5 فروری۔۔۔۔ مفہوم یکجہتی کشمیر/نذر حافی

میرا قلم اندر سے ٹوٹ چکا ہے، یہ قلم اب اس قابل نہیں رہا کہ لوگوں کو یوم یکجہتی کشمیر کی دعوت دے، میرا قلم مجھے سے پوچھتا ہے کہ وہ کونسا ظلم ہے جو کشمیر ، میانمار یا فلسطین میں ہو رہا ہے اور پاکستان میں نہیں ہو رہا!؟ یوم یکجہتی کشمیر کا نعرہ کچھ انجانی طاقتوں کی طرف سے ہمارے منہ میں ڈال دیا گیا ہے اور ہم پانچ فروری کو یہ نعرے لگا لگا کر ہلکان ہو جاتے ہیں اور اگلے دن پھر پہلے کی طرح ظالم حکمران، مظلوم لوگوں پر راج کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اس یوم یکجہتی کشمیر کو یومِ مظلومیت انسانیت کے نام سے منائیں، ہم اپنے عوام کو بتائیں کہ ہمارے ہاں آج تک ابھی پاکستان آزاد نہیں ہوا، ہم پر آج بھی برطانوی سامراج سے بدتر سامراج حکومت کر رہا ہے، ہم عابد باکسر، گلو بٹ، انسپکٹر ظہیر احمد عرف گل اور راو انوار کی سلطنت میں جی رہے ہیں، یہاں ہر شہر میں سانحہ ماڈل ٹاون اور ہر روڈ پر سانحہ ساہیوال جیسے سانحات پیش آتے ہیں، ان سانحات کے پیچھے شریف خاندان، نیازی خاندان، بھٹو خاندان، زرداری خاندان اور پتہ نہیں کیسے کیسے خاندان اپنی سیاست چمکا رہے ہوتے ہیں، یہاں ریاست کی سیاست اور حفاظت کے نام پر سی ٹی ڈی جیسے بے لگام ادارے بنائے جاتے ہیں اور راو انوار، گلو بٹ اور عابد باکسر جیسے پہلوان پالے جاتے ہیں۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاست اور وردی کبھی ایک پیج پر نہیں رہی تو اسے آدھی بات کی سمجھ ہے جبکہ پوری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست اور وردی کی ملی بھگت سے وزرائے اعظم تک کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔ پروفیسر مہدی حسن کے مطابق غلام محمد مرض المرگ میں ہذیانی کیفیت کا شکار ہو کر چلاتا تھا کہ ”لیاقت کے قتل کا سارا الزام مجھ ہی پر کیوں دھرا جاتا ہے۔ گورمانی بھی تو شریک تھا۔ 16 اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ راولپنڈی میں جب سید اکبر نامی شخص نے فائرنگ کرکے شہید ملت خان لیاقت علی خاں کو شہید کیا تو گولی کی آواز سنتے ہی پولیس افسر نجف خاں نے پشتو میں چلا کر کہا، “اسے مارو۔” نجف خاں نے پنڈی (پنجاب) کے جلسے میں پنجابی کی بجائے پشتو کیوں استعمال کی؟ کیا انہیں معلوم تھا کہ قاتل افغانی ہے؟ ان کے حکم پر سید اکبر کو ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے والا تھا۔ کیا تجربہ کار پولیس افسر نجف خاں کو معلوم نہیں تھا کہ وزیراعظم پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار کرنا ضروری ہے۔؟

اس کے بعد وردی اور سیاست نے مل جل کر کیا گل کھلائے، وہ ہم سب کے سامنے ہیں، ان میں سے چیدہ چیدہ کا ذکر ہم کئے دیتے ہیں۔ پرانی باتیں نہیں کرتے، صرف پنجاب میں میاں شہباز شریف کی بنائی ہوئی سی ٹی ڈی کو ہی لیجئے، اب تک سی ٹی ڈی کتنے افراد کو نگل چکی ہے، کتنے شہری لاپتہ ہوچکے ہیں اور کتنے لوگ جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جا چکے ہیں! مجھے افسوس ہے اپنے قلم اور اپنے جیسے لکھاریوں پر جو لاکھوں میل دور بیٹھ کر میانمار، فلسطین اور کشمیر کے درد پر تو قلم فرسائی کرتے ہیں، لیکن اپنے ہی گلی محلے اور اپنے وطن میں جاری بربریت پر لکھنے کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا، جو کشمیر اور فلسطین کے لئے تو کانفرنسیں کرتے ہیں، لیکن سی ٹی ڈی کے جرائم پر کوئی کانفرنس یا سیمینار منعقد نہیں کرتے۔

جب بھی کہیں ظلم ہوتا ہے اور عوام کی طرف سے ظالم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے تو سرکاری پیٹی بھائی مل کر ظالم کو بچا لیتے ہیں، زیادہ دور نہ جائیے 2017ء میں اسلام آباد ائیر پورٹ پر اورسیز پاکستانی ماں اور بیٹیوں کی FIA کے عملے کے ہاتھوں بدترین پٹائی ہوئی، پٹائی کی وجہ ایف آئی اے کے اہلکارکی جانب سے اپنے  ذاتی موبائل کے ساتھ خواتین کی ویڈیو بنانا تھی، احتجاج کرنے پر ان بچیوں کو کمرے میں گھسیٹ کر لے جایا گیا اور مار مار کر بیہوش کر دیا گیا، ان کی ماں سارے ائیر پورٹ پر مدد کے لئے پکارتی رہی۔ بعد ازاں اس کی بھی خوب پٹائی کی گئ، ایف آئی اے کا مرد اسٹاف پیٹنے والے اسٹاف کو Support فراہم کرتا رہا، ڈپٹی ڈائریکٹر FIA مظہر کاکاخیل نے ان اورسیز پاکستانی ماں اور بچیوں کے خلاف FIR کاٹی اور ان کے والد کو معافی نامہ لکھنے پر مجبور کیا…..یہ مظہر کاکاخیل خیبر پختون خواہ پولیس کا وە افسر ہے، جو اسلحہ خریدنے کے اسکینڈل میں ملوث تھا اور 2 ارب کے مالی غبن میں مطلوب تھا۔۔۔ پھر اس نے 65 لاکھ NAB کو دیئے اور نون لیگ کے ایماندار وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اسے اسلام آباد FIA میں انتہائی پرائس پوسٹ پر لگا دیا اور پھر پچھلے بورڈ میں اسے پروموشن بھی دی گئی۔[1] بعد ازاں سارا ملبہ ایک کانسٹیبل پر ڈال کر بات ختم کر دی گئی۔

گذشتہ روز عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ساہیوال میں پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بنانے والی گاڑی لاہور کی جانب سے آرہی تھی، جسے ایلیٹ فورس کی گاڑی نے روکا اور فائرنگ کر دی، جبکہ گاڑی کے اندر سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق مرنے والی خواتین کی عمریں 40 سال اور 13 برس کے لگ بھگ تھیں۔ عینی شاہدین نے مزید بتایا کہ گاڑی میں کپڑوں سے بھرے تین بیگ بھی موجود تھے، جنہیں پولیس اپنے ساتھ لے گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے فائرنگ کے واقعے کے بعد زندہ بچ جانے والے بچوں کو قریبی پیٹرول پمپ پر چھوڑ دیا، جہاں انہوں نے بتایا کہ ان کے والدین کو مار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کو یہ رپورٹ پیش کی گئی کہ  “سی ٹی ڈی نے حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔“[2]

ٹھیک ہے آج عوامی شور و غل بہت ہے، لیکن یاد رکھئے یہاں بھی نتیجہ وہی نکلے گا، جو اسلام آباد ائیر پورٹ والے مسئلے کا نکلا تھا۔ یعنی سی ٹی ڈی کو محدود کرنے، اعلیٰ آفیسرز پر ہاتھ ڈالنے یا اس وقعے کے پیچھے چھپے مجرم دماغوں کو بے نقاب کرنے کے بجائے، لواحقین اور متاثرین سے ہی معافی نامے لکھوائےجائیں گے، انہیں تھانوں اور کچہریوں کے چکروں میں پسا جائے گا اور بالآخر زیادہ سے زیادہ کسی ایک آدھ کالی بھیڑ کو قربان کرکے اس بے گناہ خون پر پانی پھیر دیا جائے گا۔ ہمیں اس مرتبہ پانچ فروری کو قومی شعور کامظاہرہ کرنا چاہیئے اور اس حقیقت کو برملا کرنا چاہیئے کہ کشمیر کی طرح ہم پاکستانی بھی ظلم، جبر اور استبداد کے شکار ہیں، ہمارے ہاں بھی بے گناہ لوگ لاپتہ ہیں، اقوام متحدہ کو اگر کشمیریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نوٹس لینا چاہیئے تو پھر پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں خصوصاً میاں شہباز شریف اور ان کی پالتو سی ٹی ڈی کے جرائم کے بارے میں بھی تحقیقات کروانی چاہیئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس مرتبہ پانچ فروری صرف یوم یکجہتی کشمیر نہیں بلکہ یوم یکجہتی پاکستان بھی ہونا چاہیئے، اس وقت جس طرح کشمیری تنہا ہیں اور انہیں یکجہتی کی ضرورت ہے، اسی طرح پاکستانی بھی تنہا ہیں اور انہیں بھی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ ہم ایک طرف تو یہ ترانے پڑھتے ہیں کہ مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے اور دوسری طرف اپنے ہی ائیر پورٹ پر اپنی خواتین کی پٹائی کی جاتی ہے اور ننھے منے بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیئے کہ ہم ہی میں وہ کالی بھیڑیں ہیں، جو مجاہدین کے نام پر دہشت گرد تیار کرتی ہیں اور پرامن شہریوں پر ظلم کرکے انہیں باغی بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں وردی اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اس ساتھ کو سمجھنے کے لئے عابی مکھنوی کے اس شعر کو سمجھئے:
پتھر سارے زنداں کی دیوار میں چُن کر حاکم نے
پاگل کتے چھوڑ رکھے ہیں ہم سب کی رکھوالی کو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply