صحافت کے گٹرستان کا شہنشاہ/ثاقب ملک

ایک طرح سے میر شکیل الرحمن جیسے لوگ معاشرے کے محسن ہوتے ہیں، یہ سماج کے مکروہ لوگوں کی اکثریت کو سمیٹ کر اپنے اداروں یعنی گٹروں میں ملازم رکھ لیتے ہیں. جب دل چاہتا ہے پیسے کے بل بوتے پر ان اینکرز اور کالم نگاروں کی پتلیوں کی ڈھیلا کر دیتے ہیں جب ضرورت ہو تو کھینچ دیتے ہیں. اکثریت اثبات میں دم یا گردن ہلا کر مالک کے ڈھکن کو ٹائٹ رکھتی ہے. کچھ مرد مجاہد اس گٹر میں غسل نہیں کرتے لیکن ان میں سے کچھ کسی بول کے گٹر، کسی اے آر وائی، کسی سما، کے گٹر کے سوئمنگ پول میں نہا رہے ہوتے ہیں. بہت سے اچھے لوگ بھی جنگ اور جیو میں موجود ہیں سب کو ہرگز مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا رہا. ہر اچھے، محنتی،دیانت دار پروفشنل کو میں سلام پیش کرتا ہوں.

جو ملازم نہیں ہوتے وہ وقت آنے پر اپنی حمایت سے اپنی شناخت عیاں کر دیتے ہیں. لیکن سوشل میڈیا نے ان پتلیوں اور ان کے مالکان کی شہنشاہیت پر اٹھ اٹھ کر جو تابڑ توڑ سوال کیے تو صحافت کے گٹرستان کے نمبر ون گٹر کے مالک کو تکلیف تو پہنچنی ہی تھی. دراصل یہ پورے صحافت کے گندے جوہڑ کو پہنچنے والی تکلیف ہے. آج ایک بولا ہے کل کوئی اور چیخے گا کیونکہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں.

میر شکیل الرحمن نے تو اپنی شکایات کے تناظر میں سوشل میڈیا کو گٹر کہا. میری رائے میں غلط کہا کیونکہ دراصل اس کے مفادات کو ضرب پہنچی ہے. میر صاحب نے بلاشبہ جرات سے عدالت کے سامنے اپنا نکتہ نظر رکھا. اس میں بھی دو رائے نہیں کہ جیو نمبر ون چینل اور جنگ نمبر ایک اخبار ہے. لیکن میرا سوال تو یہ ہے کہ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا. بطور مثال عمران اور طاہر القادری کی سیاسی عصبیت کو ذمہ دار سمجھتے تھے وہ 32 مقدمات میں مطلوب میر صاحب کے گرفتار نہ ہونے پر گنگ کیوں ہیں؟ کیا میر صاحب کی بھی سیاسی عصبیت ہے؟ کیا عصبیت قانون پر غالب ہونی چاہیے؟ ہر گز نہیں. ہرگز ہرگز نہیں. کسی صورت نہیں.

جو لوگ دانستہ میر صاحب کی اس بات پر خاموش ہیں دراصل وہ خاموش گٹری سوچ کی نمائندگی کر رہے ہیں. یہ سوچ غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے سے قبل یہ سوچتی ہے کہ کہیں اس سے میرے نظریات، میری پسند نا پسند کو کوئی نقصان تو نہیں ہوگا؟ کہیں میرے مخالف کو فائدہ تو نہیں ہوگا؟ میرا خیال ہے کہ مجموعی طور ہمارا رویہ ہر اہم ایشو پر یہ ثابت کرتا ہے کہ سوشل میڈیا کی اکثریت گٹر کی سوچ رکھتی ہے.

مجھے یاد ہے، محسن پاکستان ایدھی کی لاش ابھی لحد میں اتری بھی نہ تھی کہ ہم لٹھ لے کر اپنی نظریات کی تلواریں سونت کر اس سادہ انسان کے مردہ جسم کو نوچ نوچ کر کھا گئے. ابھی امجد صابری کا خون ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ شیعہ سنی کی بحث شروع ہوگئی تھی. ابھی قندیل بلوچ دفن بھی نہ ہوئی تھی کہ ہم نے لبرل ازم، شرم و حیا اور فحاشی کے کپڑے اتارنا شروع کر دئیے تھے. بیٹیاں سانجھی کہنے والے نواز شریف کی بیٹی کا لحاظ نہ کر سکے اور منبر پر سیرت النبی کے قصے سنانے والے عمران کی مبینہ بیٹی پر پل پڑے.

ہم گٹر سے بدبودار سوچ مستعار لے کر اپنی اور دوسروں کی وال پر پھیلا دیتے ہیں مگر سوشل میڈیا میں اگر گٹری سوچ ہے تو زم زمی سوچ بھی اتنی قلیل نہیں ہے. ہم سوشل میڈیا والے جب”مکالمہ” کانفرنس یا”سیک” سیمنار میں اکٹھے ہوتے ہیں تو ڈسکشن میں ایک دوسرے پر نیچ الزامات نہیں لگاتے. نظریاتی مخالفین گلے مل کر شریک ہوتے اور گلے مل کر ہی رخصت ہوتے ہیں. ہم گمنام مل کر جب عزم کرتے ہیں تو فروٹ بائیکاٹ کے “فروٹس” ہم مل کر کھاتے ہیں. ہم میں سے ایک مدد کا نعرہ بلند کرتا ہے تو ملک کے دوسرے کونے سے اجنبی لبیک کہتے ہوئے مدد کرنے کے لئے ہاتھ بلند کرتے ہیں . غرض ہمارے اندر تو جوہڑ کی صفائی جاری ہے. شہنشاہ صحافت صاحب جوہڑ تو آپ کا غلیظ ہے. بدبو کے بھبکے اب برداشت نہیں ہوتے.

Advertisements
julia rana solicitors london

سوشل میڈیا انشاءاللہ جوہڑ کی صفائی کرے گا. لیکن اس کے لئے ہمیں نظریاتی، مسلکی اور سیاسی اختلافات کو نفرت سے بچانا ہوگا. ورنہ میر شکیل الرحمن تجربہ کار آدمی ہیں وہ ہیرے اور گٹر کے کیڑے دونوں کو پہچان سکتے ہیں. ۔۔۔۔یاد رکھیں جب بھی کسی اجتماعی گروپ پر انگلی اٹھے، اگر آپ اس کا حصہ ہیں تو مل کر سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں. یہی انفرادی طور پر بھی ہمارا رویہ ہونا چاہیے.

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply