علمی اور ادبی رشتوں کا آغاز بڑا منفرد ہوتا ہے اور یہ رشتے خلوص، محبت، احساس اور وقت سے پروان چڑھتے ہیں۔گزشتہ سال معروف صحافی انجم ہیرالڈ گل کی زندگی پر آرٹیکل لکھنے کے لیے تحقیق کر رہا تھا کہ اچانک ایک نام سامنے آیا جن کی فیس بک پروفائل دیکھی اور ان کے انٹرویو کا ایک کلپ دیکھا، جسے سن کر اور ان کے ادبی سفر کی کہانی جان کر یوں محسوس ہوا جیسے یہ تو میری کہانی ہے۔ اس کے بعد ان سے چند ماہ بعد رابطہ قائم ہوا اور یوں اس تعلق کا آغاز ہوا۔ یہ شخصیت متحرم ولیم پرویز ہیں۔جو کہ معروف ڈرامہ نویس، ڈائریکٹر، اداکار اور کوارڈی نیٹر، پتن لوک ناٹک ہیں، لیکن اس سے بڑھ کر وہ ایک علم دوست اور انسانیت کے پیامبر ہیں۔اُن سے اسلام آباد میں فروری 2023 میں پہلی مگر مختصر ملاقات ہوئی، اپنائیت اور محبت کا احساس ہوا اور مزید گفتگو اور ملاقات کی تشنگی بر قرار رہی تھی۔جس پر اُنہوں نے کہا
”ایاز مورس نے محنت اور لگن سے صحافت اور علمی حلقے میں اپنا مقام بنایا ہے جو نہ صرف قابل فخر بلکہ دوسرے نوجوانوں کیلئے قابل تقلید بھی ہے۔۔۔ ایسا مقام صرف ایک امر کا تقاضہ کرتا ہے،کام،کام اور صرف کام۔۔۔ جس پر ایاز کاربند ہے۔۔۔ میری ایسے نوجوانوں کیلئے ہمیشہ نیک خواہشات ہیں۔۔۔!“
اس کے بعد ان سے ایک تعلق قائم ہو گیا۔ستمبر2023میں، میں کراچی سے اسلام آباد ٹریننگ کے سلسلے میں گیا، جہاں وہ مجھے ہوٹل میں ملنے آئے اور میں نے اپنے یوٹیوب چینل کے لیے اُن کی زندگی، ادبی سفر اور تخلیقی خدمات پر تفصیلی انٹرویو کیا۔جسے اب تحریری صورت میں قارئین تک پہنچایا جا رہا ہے۔
ولیم جان پرویز 11 مارچ1 196 کو عنایت مسیح کے خاندان میں پیدا ہوئے۔وہ دو بھائی اور دو بہنوں ہیں اور اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ خُدا نے اُنہوں نے ایک بیٹا اور بیٹی عطا کئے ہیں۔بدقسمتی سے اُن بیٹی دو سال قبل کینسرکی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ انہوں نے 1989 میں پنجاب بورڈ، راولپنڈی سے میٹرک اور1992 کو فیڈرل بورڈ، اسلام آباد سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ اُنہوں نے تھیٹر پر متحرک، کامیاب، اور معلوماتی وتربیتی ورکشاپس منعقدکیں،جہاں اُنہوں نے مختلف تنظیموں کے ساتھ تعاون کرنے، متنوع گروہوں اور افراد کو ہدایت دینے کے ساتھ ساتھ فعال اور واضح طور پر، زبانی اور تحریری طور پر کام کیا ہے۔وہ کمیونٹی موبلائزیشن کے بہترین محرک رہے ہیں۔جنہوں نے پیشہ ورانہ زندگی میں گرافک اورکمرشل ڈیزائننگ کے ساتھ ساتھ پلے رائٹنگ، تھیٹر اور ٹی وی کے لئے بھی کام کیا ہے۔وہ تھیٹر کی دُنیا اور ثقافتی سرگرمیوں کا انتظام کرنے اور رابطہ قائم کرنے کے لئے بھی سرگرم رہے ہیں۔ ولیم پرویز کے پاس فیلڈ میں وسیع پیشہ ورانہ تجربہ بھی ہے۔اور اُن کاتخلیقی دائرہ کاربھی بہت عمدہ ہے۔اُنہوں نے سیٹ کام ”حسینہ معین کی کہانی“ ا ے پلس چینل کی اسکرپٹ رائٹنگ کی ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے ڈرامے تین تلوار، ایکسپریس چینل،جلیبی، اے آروائی چینل،29 اقساط پر مشتمل ٹی وی سیریل، سترنگی، اے پلس چینل پر نشر ہو چکے ہیں۔ وہ 25 سے زیادہ اسٹیج ڈراموں اور 35 اسٹریٹ تھیٹرز کی پلے رائٹنگ کا اعزاز رکھتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں 9 سے زیادہ تھیٹر فیسٹیولز کا انعقاد اور انتظام کر چکے ہیں۔اُنہوں نے اسٹریٹ تھیٹر کی کئی مربوط مہم جوئی میں اہم کردار ادا کیاجس میں 2002 کے عام انتخابات،2005میں LGکے انتخابات اور2008 میں ایڈز سے آگاہی قابل ذکر ہے۔امریکہ اورعراق کی جنگ کے خلاف امن کے حق میں اسٹریٹ تھیٹر کی مہم چلائی اور بہت سے دیگر سماجی اور انسانی حقوق کے مسائل کو اُجاگر کیا۔وہ پورے پاکستان میں 3000 سے زیادہ اسٹریٹ تھیٹر پرفارمنس کا انعقاد کرچکے ہیں۔اور بھارت، نیپال اور کولمبو سمیت بیرون ملک تھیٹرز کے ذریعے پاکستان کی نمائندگی بھی کرچکے ہیں۔اُس کے علاوہ وہ بطورسماجی رضا کار
2015میں پروگرام آفیسر (پاکستان مذہبی آزادی اقدام)،
2013سے2014 تک شفافیت، احتساب اور انتخابی عمل کی حمایت کے لیے اسلام آباد میں ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر (STEP)
2009سے2013 تک شفافیت، احتساب اور انتخابی عمل کی حمایت کے لیے اسلام آباد میں حلقہ بندی کا رابطہ کار (STEAP)
2007میں بلوچستان میں پراجیکٹ سپروائزر ”یوتھ ووٹرز کی تعلیم“
2005میں الیکشن سروے کی نگرانی پر مامور رہے۔اورینٹ میک کین ایڈورٹائزنگ ایجنسی، ایڈج، ڈانڈ ایڈورٹائزنگ ایجنسی سمیت پاکستان کی معروف ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں میں 17 سال سے زائد عرصے تک بطورگرافک ڈیزائنر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔وہ نومبر 2017 سے مئی 2018تک انتخابی اور قانون سازی کے عمل کو مضبوط بنانے(SELP)کے پروگرام مینیجر رہے ہیں۔
اُنہوں نے اپنے کیرئیر میں کئی کامیابیاں حاصل کیں جن میں چند قابل ذکر ہیں۔
وہ 2008میں بہترین ڈرامہ نگار، آل پنجاب تھیٹر فیسٹیول رہے ہیں۔
2006میں ورلڈ سوشل فورم (WSF) کراچی کے لیے اعزازی تھیم سانگ کے شاعر تھے۔
وہ تھیٹر کی پیشہ ورانہ تربیت کے لئے2007 میں نیو دہلی، انڈیاگئے،2007 میں الیکشن سروے ٹریننگ اسلام آبادسے حاصل کی اورڈیزاسٹر ریسپانس اور ریکوری کی ٹریننگ کے لئے 2010میں کوالالمپور، ملائیشیا گئے۔
ولیم پرویزکو کتاب پڑھنا، تھیٹر اور فلمیں دیکھنا پسند ہیں۔وہ پورٹریٹ اور پینٹنگز بنانے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ فارغ وقت باغبانی میں صرف کرتے ہیں۔اپنے تخلیقی سفرکے بارے میں بتاتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ
”میرے تخلیقی سفر کی ابتداء ایک پینٹرکی حیثیت سے 1975 میں سینما بورڈز سے ہوئی اور بعد ازاں گرافک ڈیزائنر کی حیثیت سے1983 میں،ایڈورٹائزنگ ایجنسی کوجوائن کیا۔ سینما کی دُنیا سے وابستہ ہونے کی وجہ سے فلمی تکنیک اور صنعت سے خاصی معلومات حاصل ہوتی رہیں جس سے فلمی تکنیک اور معیار کی سوجھ بڑھی۔1985میں، جب میں عملی طور پر ایڈورٹائزنگ کی دُنیا میں قدم رکھا، تو این سی اے(نیشنل کالج آف آرٹس) سے فارغ التحصیل دوستوں کی کمپنی ملی اور آرٹ فلموں کا حوالہ ملا، پھر جلد ہی تمام دستیاب آرٹ فلمیں دیکھ لیں۔ جن میں شیام بینگال، ساگر سرحدی، سعید اختر مرزا، کیتن مہتا، منرال سین،جے پی دتہ اور سب سے بڑھ کر ستیہ جیت رے کی فلمیں، جو اس وقت مشکل سے میسر ہوئیں، شامل تھیں۔
یہ 1986 کی بات ہے، جب میں نے تھیٹرر لکھنا شروع کر دیا تھا۔ اسی دوران میں ایک ڈرامہ ”سائین مناں“ کے نام سے لکھ رہا تھا، جس کا بد قسمتی سے سکرپٹ گم ہوگیا، جو ایک معذور بچے کے پیر بننے تک کے سفر سے پر مبنی تھا۔ اسے میں نے ایک این سی اے کے دوست کو سنانا شروع کیا، وہ اس سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے مجھے بہت اعلیٰ لکھاریوں کے ڈرامے اورکچھ دانشوروں کی کتابیں پڑھنے کو دیں۔ ان میں سید نجم الحسن کا معروف ڈرامہ ”تخت لاہور“ بھی شامل تھا۔ اس سے میری کتاب بینی کا شوق پروان چڑھا، اس کے بعد مجھے کسی اور کام میں دلچسپی نہ رہی، سوائے اولڈ بکس میں وقت گزارنے اور کتابیں خریدنے کے میں کوئی دوسرا کام نہیں کرتا تھا۔دو تین سالوں میں، میں نے اُردو کے بیشتر نامور مصنفین، کرشن چندر،سعادت حسن منٹو، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، غلام عباس، علی عباس جلالپوری، سید سبط حسن، ممتاز مفتی، راجندر سنگھ بیدی، ہاجرہ منصور، خدیجہ مسرور اور دیگر معورف مصنفین وغیر ہ کی تحریروں کا مطالعہ کر لیا تھا۔ اس مطالعہ نے مجھے ڈرامہ لکھنے میں بڑی مدد کی اور ان میں ادبی تاثر پیدا کیا۔
میرا ابتدائی ڈرامے چونکہ مذہبی نوعیت کے تھے، لیکن میں نے یہ طے کر لیاتھا کہ انکی کہانیاں اور کردار خالصتا ً سماج سے ہونگے۔ اس فیصلے نے میرے ڈراموں میں مضبوط کہانی اور کرداروں کی بنیاد رکھ دی جو ایک طرح سے میری پہچان بن گئی، اور جب میں نے عام سماجی موضوعات کو ڈرامے کی شکل میں ڈھالا تو اس نے میرے ڈراموں کو بہت پختگی بخشی۔ 2002تک، میں نے کچھ ایسے ڈرامے لکھے تھے جنہوں نے مجھے اچھے ڈرامہ رائیٹر ز کی صف میں کھڑا کر دیا تھا، جن میں سرفہرست، ”سانجھیاں لاشاں“ تھا، جو یوم آزادی کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔ لیکن میری ڈراموں میں فکری پختگی تب آئی جب میں نے 2003میں ایک سماجی ادارے ”پتن ترقیاتی تنظیم“ کو جوائن کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں سے بحیثیت لکھاری ایک نئے دُور کا آغاز ہوا۔ مجھے، انسانی معاملات،انکی نفسیاتی گرہوں اور بنیادی اسلوب کو سمجھنے کا ماحول ملا۔ میرے80 فیصد ڈرامے انہی بیس سالوں میں لکھے گئے، جن میں سرفہرست ”اکھیاں والیو!“ ہے، جو دُنیا کے بیشتر ممالک میں نہ صرف پرفارم ہو چکا ہے بلکہ میری پہچان بن چکا ہے، اس کے علاوہ”جلاد، میرا رانجھن ہن کوئی ہور، بھانبھڑ، لیِڑے چور، چھومنتر، ایہہ جھوٹ اے، سوچاں وچ فقیر، گھنجلاں، دو دونی چار، بوجھ، عشق دائم، رئیس خانہ، کہانیاں، برزخ، کہویہ ٹھیک نہیں اوردیوتا“ اسی دوران لکھے گئے تھے۔اس کے علاوہ میں نے چالیس سے زائدا سٹریٹ تھیٹر ز لکھے ہیں،جو مجموعی طور پر تین ہزار سے زائد بار پرفارم کئے جا چکے ہیں۔بنیادی طور پر میں نثر نگار ہوں اور شاعر نہیں، لیکن میں اپنے ڈراموں میں شاعری کا استعمال بھی کرتا ہوں۔ اس لئے2006میں جب مجھے کراچی میں منعقدہونے والے ورلڈ سوشل فورم (WSF)میں شریک ہونے کا موقع ملا،تو مجھے اسلام آباد کے لئے، کلچر کوارڈی نیٹر مقرر کیا گیا۔ میں نے زندگی کی پہلی نظم، تھیم سانگ کے طور پر ورلڈ سوشل فورم کے لئے لکھی، جسے نیرہ نور کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا، جو اتنی مقبول ہوئی کہ کئی سال تک ریڈیو کے بیشتر پروگراموں میں بطور تھیم سانگ کے طور پر استعمال کی جاتی رہی تھی۔ورلڈ سوشل فورم میں، میں نے ”یہ جھوٹ ہے“ ڈرامہ پیش کیا جو، آئی ایم ایف کی امداد اور اس کی بندر بانٹ پر مبنی کھیل تھا، بعد ازاں یہی ڈرامہ، اسی سال ہمیں نیو دہلی، انڈیا میں پرفارم کرنے کا موقعہ ملا اور ٹھیک اگلے سال میں نے انڈیا میں ایک ماہ کی تھیٹر کی ٹریننگ حاصل کی۔ میرا یقین, بلکہ ایمان ہے کہ لکھاری ہونا ایک سماجی ذمہ داری ہے اور یہ ہنر قدرت کسی بھی انسان کو محض شہرت کے لئے نہیں، بلکہ سماج میں کسی سنجیدہ کنٹر بیوشن کے لئے عطا کرتی ہے۔ اس لئے میں نے اپنے ہر ڈرامے میں مقصدیت اور کسی مضبوط پیغام کو بنیاد بنایا ہے۔ خواتین کے حقوق میرا اور میری تنظیم کا بنیادی مقصد رہا ہے، اس لئے میرے بیشتر ڈراموں کا تھیم اسی کے گرد گھومتا ہے۔ اس کے علاوہ، سماجی وسیاسی پس منظر کے حامل ڈرامے میرا دوسرا بڑا تھیم ہے۔ اکھیاں والیو!،لیڑے چور، ایہہ جھوٹ اے،اسی موضوع پر مبنی ڈرامے ہیں۔ میر ی بلکہ مجھے سے کہیں زیادہ میرے دوستوں کی شدید خواہش تھی کہ میں ٹی و ی کے لئے بھی لکھوں۔ ایک مرتبہ مجھے 29اقسا ط پر مشتمل ٹی وی سیریل ”سترنگی“ لکھنے کا موقع ملا اور پھر مختلف بڑے چینلز کے لئے ایک 170 کے قریب ڈرامے لکھے۔ انسان ایک مقام پر پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اس نے بہت کچھ کیا ہے، لیکن جب پلٹ کر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تو میں نے کچھ بھی نہیں لکھااور بہت کچھ کہنے کو اورلکھنے کو باقی ہے۔ شاید یہی وہ پیاس ہے جو مجھے اس صحرا میں زندہ رہنے پر مجبور کرتی ہے۔“
میرے سوال ”کیا آج کی نسل نے ادب کا مطالعہ کرنا چھوڑ دیا ہے؟“ کے جواب میں ولیم پرویز نے کہا؛ نہیں بلکہ ادب نے اپنی جہتیں بدلیں ہیں، لوگوں نے پڑھنے کی بجائے دیکھنا شروع کردیا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں