سولہ سنگھار اور آرسی مصحف/ابو جون رضا

یہ اس دور کا ذکر ہے جب برصغیر میں خواتین کے بناؤ سنگھار اور زیب و زینت کے لیے سولہ چیزوں کو لازمی مانا جاتا تھا اور ان تمام لوازمات کو ان کی تعداد کی مناسبت سے سولہ سنگھار کہا جاتا تھا۔ عرف عام میں سولہ سنگھار کے معنی خوب بناؤ سنگھار کرنا سمجھا جاتا ہے اور خواتین بھی کم ہی جانتی ہیں کہ سنگھار کرنے کے یہ سولہ لوازمات کیا تھے؟ آج بھی اگر کسی سے پوچھیے تو بہت کم لوگ ہوں گے جنھیں ان کی تفصیلات کا علم ہوگا۔

سولہ سنگھار دلہنوں کے ساتھ تو مخصوص تھا مگر شادی بیاہ اور خاص تقریبات کے موقعوں پر دیگر خواتین بھی سولہ سنگھار کیا کرتی تھیں۔ چونکہ اس کے زیادہ تر لوازمات قیمتی ہوا کرتے تھے اس لیے اعلیٰ اور متمول طبقے کی خواتین ہی اس کا اہتمام کرسکتی تھیں کیونکہ ان سولہ میں سے کم و بیش دس لوازمات سونے یا چاندی کے زیورات ہوا کرتےتھے۔ گو ان میں سے اکثر زیورات آج بھی خواتین کے بناؤ سنگھار کا حصّہ ہیں لیکن اب بناؤ سنگھار کے لیے سولہ سنگھار کی اصطلاح استعمال نہیں کی جاتی۔

بناؤ سنگھار کے پرانے تصور میں لباس، زیورات اور چہرے کی خوب صورتی کی اہمیت کے لحاظ سے ایک صحت مند توازن تھا لیکن میک اپ اور بیوٹی پارلرز کے موجودہ دور میں چہرے اور ہاتھ پیروں کی خوب صورتی پر توجہ مرکوز ہوگئی ہے جس کا سبب کاسمیٹکس بنانے والی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں ہیں جنھوں نے محض اپنا کاروبار بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی غرض سے بے تحاشہ اشتہار بازی کرکے خواتین کو یہ باور کرادیا ہے کہ ان کے چہرے کا گورا اور خوب صورت نظر آنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ خواہ مختلف کریموں اور دوسرے حربوں سے حاصل کیا گیا یہ ظاہری حسن و جمال چند گھنٹوں کا ہی مہمان کیوں نہ ہو۔

خیر، اس بحث کو طول دیے بغیر ہم اپنے اصل موضوع سولہ سنگھار کی طرف واپس آتے ہیں۔ اس کے اجزاء اس طرح ہیں۔ پہلے زیورات کا ذکر، سر سے پیر کی جانب۔

(1) ماتھے کا مانگ ٹیکا
(2) ناک کی نتھ یا نتھنی
(3) کانوں کےکرن پھول یعنی بالیاں، بالے، بندے، جھمکے
(4) گلے کا ہار
(5) بازوؤں کے بازو بند
(6) کلائیوں کی چوڑیاں اور کنگن
(7) ہاتھوں کی انگلیوں کی انگوٹھیاں یا آرسی
(8) کمر کا پٹکا یا کمر بند
(9) پیروں کی پائل ، پازیب یا جھانجھر
(10) پیروں کی انگلیوں کے بچھوے۔
(11) بالوں میں گجرے
(12) آنکھوں میں کاجل
(13) ہاتھوں اور پیروں میں مہندی
(14) مانگ میں سندور
(15) ماتھے پر بندیا اور
(16) جوڑا یا لباس

عہد مغلیہ میں شہزادیوں میں آئینہ دار انگوٹھیاں پہننے کا رواج تھا جنھیں آرسی کہا جاتا ہے۔ فارسی میں آئینے کو آرسی کہتے ہیں۔ بعد میں مسلمانوں میں آرسی کا رواج عام ہوگیا۔ آج بھی کئی جگہ مسلم گھرانوں میں شادی کے موقع پر آرسی مصحف کی رسم ادا کی جاتی ہے جس میں دولھا دلھن کو آئینہ اور مصحف (قرآن) دکھایا جاتا ہے۔

سیندور ہندو کلچر کا ایک لازمی حصہ تھا اس کو شادی شدہ خواتین سے خاص سمجھا جاتا ہے مگر مسلمانوں میں اس کا رواج نہیں رہا۔

ان رسومات کے ساتھ کچھ توہمات بھی جڑی  تھیں،مثال کے طور پر آرسی مصحف کے وقت آئینہ میں دلہن کو دیکھتے وقت اس کے بائیں یا دائیں کندھے کو دبا دینا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی تھی کہ دلہا کو آئینہ میں دلہن کی شکل کی جگہ چڑیل کی شکل نظر آتی تھی۔ اب واللہ اعلم وہ ساس کو ایسا کہتا تھا یا واقعی دلہن اس کو چڑیل کی طرح دکھائی دیتی تھی لیکن یہ ضرور ہے کہ اس زمانے میں دلہا کی شادی اگر غیر خاندان میں ہو رہی ہے تو اس کا دلہن کو پہلے سے دیکھنا اور بات چیت کرنا قریب قریب ناممکن تھا۔ رشتہ زیادہ تر پروفیشنل خواتین کے ذریعے ہوتا تھا جن کو مشاطہ کہا جاتا تھا۔

شادی والی رات ہی دلہا کی لاٹری نکلنے کا امکان ہوتا تھا اور یہ بھی ممکن تھا کہ اس کو لاٹری میں صرف “استری” ملے جس کو وہ ساری زندگی دیکھ کر آہیں بھرے اور اس کی “استری” اس کو جلاتی رہے۔

منہ دیکھنے سے پہلے بھی کس دن وہ صاف تھا
بے وجہ کیوں غبار رکھیں آرسی سے ہم

فراق گھورکپوری صاحب شاعر اور بلا کے عاشق مزاج تھے ان کا رشتہ جس مشاطہ نے کروایا اس نے دلہن کے حسن کے اتنے قصیدے پڑھے تھے کہ وہ ہزار جان عاشق ہوگئے تھے ۔ سہاگ رات کو جب دلہن کا گھونگھٹ اٹھایا تو ان کے ارمانوں پر اوس پڑگئی کیونکہ جوحلیہ بتایا گیا تھا، معاملہ اس کے الٹ تھا۔ اس بات کا ان کو ساری زندگی قلق رہا مگر انہوں نے طلاق نہ دی اور اسی بدصورت عورت کے ساتھ ساری زندگی گزار دی ۔ لیکن محبت کہاں سے لاتے ، اسی لیے اولاد تو پیدا ہوئی مگر اولاد سے محبت بھی نہ کرپائے۔

عمر شریف مرحوم کہا کرتے تھے کہ “ان کے محلے میں ایک عورت کے دس بچے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ سچا پیار نہ ملا”۔

حالانکہ دس بچوں کے بعد پیار کہاں رہتا ہے، نفرت سی ہونے لگ جاتی ہے۔

آج کل آرسی مصحف بس ایک روایتی رسم ہے کیونکہ دلہا دلہن نے پہلے ہی ایک دوسرے کو خوب اچھے سے دیکھا بھی ہوتا ہے، باتیں بھی کی ہوتی ہیں اور ساتھ مل کر بعض اوقات شادی کی شاپنگ بھی کی ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان رسموں سے اسلام کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ بس ان کو انجام دینے والا یہ دیکھ لے کہ کسی قسم کا شرک کا پہلو ان میں شامل نہ ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply