• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دستانے پہنے ہاتھوں سے لکھی داستا نیں/ گُل بخشالوی

دستانے پہنے ہاتھوں سے لکھی داستا نیں/ گُل بخشالوی

پشاور پولیس لائن کی مسجد میں” خود کش“بم دھماکے میں 100 سے زائد شہادتوں کے واقعہ نے قانون نافذ کرنے والے اور پالیسی بنانے والے اداروں کو زمینی حقائق کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل بنیادوں کو بھی سامنے رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس لئے کہ خودکش دھماکے سے ستون اور دیواریں نہیں گرتیں اور دس کلو دھماکہ خیز مواد لے جانے والا شخص پولیس کو چکمہ دے گیا تو کیسے دے گیا ، وڈیو میں دکھائے جا نے والا نمازی بھی تو ہو سکتا ہے اس نے پولیس اہلکار سے ہاتھ ملایا ، پولیس عام طور پر ایسے خود کش دھماکوں کے بعد کسی نامعلوم شہید کا سر دکھا کرکہتی ہے ، دہشت گرد کا سر مل گیا ، جیسے اس نے ماتھے پر لکھا ہو کہ ،،میں دہشت گرد ہوں ۔

خیبر پختون خوا کا درد رونے والے ، نور عالم خان کہتے ہیں ’سارے پختون پاکستان سے محبت کرتے ہیں لیکن دہشت گردی میں ہم پختون ہی کیوں مرتے ہیں ، ہمیں کہا جاتا ہے کہ25، 30 سال سے یہ سب ہو رہا ہے،کون کر رہا ہے؟ کیا میں دہشتگرد ہوں؟ ہمیں بتایا جائے کہ اگلے تیس سال ہمارے ساتھ کیا کرنا ہے، کیا ہمارے لوگ ایسے ہی شہید ہوں گے۔ اس ملک کے مالکان سے سوال ہے کہ اب آپ ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔‘

ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد حسبِ  سابق جاری اعلامیہ میں کہا گیا ، پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا ، سوشل میڈیا پر عابد خلیل نے کیا خوب لکھا ہے ، ۲۰۰۲ سے ۳۲۰۲ تک چہروں کی تبدیلی کے سو ا و ہی ہسپتال ، وہی صوبہ ،وہی قوم، و ہی طریقہ واردات ، و ہی وردی، و ہی مذمت، و ہی کیفر کردار تک پہنچانے کے جنرل کیانی ، راحیل شریف ، جنرل باجوہ ، اور اب عاصم منیر کے دعوے ، و ہی پالیسی، و ہی جنازے، وہی گلدستے ، و ہی سلامی ،وہی سلوٹ ، و ہی چاک و چوبند دستے و ہی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی آہیں ،وہی سسکیاں، وہی خاموشی سیاسی پنڈتوں کے و ہی سیاسی نعرے، و ہی الزام تراشیاں، جن کے موجد بھی وہ خود  ہی ہیں۔۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا ،

تحریک انصاف کے دور اقتدار میں جس دہشت گردی کے عذاب سے پاکستان کو نجات ملی تھی ، مغرب پرستوں کی حکمرانی سے  قوم ایک بار پھر اسی عذاب سے دو چار ہے ۔ قوم انگشت بدنداں ہے کہیں یہ وہ کھیل تو نہیں کھیلا جا رہا ، جو لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو سے نجات کے لئے کھیلا گیا تھا ، لاشوں پر سیاست تو مغرب پرستوں کا محبوب مشغلہ ہے قوم کا باشعور طبقہ سوچ رہا ہے کہ دستانے پہن کر لاشیں گرا کر داستا نیں لکھنے والے کہیں یہ کھیل عمران خان سے نجات کے لئے تو نہیں کھیل رہے ۔ ایسا ممکن ہے اس لئے کہ درندہ صفت مغربی غلام جا نتے ہیں کہ پاکستانی عوام غلام ابن غلام ہیں ، دو چار دن ماتم کریں گے اور خاموش ہو جائیں گے ،
بقول تحریک انصاف حکومت کی آ ل پارٹیزکانفرنس ایک ڈرامہ ہے۔ حکومتی وسائل کا رخ صرف پکڑ دھکڑکی طرف ہے، مخالفین کے خلاف غداری کے مقدمے درج کر کے آ ئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں‘ جھوٹے مقدمے درج کیے جارہے ہیں ۔ عمران خان کہتے ہیں کہ میں سازش اور ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے قوم پر مسلط کردہ اس امپورٹڈ سرکار کو ہرگزتسلیم نہیں کرتا۔ 10مہینے میں اس حکومت کے ہاتھوں معیشت کی تباہی، ننگی فسطائیت کے ذریعے جمہوریت کے قتل ، قانون کی حکمرانی بنیادی حقوق کے خاتمے اور دہشت گردی کو اپنی ناک تلے پھیلنے کی اجازت دیے جانے پر نگاہ ڈالتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ شہباز شریف اتنا بے شرم کیسے ہو سکتا ہے۔

دنیا جانتی ہے ، رجیم چینج میں پاکستان پر مسلط ہونے والے اقتدار پرستوںنے عوامی مینڈیٹ کا خون کیا ، آج پاکستانی ایک بار پھر دور ضیاءالحق کے فرغونیت میں جی رہے ہیں ، مغرب پرست دور ضیاءالحق کی پیدا وار دور ضیالحق کی بر بریت کی یاد تازہ کر رہے ہیں ، افسر شاہی ، عدا لتیں اور جرنیل وہ ہی کچھ کر رہے ہیں جو دور ِ ضیاءالحق میں قوم بھگت چکی ہے لیکن دنیا نے یہ بھی دیکھا ہے جب وقت کے جابر جنرل کو ان کے چاہنے والوں نے فضا میں دھواں بنا کر اڑا دیا ، اس لئے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ،

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کے پارٹی عہدے سے استعفیٰ کے بعد سینٹ کے اجلاس میں مسلم لیگ ن کے ترجمان سینٹر مشاہد رضا نے کہا کہ ہماری حکومت لولی لنگڑی ہو چکی ہے روز جوتے پڑتے ہیں اور گالیاں کھاتے ہیں بہتر ہو گا کہ حکومت چھوڑ کر عام انتخابات کی طرف جائیں اگر دیر ہوگئی تو کوئی جنرل آجائے گا اور پھر ہم جمہوریت کا ماتم کریں گے ، ہم جنرل ضیا ءکو بڑی گالیاں دیتے ہیں لیکن پالیسی اس کی اپنائے ہوئے ہیں ، جنرل ضیاءسے کسی نے پوچھا کہ عام انتخابات کب ہوں گے تو اس نے جواب میں کہا جب مثبت نتائج کے لئے فضا ساز گار ہو گی ، بھول جائیں مثبت نتائج کو ، بھول جائیں کہ ا قتدارمیں کون آئے گا ، آج ہماری حکومت ہماری نالائقی کی وجہ سے مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ آوازیں پی ڈی ایم کے اندر سے آرہی ہیں ضمیر جاگنے لگے ہیں لیکن مغربی غلام بہرے اور اپنے شیطانی کھیل میں مست ہیں ہیں وہ جانتے ہیں ، سب کچھ جانتے ہیں لیکن خوف ہے تو عمران خان کا ، سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ عمران خان سے نجات کیسے ملے گی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply