• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اقدارکےمارے،ہارے لوگ اور سپائڈر مین قاری ۔۔۔ مظہر حسین بودلہ

اقدارکےمارے،ہارے لوگ اور سپائڈر مین قاری ۔۔۔ مظہر حسین بودلہ

بیرون ملک مقیم چند لوگوں کی محفل تھی جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل پر بات ہو رہی تھی کہ اک صاحب جو کہ عرصہ 25 سال سے مغربی و وسطی ایشائی دنیا کے مقیم تھے کی طرف سے اک مسئلہ سوال کی صورت میں پیش کیا گیا۔
“ہم اپنے بچوں کی تربیت کیسے کریں کہ وہ ہماری اقدار سے باغی نہ ہو سکیں۔۔۔؟
سوال بہت غیر متوقع تھا، سوال کرنے والے صاحب کے منہ سے تو بالکل توقع کا حامل نہ تھا کہ صاحب پریشاں زندگی کی 20 سے زیادہ بہاریں مغربی تہذیب میں گزار چکے تھے اور اب دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور ماڈرن ریاست میں مقیم تھے، ترقی یافتہ ترین ممالک میں رہنے والے بھی ایسا سوچتے ہیں ، مجھے جھٹکا لگا۔ استفسار کرنے پر معلوم پڑا کہ وہ اپنے بچوں کو مغربی تہذیب سے بچانے کے لئے بہت فکر مند ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اغیار کی تہذیب و تمدن انکی نسل پر اثر انداز نہ ہو، ان کی نسل اپنی مرضی کے فیصلے کرنے پر اتنی با اختیار نہ ہو جائے کہ مذہب، ذات اور برادری سے مبرا ہوتے ہوئے زندگی کے فیصلے کرنے لگے۔
ترقی پذیر ممالک کے باشندگان جو بھلے اپنے ہی ملک میں کسی بڑے شہر میں روزگار کی خاطر رہائش پذیر ہوں یا پھر بیرون ملک مقیم ہوں ان کی سوچ ، فکر اور دماغ کی سوئی اپنے گھر میں اٹکی رہتی ہے۔ سوال تو بہت سادہ سا تھا لیکن نہ جانے کیوں اس سوال کے پیچھے مجھے صرف سوال نہیں بلکہ خدشات اور شکوک کا انبار نظر آرہا تھا۔ وہ سوال جیسے اک انسان کی طرف سے نہیں بلکہ اک جنس کی طرف سے پوچھا گیا ہو، جنس کہ جسے ہم “مرد” کہتے ہیں، وہ مرد کہ جو اپنی زندگی کا ہر دن اور رات بھلے کسی بھی مہ جبین کے ساتھ بسر کرے، جس کی محبتوں، اور سلوٹ زدہ بستروں کی سلوٹوں کی تعداد بھلے سینکڑوں سے تجاوز کر چکی ہو لیکن ان کے ساتھ منسوب رشتوں کی حامل خواتین ایک دم قابو میں ہونی چاہیں۔ وہ اتنی تہذیب یافتہ ہونی چاہییں کہ اپنی مان ، مریادا، شرم و حیاء اور حدود بہت اچھے سے جانتی ہوں۔ وہ خواتین جو اگر بیوی ہیں تو انکے سر کا بال کوئی اور دیکھے گوارا نہ کریں، کسی سے ہنس کے بات کرنے کو گناہ سمجھیں اور اپنی پوری باڈی میں عزت سکینرز لگوا کر ہر ایک شام اس کی رپورٹ اپنے مالک مرد کو بھیجیں۔
وہ خواتین اگر بیٹیاں ہوں تو انکو علم ہونا چاہیے کہ ان کے لئے جو مرد انکا باپ پسند کرے گا اور جب پسند کرے گا وہ تب ہی اپنی جبلتی ضروریات پوری کر سکتی ہیں، کسی بھی مرد کے ساتھ سونا جو کہ انتہائی ذاتی پسند ہوتی ہے وہ پسند بھی اسے اپنے باپ کے مطابق کرنا ہوگی، جیسے باپ فیصلہ کرے گا کہ اسکی بیٹی کے ساتھ کونسا مرد ٹھیک ہمبستری کر سکتا ہے۔ ان کو اپنی مرضی اور پسند کا مرد اور اس سے ہونے والے قربت کے لمحات کا سوچنے سے بھی پہلے قتل کرنا ہوگا کیونکہ وہ اک عزت دار باپ کی اولاد ہیں۔ وہ خواتین اگر بہنیں ہیں تو ان کو علم ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا ہو، فون کالز و ایس ایم ایس ہوں، محلے داری ہو، سکول ، کالج یا یونیورسٹی ہو ، ہر ایک میڈیم اور جگہ پر انکی عزت جو کہ ان کے جسموں میں فٹ ہے در اصل ان کے غیور اور صاحب کردار بھائیوں کی شان ہے۔ ان کے جسم پر لگی اک نامحرم انگلی بھی ان کے باکردار بھائیوں کی زندگی کی بساط الٹ سکتی ہے۔ خاندان کی ناموس کی دھجیاں اڑا سکتی ہے۔
مجھے اس سوال میں کوئی اور نہیں بلکہ اپنی ذات نظر آنے لگی۔ اک مرد کی ذات کہ جو اگر ماں قبول صورت ہو تو اس پر بھی شک کر سکتا ہے، بہنوں پر نگرانی کو اپنا فرض سمجھا ہے ، ہاں البتہ اپنی بہن کی سہیلی کا موبائل نمبر بھی اسے اپنی ہی بہن سے چاہیے اور بہن کی سہیلی سے ملاقات کےوقت رکھوالی بھی وہی بہن ہی کرے۔وہ مرد کہ جس کی بیٹی کی پسند نا پسند کوئی معنی نہیں رکھتی جبکہ بیوی غلطی سے بھی مسکرا رہی ہو تو پوچھنے کا حق رکھتاہے کہ وہ کس کو سوچ کر مسکرا رہی ہے۔ بیوی اگر اداس ہو تو پوچھنا فرض ہوجاتا ہے کہ کس کی جدائی میں آنسو برس رہے ہیں۔ بیوی کے موبائل کی ٹون ان گنت عاشقوں کے ناموں کو یاد کرنے پر مجبور کرتی ہے اور اگر شوہر بیرون ملک ہو تو بار بار کال کر کے دیکھنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ نمبر کہیں بزی تو نہیں ہے، مبادا کسی سابقہ یا موجودہ تعلق کو نبھایا جا رہا ہو، نمبر بند ہونے کی صورت میں ہو سکتا ہے وہ حقوق کسی پر نچھاور کئے جا رہے ہوں جو کہ صرف اور صرف اسکا حق ہیں۔ گھر سے دور رہتے ہوئے ہر بچے کی پیدائش پر اس کی رنگ اور نقوش کو بار بار خود سے ملایا جاتا ہے تاکہ شک کیا جا سکے یا قلبی سکون ملے کہ یہ میرا ہی بچہ ہے۔
سوال ہی عجیب تھا
بیرون ملک اگر فیملی کو ساتھ رکھا جائے تو اس بات کی گارنٹی مانگی جا رہی تھی کہ ماڈرن معاشرے میں پروان چڑھتے ہوئے بیٹی غیر مسلم یا نا پسندیدہ شخص کے ساتھ کھانے، جانے یا سونے کا سوچ بھی نہ سکے ، بیوی رنگین ماحول دیکھ کر، اک سے اک خوبصورت،جوان اور ہینڈسم مرد دیکھ کر کہیں غلامی کی رنجیریں توڑنے کی خواہش نہ کر بیٹھے۔کیونکہ ہمارے ہاں بھائی، باپ یابیٹا اگر کسی لڑکے کے ساتھ برہنہ ، گناہ کرنا پکڑا جائے تو کہا جاتا ہے جوان جہان ہے، اس عمر میں لڑکے غلطیاں نہیں کریں گے تو کون کرے گا، شوہرپکڑا جائے تو زیادہ سے زیادہ اسے عیاش اور ظلم کرنے والا کہہ دیا جائے گا لیکن بیٹی پکڑی جائے، بہن پکڑی جائے تو پورے خاندان کی ناک کٹتی ہے، عزت خراب ہوجاتی ہے اور ایسی نا خلف اولاد یا بہن کو مر جانا چاہیے جبکہ بیوی کے پکڑے جانے سے قتل یا طلاق جائز اور حق ہوجاتی ہے اس لئے بیرون ملک رہنے پر بھی گھر کی خواتین کو ہماری جڑوں، ہماری دھرتی، ہماری مٹی اور ہمارے مذہب کی اقدار، رسم و رواج اور گناہ و ثواب کی پابند ہونا پڑے گا اور انہی کو اچھی اقدار کی حامل فیملی کہا جا سکتا ہے۔
اس سوال میں مجھے اپنی پہلی شادی ، پہلی بیوی یاد آنے لگتی، وہ بیوی کہ جو میری محبت تھی اور ہمیشہ رہے گی کہ جس کا اپنے باس کے ساتھ افئیر تھا، ہم ساتھ رہتے تھے لیکن میں اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ کوئی انتہائی قدم اٹھا سکوں اس لئے ہر ایک روز جب جب وہ کلینک ہوتی میری جان سولی پر لٹکی رہتی، وہ بھلے وہاں کام کر رہی ہوگی مگر میں دل میں ہزاروں رومانوی و جنسی اعمال ہوتے دیکھتا اور میرا خون کھولنے لگتا، میں نے 100 ازدواجی راتوں میں 95 راتیں دونوں کا قتل کر دینے کی سوچ میں گزاریں، صرف ان کا ہی قتل کیوں؟ اس کے باس کی بیٹیاں، نواسیاں، بیوی اور بہو تک کا ریپ کرنے کے بعد قتل کرنے کے کئی بار خیالی پلاو پکائے کیونکہ میرے لئے یہ سوال اک خنجر تھا کہ کہاں ہیں، اقدار؟ کہاں ہے شرم و حیاء؟ کہاں ہے مذہب کہ شوہر کے ہوتے ہوئے کسی اور سے محبت کی جائے؟ کسی اور کو پسند کیا جائے اور کہا جائے کہ ہماری محبت پاک ہے، تم نہیں سمجھو گے۔
اس سوال میں مجھے مستقبل نظر آنے لگا ۔آج زمانہ اتناتیز نہیں ہوا کہ بیٹی اپنے بوائے فرینڈ کو گھر میں لاکر کہے کہ یہ میرا دوست ہے، ہم بہت تھک چکے ہیں، سونے جا رہے ہیں آپ سے صبح بات ہوگی۔ لیکن آج سے بیس تیس سال کے بعد ایسا ممکن ہو چکا ہوگا تب میرا رد عمل کیا ہوگا؟ کیا ایسا ہونا بھی چاہیے؟ کیا مجھے ایسا ہونے سے روکنا نہیں چاہیے؟ اس سے میری عزت، غیرت اور اقدار کا جنازہ نہیں نکلے گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! دماغ نے کئی سوال داغے لیکن دل نے کہا نہیں۔۔۔۔۔۔۔! عزت، غیرت اور اقدار کا جنازہ نہیں نکلے گا ، ہاں جس کا نکلے گا اسے مردانگی کہتے ہیں۔ اک مرد کی ایگو کسی بھی عزت، غیرت، قدر اور مذہب سے بڑی ہوتی ہے۔ ۔۔۔۔۔ اولاد ہو ، بہن ہو یا بیوی آپ کسی سے زبردستی نہیں کر سکتے، اسلئے میں نے بیوی کو آزاد کر دیا کہ کسی ایک کی محبت کی تکمیل بہت ضروری ہوتی ہے اور بیٹی جس بھی زمانے میں ہوگی، جیسا بھی ماحول ہوگا، دوست، شوہر، تعلیم اوراقدار چننے کا حق صرف بیٹی کا ہی ہونا چاہیے۔
بطور مجموعی ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچے جس گاوں، شہر ، صوبے، ملک یا معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں انکا معاشرہ وہی ہوتا ہے، وہاں کی مجموعی سوچ ہی انکی زندگی کے ہر عمل کا محرک ہوتی ہے، آپ پٹھان ہو، آپ کی بیوی بھی پٹھان ہے اور آپ ہجرت کر کے پنجاب کے کسی گاوں میں چلے جاتے ہو تب اولاد ہوتی ہے تو وہ بچہ پشتو زبان کے بجائے پنجابی بولے گا، کیونکہ آپ اسے چند گھنٹے اپنے ساتھ باندھے رکھنے پر مجبور کر سکتے ہو لیکن اس کی روزمزہ زندگی کا سب سے زیادہ حصہ گھر سے باہر گزرے گا۔ جو بچہ جہاں پیدا ہوتا ہے، جہاں پلتا بڑھتا ہے،جہاں رہتا ہے، جہاں پڑھتا ہے اس کا معاشرہ وہی ہوتا ہے، وہیں سے وہ عزت کے پیمانے سیکھتا ہے اوروہیں سے اقدار پاتا ہے۔

محفل میں ہی باتوں باتوں میں صاحب سوال نے  ایک  قاری صاحب کا ذکر فرما دیا کہ وہ بہت زیادہ، انتہائی، وڈے، موٹے سارے علم کے مالک ہیں، انکے پاس اتنا علم ہے، ہر ایک مسلہ کا اس قدر جامع اٹل حل ہے کہ اگر ہر ایک جمعے ان کے صرف خطبے سن لیے جائیں تو زندگی کا ہر مسلہ ویسے ہی حل ہوجاتا ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ٹاپک ہو، کوئی ایسا مسلہ ہو جس کا وہ حل بیان نہیں کرتے۔
میری رگ حس مزاح پھڑک اٹھی!

حضرت آپ کو کتنے سال ہوئے قاری صاحب کے خطبے سنتے ہوئے؟

جی کم و بیس 12 سال۔

پھر بھی آپکا مسلہ حل نہیں ہوا؟ حیرت ہے۔ مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ یا تو سوال بدلیں یا پھر قاری۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رہے نام مولا دا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply