “Refugees” ہے اس مجموعے کی ایک کہانی پڑھتے پڑھتے آنکھ سے آنسو رواں ہو گئے۔ دوسری بھی کہانیاں بہت پُر اثر اور اعلیٰ ہیں مگر میں اس کہانی پر کچھ لفظ لکھنے بیٹھ گیا۔۔

مصری ادیب نجیب محفوظ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ یادداشت کا ظلم اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب ہم نسیان میں کھوئی باتوں کو یاد کرتے ہیں۔ نسیان کا آنا یادوں کے انبار کو ختم نہیں کرتا بلکہ اور اُلجھاتا چلا جاتا ہے ۔ پروفیسر کھینKhanh اور اس کی بیوی شا Sa امریکہ میں اکیلے رہتے ہیں۔ویتنام جنگ کے دوران وہ اپنے چھ بچوں کے ساتھ اپنے وطن سے ہجرت کر کے امریکہ چلے جاتے ہیں۔پروفیسر کھین علوم بحریات Oceanography کا ماہر تھا اور اسکے پاس ڈگری بھی تھی لیکن اس کے متعلقہ کوئی ملازمت نہ پا کر وہ ایک یونیورسٹی میں ویتنامی زبان پڑھانے لگتا ہے، ان کی شادی کو چالیس برس بیت چکے ہیں، پروفیسر کی عمر ستر 70 برس سے زیادہ ہو چکی ہے اور اسکی بیوی مسز کھین Mrs. Khanh تقریبا ساٹھ برس کی ہے۔ ان دونوں کی زندگی میں کوئی خاص غیر معمولی ترتیب اور ہنگامہ و ہلچل نہیں ۔ویرانی اور تنہائی میں کبھی ان کا ایک بیٹا ملنے آجاتا ہے جو خود ساتھ رہنے کی بجائے انہیں مالی یا نوکر رکھنے کا مشورہ دیتا ہے جسے اس کی ماں غصے سے ٹال دیتی ہے۔ ان کے چھ  بچوں میں سے کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں رہتا ۔کبھی کبھار وہ کسی تقریب میں یا کہیں باہر دوستوں اور پڑوسیوں سے ملاقات کرنے چلے جاتے ہیں ۔پروفیسر اب صرف اتوار کو کلاس لیتا ہے اور مسز کھین ایک قریبی لائبریری میں 2 گھنٹے کے لیے کام کرتی ہے جس کے عوض اسے اچھا معاوضہ ملتا ہے۔
ایک شام وہ دونوں اپنے کسی دوست کی شادی میں جاتے ہیں ،جہاں پروفیسر ایک گیت سن کر اپنی بیوی کو ڈانس کرنے کا کہتا ہے، مسز کھین پہلے تو حیران ہوتی ہے اور پھر خفا ہو کر پروفیسر کو کہتی ہے کہ ڈانس فلور پر نوجوان جوڑوں کو دیکھ کر اپنی عمر کا لحاظ کرے۔پروفیسر یہ سن کر اپنی نشست پر بیٹھ جاتا ہے پر کچھ دیر بعد وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے
” آج سے پہلے تو تم نے کبھی مجھے اس گیت پر ڈانس کرنے سے منع نہیں کیا ، یان!یہ تو تمہارا پسندیدہ گیت ہے”
پروفیسر کی بیوی اپنے اصلی نام کی بجائے یان Yen کا نام سن کر حیران ہوتی ہےاور اسے مذاق سمجھتے ہوئے پروفیسر سے پوچھتی ہے کہ یان کون ہے ؟ پروفیسر اس کو جواب دیتا ہے کہ یان تم ہی ہو۔ اس رات گھر واپسی پر پروفیسر گاڑی چلاتے ہوئے اپنے گھر کا راستہ بھی بھولتا ہے اور دو غلط موڑ کاٹنے کے بعد گھر پہنچتا ہے اس کے بعد مسز کھین یان نام کا تذکرہ بھول جاتی ہے پر وہ کچھ دن تک محسوس کرتی ہے کہ پروفیسر کا دماغ عام چیزیں بھی بھولنے لگا ہے اور اسے روز مرہ کے معاملات بھی یاد نہیں رہتے۔

پروفیسر کو نسیان کا مرض لاحق ہو جاتا ہےاور وہ اپنی یاد دہانی کے لیے ایک چھوٹی نوٹ بک اپنے پاس رکھتا ہے جس پر وہ اپنی غلطیاں اور بھولی ہوئی باتیں لکھتا ہے، پروفیسر کی بیوی مسز کھین اس کی دیکھ بھال کے لیے چوکنا ہو جاتی ہے اور پروفیسر یونیورسٹی میں پڑھانا ترک کر دیتا ہے۔مسز کھین رات کو ٹہلنے اور بیت الخلاء جانے کے راستے پر فلورسنٹ ٹیپ چپکاتی ہے تا کہ پروفیسر کو نشاندہی رہے اور بیت الخلاء کے اندر عین فلش کے اوپر Flush کا لفظ بھی بڑے خط میں لکھتی ہے مگر پروفیسر کی حالت ہر آئے دن خراب ہوتی جاتی ہےاور وہ ہر دوسری رات بستر پر ہی پیشاپ کر دیتا ہے مسز کھین اکتائے بغیر بستر کی چادریں بدلتی رہتی ہے۔

ایک دن پروفیسر چہل قدمی کے بعد گھر واپس آتا ہے تو اس کے ہاتھ میں شیشے کی ٹیوب میں بند گلاب کا ایک پھول ہوتا ہے پروفیسر مسز کھین کو پھول پیش کرتے ہوئے بڑے رومانوی لہجے میں کہتا ہے
” پیاری یان! یہ تمہارے لیے ہے”۔
مسز کھین حیران رہ جاتی ہے اور سوچتی ہے شاید یان کوئی پروفیسر کے ساتھ کالج یا یونیورسٹی میں پڑھنے والی دوست ہو گی یا پھر ویتنام میں اس کے محلے کی کوئی لڑکی جس سے اسے محبت رہی ہو ؛ جو اسے اب یاد بھی نہیں۔کچھ دیر بعد جب پروفیسر کا دماغ ٹھکانے آتا ہے تو وہ میز کے گلدان میں اپنا لایا گلاب کا پھول دیکھ کر مسز کھین کو کہتا ہے کہ تم یہ پھول کس لیے لائی تھی، مسز کھین پروفیسر کی حالت پر روتے ہوئے کہتی ہے کہ اس پھول کو وہ نہیں بلکہ پروفیسر خود لایا تھا۔پروفیسر یہ بات اپنی نوٹ بک میں درج کر لیتا ہے لیکن اگلے ہی لمحے وہ پھر مسز کھین کو یان کہتے ہوئے معذرت کرتا ہے اس دن پروفیسر کی بیوی شام کو لائبریری سے واپس آ کر گھر میں پروفیسر کی مطالعہ گاہ میں جاتی ہے اور اس کی نوٹ بک میں یاد دہانی رقم کرتی ہے

“آج میں نے اپنی بیوی کو غلطی سے یان کہہ دیا “۔

پروفیسر کو مطالعہ کرنا بہت پسند ہے ۔اکثر جوانی کے دنوں سے ہی وہ اپنی بیوی کو کتابیں تحفے میں دیتا رہتا تھا اور اس کا یہ معمول اب بھی برقرار تھا۔جو کتاب بھی وہ مسز کھین کو تحفے میں دیتا اس کے پہلے صفحے پر اپنی دلکش لکھائی میں مسز کھین کا نام لکھ کر یہ جملہ ضرور رقم کرتا  “میری پیاری بیوی کے لیے” ۔

پروفیسر اکثر تاریخ، جغرافیہ اور لغت کے متعلق کتابیں لے کر آتا تھا جبکہ مسز کھین کو ناول اور افسانے پڑھنے کا شوق تھا۔پروفیسر نے اپنی مطالعہ گاہ میں ایک الماری خاص مسز کھین کی کتابوں کے لیے چھوڑ رکھی تھی اس الماری میں وہ ساری کتابیں ترتیب سے پڑی تھیں جو پروفیسر نے وقتا فوقتاً مسز کھین کو تحفے میں دی تھیں۔

پروفیسر کی خراب دماغی حالت کی وجہ سے اب اسے مطالعہ کرتے ہوئے بھی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ،اس لیے وہ بلند آواز سے مطالعہ کرنے لگا۔ایک روز اسی طرح وہ مطالعہ کرتے ہوئے ایک جملے پہ اٹک جاتا ہے اور کافی دیر تک آگے نہیں پڑھتا؛ جب اس سے لفظ ادا نہیں ہوتے تو وہ مسز کھین کو روتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے لگتا ہے کہ وہ اپنا دماغ کھو چلا ہے اور اسے باتیں یاد نہیں رہتیں۔ یہ سن کر مسز کھین اسے کہتی ہے کہ وہ فکر نہ کرے آج کے بعد وہ اس کے لیے کتاب سے پڑھے گی اور اونچی آواز سے اسے سنایا کرے گی اور یوں پروفیسر کا مطالعہ جاری رہے گا۔

ایک رات بستر پر سوتے ہوئے مسز کھین پروفیسر کی جیب سے اس کی نوٹ بک نکالتی ہے تو اس پر آخری استعمال میں لائے گے صفحے میں لکھا ہوتا ہے “آج وہ اپنا نام بھول گئی ہےاور کہتی ہے مجھے یان نہ کہو!معاملہ بہت خراب ہے مجھے اس پر نظر رکھنی چاہیے “۔ مسز کھین کو اس کے بعد اکثر پروفیسر سے اپنا نام یان سننے کو ملتا ہے، کبھی وہ کھانے پر اسے یان کہہ کر چینی ڈالنے کا کہتا ہے اور کبھی کہتا ہے کہ یان! آج ٹی وی پر کونسا پروگرام نشر ہوگا۔ مسز کھین سوچتی ہے کہ اگر پروفیسر اس کے اصل نام کی بجائے یان کا نام لے لے کر اسے یوں مخاطب کرتا رہا تو وہ کسی وقت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے گی۔

مسز کھین کو وہ دن یاد آتا ہے جب پروفیسر پہلی بار اس کے باپ سے ملنے جوانی میں اس کے گھر آیا تھا اور وہ کچن میں بیٹھی ان کی گفتگو سن رہی تھی۔کبھی کبھی اسے لگتا ہے کہ پروفیسر نسیان سے ویسے ہی اجنبی سا بن کر اپنے گھر لوٹتا ہے جیسے وہ پہلی بار اک اجنبی کی طرح چالیس سال پہلے اس کے گھر آیا تھا۔

شادی کے وقت مسز کھین کی عمر 19 برس تھی اور پروفیسر 30 برس کا تھا۔اکثر بیٹھے بیٹھے مسز کھین کو وہ پرانے دن یاد آتے ہیں جب وہ ویتنام میں رہتے تھے اور پھر اسے وہ خوف سے بھرے دن یاد آتے ہیں جب وہ کئی دوسرے مہاجرین کے ساتھ ویتنام سے ایک بڑی کشتی میں بیٹھ کر کسی اور زمین کی طرف روانہ ہوئے تھے اور سات دن تک بحرالکاہل کی موجوں پر بہتے رہے تھے۔سب لوگ خدا سے سلامتی کی دعا مانگتے تھے جبکہ پروفیسر ہر وقت کشتی کے آگے بیٹھ کر سمت اور ہوا کے دباؤ کا اندازہ لگاتا رہتا تھا ۔ آخر ساتویں دن جب انہیں ملائشیا کا ایک جزیرہ نظر آتا ہے تو جوان مسز کھین مارے خوشی کے پروفیسر کی گود میں آکر اس سے لپٹ جاتی ہے اور اونچی آواز سے   I Love You   کہتی ہے۔

یہ منظر دیکھ کر ان کے چھ ننھے بچے قہقہے لگاتے ہیں اور پروفیسر کچھ کھسیانہ سا ہو کر اپنی عینک درست کرتا ہے۔مسز کھین کو اپنے بچے یاد آتے ہیں جو اپنی زندگی میں مگن ہو چکے ہیں۔

پروفیسر کی خراب حالت کی وجہ سے مسز کھین فیصلہ کرتی ہے کہ وہ لائبریری سے ریٹائرمنٹ لے گی اور ہر وقت پروفیسر کے پاس ہی رہے گی۔مسز کھین کے لائبریری میں آخری دن ان کے دوست الوداعی تقریب کا اہتمام کرتے ہیں اور اسے بہت سارے تحفے دے کر رخصت کرتے ہیں۔واپسی پر گھر آتے ہوئے وہ عقبی سیٹ پر نظر مارتی ہے تو اسے تحفوں کے اوپر ڈائپرز کا ڈبہ نظر آتا ہے جو اس نے سٹور سے پروفیسر کے لیے خریدا تھا۔ وہ جب گھر آتی ہے تو شام کا اندھیرا ہو رہا ہوتا ہے مگر پروفیسر غائب ہوتا ہے وہ جلدی سے سارے گھر میں نظر مارتی ہے اور بیت الخلاء میں تلاش کرتی ہوئی باہر آتی ہے۔اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں پروفیسر اپنے گھر کا راستہ بھول کر کسی اور کے گھر نہ چلا گیا ہو۔وہ کار نکال کر اسے گھر کے ارد گرد دیکھتی ہے ، کبھی پارک پر اور کبھی فٹ پاتھ پر نظر دوڑاتی ہے مگر پروفیسر کہیں نظر نہیں آتا۔ پھر بلاک کے چورراستے میں گاڑی روک کو مسز کھین روتے ہوئے بلند آواز سے پروفیسر کو پکارنے لگتی ہے۔چوک کے مکانوں سے لوگ کھڑکیوں سے پردے ہٹا کر اسے دیکھتے ہیں راہ چلتے ڈرائیور گاڑیاں روک کر اس کی گاڑی پر متوجہ ہو جاتے ہیں ۔وہ روتی ہوئی کافی دیر پروفیسر کو تلاش کرتی رہتی ہے اور پھر گھر واپس چلی آتی ہے ۔ جب وہ اندر داخل ہوتی ہے تو دیکھتی ہے کہ پروفیسر کی مطالعہ گاہ سے روشنی آ رہی ہے۔ جب وہ وہاں جاتی ہے تو پروفیسر اس کی کتابوں کی الماری پر جھکا کتابوں کو صاف کر رہا ہوتا ہے اور اپنی تحفے میں دیں کتابوں کو ترتیب سے لگا رہا ہوتا ہے ۔مسز کھین کو آتا دیکھ کر پروفیسر کتابیں نیچے رکھتا ہے اور اسے کہتا ہے “تم کون ہو؟” مسز کھین کی آنکھوں میں غم اور خوشی کے آنسو یکجا ہو جاتے ہیں اور وہ جواب دیتی ہے  “میں یان ہوں!اور بھلا کون ہو گا” پروفیسر اثبات میں سر ہلا کر دوبارہ کتابیں جوڑنے لگتا ہے۔مسز کھین محسوس کرتی ہے کہ اس لمحے اس کے وجود پر محبت کا وہی احساس چھا رہا ہے جو چالیس برس پہلے پروفیسر کو پہلی بار اپنے گھر میں ایک اجنبی کی طرح دیکھ کر چھایا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسز کھین پھر سوچتی ہے کہ وہ بھلا محبت اور رومان کے بارے کیا جانتی ہے ؟ مگر وہ اتنا ضرور جانتی ہے کہ وہ اپنی آخری دھڑکن تک پروفیسر کے ساتھ رہے گی؛ اس کا خیال رکھے گی؛ اس کی تحفے میں دی ہوئی کتابوں پر پروفیسر کے خوبصورت خط میں لکھا اپنا نام پڑھتی رہے گی۔ وہ پروفیسر کے لیے مطالعہ کے وقت اونچی آواز میں پڑھتی رہے گی اور ہر بار ایسا کرتے ہوئے ایک ایک لفظ اور صفحے پر رک کر اسے محسوس کرے گی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply