ادب میں بھی متوازی ڈسکورس کی ضرورت ہے/سید کاشف رضا

پولستانی ادیب چیسلاو میلوش (Czeslaw Milosz)کو سن پچاس کی دہائی کے اوائل میں اسی آمریت کا سامنا تھا جس میں مکالمہ اور ڈسکورس صرف کچھ مخصوص حدود کے اندر ہی ہو سکتا تھا، جس میں رنگ ماسٹر نے منطق اور مکالمے کے اصول اور ضوابط پہلے ہی سے وضع کر رکھے تھے اور انسان سدھائے ہوئے بندروں کی طرح ان ضوابط سے انحراف سے پہلے پہلے اپنے آپ پر خود ہی سنسر نافذ کر دیتے تھے۔ چیسلاو میلوش نے ان سفاک ایام میں ’اسیر ذہن ‘ (The Captive Mind) کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ کتاب میں پولستانی ناول نگار وتکیے وچ کے ایک ناول کا تذکرہ ہے جس میں وتکیے وچ نے ’مرتی بنگ‘ نامی گولیوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ گولیاں کھا کر ہر انسان میں ایک نئے ایمان کی حرارت دوڑ جاتی ہے ۔ اسے بس ہری ہری سوجھتی ہے اور وہ ایک خوش و خرم زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ میلوش ایسی گولیوں کو ایک زندہ معاشرے کے لیے زہر قرار دیتا ہے جنھیں کھا کر سب لوگ ایک ہی طرح سے سوچنے لگیں۔ کیا ہمارے بچوں کی مطالعہ پاکستان اور معاشرتی علوم کی کتابوں میں مرتی بنگ کی یہی گولیاں ملفوف نہیں؟ ایسی گولیاں کھا کر ہمارے شاعر، ادیب کیسا ادب تخلیق کر سکتے ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ آج کے پولینڈ کے بجائے اس کتاب کی زیادہ ضرورت آج کے پاکستان کو ہے۔ مجھے فی الحال یہ بھی اصرار نہیں کہ ہماری ریاست کی سمت سے متعلق کوئی ایک نقطہِ نظر بہتر ہے یا دوسرا۔ فی الحال تو میری آرزو بس اتنی سی ہے کہ معاشرے میں فکری ڈسکورس کی حدود وسیع سے وسیع تر ہوں تاکہ ہمارے شاعر اور ادیب زیادہ فراخی سے اظہار کر سکیں ۔

ہمارے ادبی ڈسکورس میں مذہب کے علاوہ اگر کسی فکری سلسلے کی بات ہوئی تو وہ مارکسیت کا فکری سلسلہ تھا۔ مارکسیت نے ریاست کے ذریعے انصاف و مساوات رائج کرنے کا خواب دیکھا۔ انسانی ارتقاء کے مراحل کے دوران ریاست جیسے ادارے کا قیام ایک بہت اہم مرحلہ تھا۔ جن دنوں جدید ریاست کے خال و خد وضع کرنے کی بات ہو رہی تھی ان دنوں جیک ہابز کا یہ قول بہت مشہور ہوا تھا کہ ’انسان بنیادی طور پر غاصب ہے‘، اس کے بعد انسانی فکر اس بات کی کوشش میں لگی رہی کہ کم زور انسانوں کو طاقت ور انسانوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ریاست کو سہارا بنایا جائے۔ مگر یہ ریاست ایک روز نازی جرمنی کے ڈراؤنے خواب کی صورت نمودار ہوئی۔ ادھر مارکسی ریاست کا اینمل فارم اسٹالن کے سوویت یونین کی صورت سامنے آیا۔ آج جیک ہابز کے مقابلے میں ایک اور قول کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ قول کارل پوپر کا ہے جو کہتا ہے کہ ’ریاست ایک لازمی برائی ہے۔‘ معاصر مفکر چومسکی تو اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہتا ہے کہ ’دنیا کی ہر ریاست بدمعاش ریاست ہوتی ہے۔‘ آج دنیا بھر کی جمہوری ریاستوں میں یہی غور و فکر جاری ہے کہ ریاست کی خرابیوں کو کیسے کم سے کم کیا جائے۔ ریاست کی جگہ ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کو مضبوط بنانے کی بات ہو رہی ہے، اور یہ ادارے ایک دوسرے پر نظر رکھ کر ریاست کے شہریوں کے لیے ایک متوازن ماحول پیدا کرتے ہیں۔ کیونکہ بہ قول کارل پوپر ’جمہوریت دراصل خود کچھ نہیں کر سکتی، صرف جمہوریت میں رہنے والے شہری کچھ کر سکتے ہیں۔‘ ادب بھی ایک ادارہ ہے ، مگر یہ اپنے سماج کے لیے کوئی نسخہ تجویز نہیں کرتا بلکہ اپنے سماج کی بھرپور نمائندگی کر کے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ معاشرے اور ریاست کے دوسرے ادارے اپنے ادب کے آئینے میں خود اپنا چہرا دیکھ سکتے ہیں اور چاہیں تو اس کی نوک پلک درست کر سکتے ہیں۔

ایک متوازی ڈسکورس کی ضرورت ہمیں صرف نظریہ اور فکر کے میدان ہی میں نہیں بلکہ ادب کے میدان میں بھی ہے۔ ہمیں ادب میں بھی مسلسل سوال اٹھانے چاہئیں۔ ادب کے شعبے میں جن امور کو طے شدہ سمجھا جاتا ہے ان کی طے شدگی بھی ایک آمریت، ایک جبر ہے۔ ادب کے ہر قاری کو اپنے فیصلے نئے سرے سے کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ ایک زندہ معاشرہ وہی ہوتا ہے جو قلیل تعداد رکھنے والی لسانی و ثقافتی اکائیوں کے سر پر بھی ہاتھ رکھتا ہے اور نئے نویلے خیالات کو بھی فراخ دلی سے اپنے پر پھیلانے کا موقع دیتا ہے۔ اگر لسانی و ثقافتی اقلیتوں کو بھی اسی خدا نے پیدا کیا ہے جس پر اہل جبہ و دستار یقین رکھتے ہیں تو پھر ان مردانِ خدا کو بھی موقع دیجیے کہ یہ اپنے نقوشِ فکر و فن کو ثباتِ دوام دینے کی کوشش کر دیکھیں۔ مگر آج ہمارے ملک میں کبھی ایک تو کبھی دوسری قسم کے مردانِ خدا کے لیے نقش آرائی تو کیا، سانس تک لینے کی اجازت ممنوع قرار دی جا رہی ہے۔ دوسری جانب بیمار اُباسی جیسے صحافتی مفتی ہیں جو فقط ’گالیوں‘ پر اتنی دہائیاں دیتے ہیں کہ کہنا پڑتا ہے: ’گالی سے ڈر گیا جو نہ بابِ نبرد تھا۔

ایسی بات نہیں ہے کہ ہمارے ہاں مقتدر اور غالب ڈسکورس کے متوازی کوئی ڈسکورس موجود ہی نہیں۔ متوازی ڈسکورس موجود ضرور ہے لیکن اس کی ایک بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ یہ قیمت سماجی نفرت سے لے کر پرتشدد موت تک کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ چند سال پہلے ڈاکٹر مبارک حیدر کی کتاب ’تہذیبی نرگسیت‘ سامنے آئی جس نے مقتدر ڈسکورس کے متوازی سوالات کا ایک لشکر کھڑا کر دیا۔ علی عباس جلال پوری اور سید سبط حسن کے بعد اب مبارک حیدر کا دم غنیمت ہے۔ کیا یہ خیال کم خوش کن ہے کہ دنیا کے ہر یقین کی کونپل کسی نہ کسی انکار ہی سے پھوٹی تھی!یہ شاید نائن الیون سے پہلے کی بات ہے کہ ایک نوجوان نے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ میں نظم پڑھی تھی جس میں علامہ اقبال کی فکر اور ان کے شعری کلیشے کے حوالے سے سوال اٹھائے گئے تھے۔ ان کی مشہور نظم ’’مسجدِ قرطبہ ‘‘ ہی کی بحر میں اس کی ادھ کچری لائنیں کچھ یوں تھیں کہ” روتا ہی تو رہ گیا ، قرطبہ و صقلیہ۔ اور یہاں چھن گئے لکھنؤ اور آگرہ”۔ وہاں علامہ اقبال کے مدّاح ایک بزرگ نے اس کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو بھی گم راہی کی جانب گام زن بتایا تھا۔ وہ نوجوان یہ نہیں بتا سکا تھا کہ اپنے ہم عمروں میں سب سے زیادہ اسی کو اقبال سے دلچسپی ہے اور اقبال اس کے لیے ایک مستقل مسئلہ ہے۔ اگر اقبال کو قرطبہ و صقلیہ کے چھن جانے کا غم ہو سکتا ہے تو اُسے لکھنو اور آگرہ کے گنوا دینے کا درد کیوں نہ ہو؟ وہ تو آج بھی مانتا ہے کہ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی۔لیکن یہ قومِ رسولِ ہاشمی دوسروں کے ساتھ مل جل کر گزارا کیوں نہیں کر سکتی؟ وہ تو صرف وہ سوال اٹھانا چاہتا تھا جن کے جواب اسے نہیں مل پا رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر پڑوس کی دکان سے ملنے والی گیٹ تھرو گائیڈ سے اس کی دھرتی کے مسائل حل ہو سکتے تو سب سے زیادہ خوشی اسے ہی ہوتی۔ لیکن وہ تو مذہب اور فقہ کے بت ٹوٹنے سے بکھر جانے والی کرچیاں بھی چنتا رہا تھا جو کہیں زیادہ زخم دہ تھیں، سو وہ کسی چلی ہوئی فلم کا یہ ڈائیلاگ کیوں نہ دہراتا کہ ایک گناہ اور سہی۔ وہ یہ کیوں نہ سوچتا کہ نفرت کی بنیاد پر تو شاعری بھی کھڑی نہیں کی جا سکتی، ایک ریاست کیسے کھڑی کی جا سکتی ہے؟ خوف کی دو ہزار پتا نہیں کتنے کلو میٹر لمبی سڑک کے دائیں بائیں پاکستان کے شہری فقط اپنے قتل کو موخر کر دیے جانے پر کب تک شکر گزار رہ سکتے ہیں؟ تاریخ سے اجتماعی مباشرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایک ریاست اگر ہر جگہ ہندو تلاش کرتی ہوئی اب آئینوں پر بھی چاند ماری کرنے لگی ہے تو حیرت کیسی؟۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply