سُوئے منتہیٰ وہ چلے نبی ﷺ/محمد شاہزیب صدیقی

سرِ لامکاں سے طلب ہوئی، سوئے منتہی وہ چلے نبی
سوئے منتہا بھی وہ کہاں رُکے، سوئے لامکاں وہ چلے نبی
کوئی حد نہ ان کے عروج کی، بلغ العلیٰ بکمالہ
میں ان اشعار کو پڑھ کر کھو سا جاتا ہوں۔ آپ تصور کیجیے کہ وہ کیا لمحات ہونگے، جب ستاروں کے درمیان سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا ہوگا۔ مجھے یہ یقین ہے کہ اگر قوانین قدرت میں وقت تھمنے کی کوئی سبیل ہوئی تو دو بار وقت ضرور تھما ہوگا۔ ایک وہ لمحہ جب آپ ﷺ کی آمد ہوئی اور دوسرا وہ جب آپ کا سفرِ معراج ہوا۔ کائنات کا ایک ایک ذرہ آپ ﷺ کو پروٹوکول دینے کے لیے اپنے مقام پر منجمد ہوگیا ہوگا، یہاں تک کہ وقت خود رُک کر آپ ﷺ کے دیدار میں مصروف ہوگا، اُس ہستی کا دیدار، جس کے لئے خدا نے کائنات (سپیس) کے بعد اُسے بھی تخلیق کیا۔ اب اسے ہم عشق کی معراج کہیں یا انسانیت کی، مگر ہے تو معراج ہی کہ خالقِ کائنات نے وجہِ کائنات کو اِس چار جہتی کائنات سے نکال کر ہائپر ڈائمنشن میں بُلایا، ایسی جگہ جو زمان و مکاں سے ماورا تھی۔ ہم آج نظریہ اضافت کے ذریعے لینتھ کانٹریکشن اور ٹائم ڈائلیشن کا کانسپٹ سمجھ سکتے ہیں، یعنی اگر ہم روشنی کی رفتار حاصل کرلیں تو ہمیں کائنات ایک نقطے جتنی لگے گی۔ بہرحال اہم بات یہ ہے کہ سائنس محدود علم ہے جبکہ سفرِ معراج ایک معجزہ تھا اور معجزات کو سائنس کی کسوٹی پر مکمل طور پر پرکھنا ممکن بھی نہیں (جیسے 94 سال پہلے تک ہم کائنات کو ساکن تصور کرتے تھے مگر اب پھیلتا ہوا مانتے ہیں یعنی سائنس میں علمی ارتقاء ہوتا رہتا ہے) لیکن بطور سائنسی طالبعلم میں یہ سمجھتا ہوں کہ واقعہ معراج چار جہتی کائنات سے نکل کر ایک ایسے جہاں کا سفر تھا جدھر لامتناہی جہتیں موجود تھیں۔ ڈائمنشن (جہتوں) کے کھیل کو مشہور کاسمولوجسٹ کارل سیگن نے ایک مثال سے سمجھایا تھا، انہوں نے کہا:
“فرض کیجئے کہ ایک صفحے پر زندہ انسان قید ہے چونکہ صفحہ دو جہتوں یعنیx اور y ایکسز (لمبائی اور چوڑائی) پر مشتمل ہوتا ہے لہٰذا صفحے والا انسان دو جہتی دنیا میں قید ہے ۔ ہم جیسا انسان جو چار جہتی دنیا سے تعلق رکھتا ہے (جس میں لمبائی، چوڑائی ، اونچائی اور وقت موجود ہے) جب صفحے پر قید انسان سے بات کرتا ہے تو چونکہ وہ دو جہتی دنیا سے باہر نہیں دیکھ سکتا تو وہ ڈر جاتا ہے سہم جاتا ہے کہ آواز کہاں سے آرہی ہے ، جب ہمارے جیسا انسان صفحے کے کسی حصے کو دبائے گا تو صفحے میں قید انسان کے لئے یہ بھی ایک ناقابل یقین چیز ہوگی کیونکہ وہ صفحے سے باہر دیکھ نہیں سکتا ۔اب اگر صفحے میں قید انسان کو تھوڑی سے دیر کے لئے صفحے سے اُٹھا کر باہر لایا جائے تو وہ حیرانگی سے مشاہدہ کرے گا کہ اونچائی بھی کوئی چیز ہے جب وہ واپس صفحے میں واپس جائے گا تو اپنی دُنیا کے لوگوں کو یہ نہیں بتا پائے گا کہ وہ کس دنیا کا نظارہ کرکے آیا ہے کیونکہ وہ صفحے میں رہتے ہوئے لمبائی اور چوڑائی کی وضاحت تو کرسکتا ہے مگر اُونچائی کو نہیں سمجھا سکتا۔ بالکل اسی طرح ہماری کائنات کی چادر زمان و مکاں سے بنی ہے اس چادر میں لمبائی ، چوڑائی ، اونچائی اور وقت موجود ہے”
لہٰذا اگر وقت ہماری کائنات کی جہت ہے اور یہ ہر فریم آف ریفرنس کے لیے مختلف رفتار رکھتا ہے تو یقیناً اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، ہماری چار جہتی کائنات سے باہر اگر کوئی ہوگا تو وہ یقیناً ان چاروں جہتوں کو کنٹرول کرسکے گا (جیسے ہم صفحے سے باہر ہونے کی وجہ سے اس بات پر قادر ہونگے کہ صفحے والے انسان کو ایک لمحے میں صفحے سے باہر نکالیں اور اگلے لمحے ہی صفحے کے کسی بھی حصے میں رَکھ دیں)۔ اِسی طرح چودہ سو سال قبل واقعہ معراج میں بُراق (بَرق/بجلی کی جمع) کی اصطلاح کا استعمال ہونا بھی اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ جس نے بُلایا وہ بھی اِن سب اصولوں سے واقف تھا۔
آپ سب کو شبِ معراج مبارک!

  • julia rana solicitors
  • merkit.pk
  • julia rana solicitors london

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply