• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کامریڈ ایاز ملک کے “مارکسی” فیمنزم کے بارے میں۔۔۔شاداب مرتضٰی/حصہ اول

کامریڈ ایاز ملک کے “مارکسی” فیمنزم کے بارے میں۔۔۔شاداب مرتضٰی/حصہ اول

مارچ کی 18 تاریخ کو “مارکسزم، فیمنزم اور مارکسسٹ فیمنزم: چند سیاسی اور نظریاتی نکات” کے عنوان سے کامریڈ ایاز ملک کا مضمون “ہم سب” میں شائع ہوا جس میں انہوں نے پاکستان میں فیمنزم پر مارکسی تنقید سے اختلاف کرتے ہوئے مارکسی فلسفے کی رو سے مارکسزم اور فیمنزم میں سمجھوتے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے اپنے نکتہِ نظر کو سماج میں ابھرنے والے تضادات و سوالات کو سمجھنے میں مدد دینے کی ایک کوشش قرار دیا۔ یہ مضمون بھی اسی طرح کی ایک کوشش ہے۔

کامریڈ ایاز ملک نے اپنے مضمون میں موضوع کے عملی اور نظریاتی پہلوؤں پر بات کی ہے۔ اس مضمون میں ہم مارکسزم اور فیمنزم میں سمجھوتے کے لیے حکمتِ عملی سے متعلق ان کے دلائل کا جائزہ لیں گے جبکہ مضمون کے دوسرے حصے میں ہم ان کے نظریاتی نکتہِ نظر پر بات کریں گے۔

انہوں نے “مماثلت بمع تفریق” کے اصول کو اپنے نکتہِ نظر کی بنیاد بنایا ہے۔ اس کے تحت انہوں نے مارکسزم اور فیمنزم کے درمیان موجود “مماثلتیں (مشترکہ خاصیتں)” پیش کی ہیں اور ان کی بنیاد پر مارکسزم اور فیمنزم میں “سمجھوتے” کا نظریہ پیش کیا ہے۔ تاہم، مماثلت بمع تفریق کے اصول کے دوسرے پہلو یعنی “تفریق بمع مماثلت” کو انہوں نے نظر انداز کیا ہے اور مارکسزم اور فیمنزم کی ان خصوصیات کاذکر نہیں کیا جو مارکسزم انہیں ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں، جو ان کے درمیان تفریق کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس اصول کے بارے میں ہم مضمون کے دوسرے حصے میں بات کریں گے۔ فی الحال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے مارکسزم اور فیمنزم میں سمجھوتے کی خاطر جو “مماثلتیں” پیش کی ہیں ان کی نوعیت کیا ہے۔

فیمنزم اور مارکسزم میں سمجھوتے کے حوالے سے حکمتِ عملی کے بارے میں ان کا نکتہِ نظر یہ ہے کہ مارکس کے اس منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جسے وہ پورا نہ کر سکا ہمیں پرولتاریہ (صنعتی مزدور) اور پیداواری رشتوں کی “وسیع تر تشریح” کرنا چاہیے۔ ان کی مجوزہ وسیع تر تشریح کے تحت ہمیں یہ دکھائی دے گا کہ عورت پرولتاریہ بھی ہوتی ہے! کہ عورت قوتِ محنت (یعنی مزدور) پیدا کرتی ہے! اور یہ بھی کہ محنت کش عورتوں کا بڑا حصہ جنسی استحصال کا شکار ہے! اور ان “مماثلتوں” کی بنیاد پر وہ مارکسزم اور فیمنزم کے درمیان سمجھوتہ کرانا چاہتے ہیں۔ سو، ان کے نزدیک عورت کا مزدور ہونا، قوتِ محنت پیدا کرنا اور مزدور عورت کا جنسی استحصال وہ خاصیتیں ہیں جن کا احاطہ صرف مارکسزم ہی نہیں بلکہ فیمنزم بھی کرتا ہے اور اسی لیے یہ خاصیتیں مارکسزم اور فیمنزم کے درمیان “مشترک” ہیں. فیمنزم کے فلسفے، تاریخ اور عملی جدوجہد سے واقف کسی بھی شخص کے نزدیک یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہو گا کہ مزدور عورتوں کے مسائل بھی فیمنزم کا مطمعِ نظر ہیں!

یہ واضح ہے کہ مارکسزم اور فیمنزم کے درمیان ان کی دریافت کردہ یہ “مماثلتیں” محض ان کے ذہن کی تخلیق ہیں۔ حقیقت میں مارکسزم اور فیمنزم کے درمیان یہ مماثلتیں وجود نہیں رکھتیں بلکہ دراصل یہ وہ خاصیتیں ہیں جو مارکسزم اور فیمنزم کے درمیان خطِ تنسیخ کھینچتی ہیں، انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کرتی ہیں کیونکہ مزدور طبقے کا نمائندہ ہونے کے سبب مزدور عورتوں کے مسائل بھی مارکسزم کا اسی قدر محور ہیں جس قدر مزدور مردوں کے مسائل۔ جبکہ فیمنزم کا محور مزدور عورت کے نہیں بلکہ تمام عورتوں کے ماورائے طبقات مسائل ہیں۔ چنانچہ، کامریڈ ایاز ملک نے جو کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مارکسزم اور فیمنزم کے درمیان سمجھوتہ کرانے کی غرض سے ان خاصیتوں کو جو مارکسزم اور فیمنزم کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرتی ہیں، جو ان کے درمیان متفرق ہیں، انہوں نے انہیں خیالی طور پر مارکسزم اور فیمنزم کے درمیان مماثلتیں بنا کر پیش کر دیا ہے!

سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مارکسی کون سے ہیں جنہیں عورت کے بارے میں یہ تینوں باتیں معلوم نہیں؟ وہ کون سے مارکسی ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ عورتوں کی بڑی تعداد مزدور ہے، کہ محنت کش طبقے کی عورت قوتِ محنت پیدا کرتی ہے، کہ محنت کش عورت کا جنسی استحصال ہوتا ہے؟ وہ صرف اسی قسم کے مارکسی ہو سکتے ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ عورت کے بارے میں یہ عام حقائق مارکسیوں کو معلوم نہیں اور اسی لیے وہ مارکسیوں کو ان عام حقائق سے روشناس کرانے کے لیے پرولتاریہ اور پیداواری رشتوں کی وسیع تر تشریح کرتے ہیں! خیر، آئیے ان کی وسیع تر تشریحات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آیا یہ تشریحات واقعی مارکسزم اور فیمنزم کے سمجھوتے کے لیے کوئی جواز فراہم کرتی ہیں؟

کامریڈ ایاز ملک نے مارکسزم اور فیمنزم میں سمجھوتے کی خاطر پرولتاریہ (مزدور طبقے) کی جو وسیع تر تشریح کی ہے اس کے مطابق پرولتاریہ صرف اجرتی یا صنعتی مزدور نہیں بلکہ ہر “مسکین” یا مظلوم شخص پرولتاریہ ہے۔ سو، ان کی وسیع تر تشریح کے حساب سے پرولتاریہ میں اور کسان، یا ریڑھی لگانے والے یا چپڑاسی میں کوئی فرق نہیں۔ یہ سب پرولتاریہ ہیں۔ پرولتاریہ کیا ہے اس کی تعریف خود مارکس اور اینگلز نے پمفلٹ “کمیونزم کے اصول” اور بعد ازاں “کمیونسٹ مینی فیسٹو” میں فراہم کی ہے۔

پیداواری رشتوں کے بارے میں ان کی وسیع تر تشریح کے مطابق پیداواری عمل سے عورت کا ایک خاص پیداواری رشتہ ہے جو مرد کا نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ عورت قوتِ محنت یعنی مزدور بھی پیدا کرتی ہے۔ سو، پیداواری رشتوں کے بارے میں ان کی وسیع تر تشریح کے لحاظ سے وہ عورتیں بھی پرولتاریہ کے زمرے میں آتی ہیں جو جسمانی محنت نہیں کرتیں بلکہ صرف قوتِ محنت یعنی مزدور پیدا کرتی ہیں۔ وہ اسے پیداواری رشتوں سے عورت کا ایسا تعلق بتاتے ہیں جو صرف عورت کی خاصیت ہے اور اسی وجہ سے وہ مزدور طبقے میں عورت کو مرد مزدور سے ممتاز درجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا واقعی ایسا ہے کہ قوتِ محنت کی پیداوار صرف عورت کرتی ہے اور مرد کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا؟ کیا مرد اس جنسی-جسمانی-عضویاتی عمل میں شامل نہیں ہوتا جس سے پرولتاری خاندانوں میں قوتِ محنت، یعنی نئے مزدور، پیدا ہوتے ہیں؟ کیا مزدور خاندان کا مرد اس قوتِ محنت (نئے مزدور) کی کفالت، پرورش اور تربیت میں شامل نہیں ہوتا؟ کیا ایسے محنت کش خاندانوں میں جہاں عورتیں اجناس کی پیداوار کے عمل میں شامل نہیں ہوتیں بلکہ صرف نئے مزدور پیدا کرتی ہیں وہاں مردوں کی جسمانی محنت اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اجرت کے بغیر بچے زندہ رہ سکتے ہیں اور پرورش پا کر قوتِ محنت استعمال کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب واضح ہیں۔

جس طرح عورت قوتِ محنت پیدا کرتی ہے اسی طرح عورت ہی قوتِ محنت کا استحصال کرنے والوں کو بھی پیدا کرتی ہے. مزدور بھی عورت کے پیٹ سے جنم لیتا ہے اور سرمایہ دار بھی۔ مظلوم کا جنم بھی عورت کی کوکھ سے ہوتا ہے اور ظالم بھی عورت کے بطن سے ہی جنم لیتا ہے۔ اگر ہم اس وجہ سے عورت کو مسکین، مظلوم، پرولتاریہ یا مرد مزدور سے افضل ثابت کریں گے کہ عورت قوتِ محنت، یعنی مزدور پیدا کرتی ہے تو پھر قوتِ محنت کا استحصال کرنے والے پیدا کرنے پر، سرمایہ دار اور ظالم پیدا کرنے پر ہم عورت کو کیا مقام دیں گے؟ مثلا اگر قوتِ محنت پیدا کرنے کی وجہ سے ہم پیداواری رشتوں میں پرولتاری عورت کو پرولتاری مرد سے زیادہ مظلوم کہہ سکتے ہیں تو قوتِ محنت کا استحصال کرنے والے پیدا کرنے پر، سرمایہ دار پیدا کرنے پر ہم عورت کو سرمایہ داروں سے زیادہ ظالم ہونے کا ملزم ٹہرا سکتے ہیں؟ ظاہر ہے ایسا کرنا محض ایک حماقت ہوگی۔

کامریڈ ایاز ملک نے اپنے تئیں مارکسزم کے اصولوں کی تشریح تو کسی حد تک کی ہے لیکن فیمنزم کے اصولوں کا زکر نہیں کیا۔ تاہم، انہوں نے مارکسزم اور فیمنزم میں عملی سمجھوتے کے لیے جو مماثلتیں پیش کی ہیں ان سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ فیمنزم غالبا مزدور عورتوں کے حقوق کی کوئی تحریک ہے اور اسی لیے مارکسیوں نے اگر اس سے اتحاد نہ کیا تو وہ مزدور طبقے کی بہت بڑی تعداد سے، مزدور عورتوں کی حمایت سے محروم رہ جائیں گے!

فیمنسٹ فلسفے اور تحریک کے تاریخی جائزے سے اور پاکستان میں موجود فیمنسٹ تنظیموں اور حلقوں کے منشور، مطالبات، نعروں اور سرگرمیوں سے کوئی بھی شخص باآسانی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ فیمنزم مزدور عورتوں کے اجتماعی حقوق کی طبقاتی تحریک نہیں بلکہ طبقاتی تفریق سے ماورا صنف پرستی کی بنیاد پر استوار عورتوں کے انفرادی حقوق کی لبرل سرمایہ دارانہ تحریک ہے ہر چند کہ گزشتہ صدی کے نصف سے فیمنزم میں سوشلزم اور مارکسزم کے سابقے اور لاحقے جوڑ کر مارکسزم میں فیمنزم کے نام پر لبرل ازم اور اصلاح پسندی کے نظریات کی پیوند کاری کرنے کی کوششیں جاری ہیں جن میں قوتِ محنت کی پیداوار کو بنیاد بنا کر مزدور عورت کے نام پر مزدور طبقے کے مرد و زن میں صنفی امتیاز کو ہوا دینے کا رجحان بھی شامل ہے۔ حتی کہ پاکستان کے وہ فیمنسٹ بھی جو خود کو “سوشلسٹ” سمجھتے ہیں یہ یقین رکھتے ہیں کہ عورت طبقوں میں تقسیم نہیں اور سرمایہ دار، ملکیتی طبقے کی عورت بھی اسی طرح مظلوم ہے جس طرح مزدور، محنت کش طبقے کی عورت!

فیمنزم کی نظریاتی بنیاد اس تاریخی مغالطے میں ہے کہ صنفی نابرابری، صنف کی بنیاد پر مرد کے ہاتھوں عورت کا استحصال انسانی سماج کی ابتداء سے ہی اس میں موجود رہا ہے۔ اسی مغالطے کو کامریڈ ایاز ملک ذرا مختلف انداز سے دوہراتے ہیں جب وہ اینگلز کی تصنیف” خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز” کا حوالہ دے کر یہ کہتے ہیں کہ اینگلز کے مطابق “سماجی ارتقاء میں صنفی بنیاد پر محنت کی تقسیم اور پیداواری رشتوں میں درجہ بندی کوئی فطری عمل نہیں بلکہ وہ مخصوص اور پرتشدد عمل تھا جس کے زریعے غیر طبقاتی اور اکثر(!) مادرسری بنیاد پر منظم سماج کو پدرسری اور طبقاتی تفریق کے تحت تشکیل دیا گیا”۔

حقیقت تو یہ ہے کہ محنت کی صنفی تقسیم کے اسباب بیان کرتے ہوئے اینگلز اسی کتاب کے نویں باب “بربریت اور تمدن” میں کامریڈ ایاز ملک کے حوالے کے بالکل برخلاف یہ بیان کرتا ہے کہ “محنت کی تقسیم محض ایک فطری چیز تھی۔ یہ تقسیم صرف مردوں اور عورتوں کے درمیان تھی۔ مرد لڑائی پر جاتے تھے، شکار کرتے تھے، مچھلی پکڑتے تھے، غذا کے لیے کچا مال لاتے تھے، اور ان کاموں کے لیے ضروری اوزار بناتے تھے۔ عورتیں گھر سنبھالتی تھیں، کھانا پکاتی تھیں، اور کپڑا بنتی اور سیتی تھیں۔ مرد اور عورت دونوں اپنے اپنے کام کے شعبوں میں آپ اپنے مالک تھے۔ جنگل میں مرد اور گھر میں عورت کا بول بالا تھا۔ مرد ہتھیاروں اور شکار کرنے کے سامان کے مالک تھے اور عورت گھر کے سازوسامان اور برتنوں کی۔ گھرانا کمیونسٹی تھا۔”

محنت کی صنفی تقسیم کب اور کیوں عورت کے استحصال میں تبدیل ہوئی اس بارے میں اسی باب میں آگے چل کر اینگلز بیان کرتا ہے کہ “خاندان کے اندر محنت کی تقسیم سے مرد اور عورت کے درمیان جائیداد کی تقسیم اور اس کا بٹوارہ ہوا۔ اس تقسیمِ محنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، پھر بھی چونکہ خاندان کے باہر محنت کی تقسیم بدل چکی تھی اس لیے اس نے پہلے کے خاندانی تعلقات کو الٹ پلٹ کر دیا۔ وہی چیز جس نے پہلے عورت کو گھر کی مالکہ بنایا تھا، یعنی اس کا گھریلو کام تک محدود رہنا، وہی چیز گھر کے اندر مرد کے تسلط کی بنیاد بنی۔ ”

چنانچہ اینگلز کے مطابق مرد اور عورت کے درمیان محنت کی تقسیم، محنت کی صنفی تقسیم، پرتشدد عمل کا نہیں بلکہ فطری سماجی حالات کا نتیجہ تھی۔ سماجی ارتقاء میں یہ اس وقت عورت کے صنفی استحصال میں تبدیل ہوئی جب سماج میں نجی ملکیت پیدا ہوئی اور اس نے “یک زوجگی” پر مبنی خاندان (Monogamous Family) کو جنم دیا جس میں عورت کی حیثیت ایسے گھریلو غلام میں بدل گئی جس کا کام گھریلو محنت کرنا اور خاندان کے مالک کے لیے نجی ملکیت کا وارث پیدا کرنا تھا۔ تاہم، یہ عمل بھی سماج میں ہر جگہ یکساں طور پر نہیں ہوا۔ مادری حق کی مکمل شکست سے پہلے ایک طویل عرصے سماج میں مادری حق اور پدرسریت ساتھ ساتھ موجود رہے۔

سو یہ بات زنانہ صنف پرستی (فیمنزم) کا محض ایک تاریخی مغالطہ ہے کہ سماجی ارتقاء میں مرد اور عورت کے درمیان محنت کی تقسیم ابتداء سے ہی عورت کے صنفی استحصال پر مبنی تھی اور اس مغالطے کی وجہ یہ ہے کہ زنانہ صنف پرستی کا رجحان کسی نہ کسی طرح نجی ملکیت کے بجائے، جو کہ عورت کے استحصال کا اصل سبب ہے، “صنف” کو عورت اور مرد کے درمیان نابرابری اور مرد کے ہاتھوں عورت کے استحصال کا سبب قرار دینے پر بضد ہے اور اس ضد میں تاریخی حقائق کی توڑ مروڑ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

مزدور عورتوں کے ساتھ ہونے والا جنسی استحصال، جنسی استحصال کی ایک بدترین شکل ہے اور درمیانے یا بالائی ملکیتی طبقے کی عورت ساتھ ہونے والے جنسی استحصال سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ درمیانے یا بالائی طبقے کی عورت کے برعکس مزدور عورت معاشی مجبوری کے سبب جنسی استحصال کو برداشت کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر جسم فروشی کی صنعت ہے۔ کیا سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کے خاتمے کے بغیر مزدور طبقے کی عورت کو اس معاشی مجوری سے نجات دلائی جا سکتی ہے جو اسے جنسی استحصال سہنے پر مجبور کرتی ہے؟ دوئم، مزدور طبقے کے مردوں کا بڑا حصہ، خصوصا مزدور لڑکے اور بچے، بڑی تعداد میں جنسی استحصال کو سہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے جنسی استحصال کے خاتمے کے لیے فیمنزم کے پاس کیا پروگرام ہے؟ کیا اس معاملے سے نپٹنے کے لیے ہمیں مینزم (مردانہ صنف پرستی) کی مدد درکار ہوگی؟

صنفی سوال پر مارکسزم کی حکمتِ عملی کا اصول بالکل واضح ہے: ہم کسی ایک صنف کی دوسری صنف کے ساتھ برابری کے نہیں بلکہ تمام صنفوں کے درمیان برابری کے علمبردار ہیں اس لیے ہم ہر قسم کی صنف پرستی کے مخالف ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں ایک سوال. کیا، مثال کے طور پر، مارکسزم کی وسیع تر تشریح کرتے ہوئے ہمیں قوم پرستی سے اس لیے سمجھوتہ کرلینا چاہیے کہ ہر قوم کا ایک بڑا حصہ مزدوروں پر مشتمل ہوتا ہے؟ یا مثال کے طور پر، مارکسزم کو اس لیے ملائیت سے سمجھوتہ کر لینا چاہیے کہ ہر مذہب کے پیروکاروں میں ایک بڑی تعداد مزدوروں پر مشتمل ہوتی ہے؟ چنانچہ، کیا مارکسزم کو اس لیے فیمنزم سے سمجھوتہ کر لینا چاہیے کہ مزدوروں کی ایک بڑی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے؟

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply