• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا ریڈکلف کا نام قائداعظم نے تجویزکیا تھا؟-تحریر/محمد عارف گُل

کیا ریڈکلف کا نام قائداعظم نے تجویزکیا تھا؟-تحریر/محمد عارف گُل

یہ بات نا صرف عام لوگوں میں بلکہ کئی سنجیدہ لکھاریوں میں بھی مشہور چلی آرہی ہے کہ باؤنڈری کمیشن کی سربراہی کے لیے سرریڈکلف کا نام قائداعظم نے تجویز کیا تھا اور چونکہ وہ قائداعظم کی پسند تھے لہذا اس کے ایوارڈ پر مسلم لیگ یا پاکستانیوں کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ پہلے تو بات کو درست کرلیا جائے کہ ریڈ کلف کا نام قائداعظم نے نہیں دیا تھا بلکہ یہ ماؤنٹ بیٹن کی درپردہ کوششوں سے آیا تھا اور قائد اعظم نے اس کے سابقہ ریکارڈ کی بنیاد پر قبول کر لیا تھا۔ دوسرا یہ کہ بالفرض اس کا نام قائداعظم نے تجویز کیا بھی ہوتا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر بعد میں وہ ناانصافی کرے تو اس پر تنقید نہیں کی جا سکتی۔

اس غلط روایت کے عام ہونے کی وجہ سٹینلے والپرٹ کی کتاب ’’جناح آف پاکستان‘‘ بنی جس میں مصنف نے ’’مشن ود ماؤنٹ بیٹن‘‘ کے حوالے سے لکھ دیا کہ ریڈ کلف کا نام قائداعظم نے تجویز کیا تھا۔’’مشن ود ماؤنٹ بیٹن‘‘ کا مصنف کیمبل جانسن چونکہ وائسرائے کے عملے کا کارکن تھا لہذا اس کے بیان کو سند سمجھ لیا گیا۔ یہ کتاب تاریخ وار روزنامچے کے طرز پر لکھی گئی ہے اوراس کتاب کی 27 جون کی اینٹری میں لکھا ہے کہ قائداعظم نے دونوں باؤنڈری کمیشنز اور آربیٹرل ٹربیونل کے سربراہ کے لیے ریڈ کلف کا نام تجویز کیا تھا۔ مگر یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی یا غلط بیانی ہے۔ جس وقت ’’جناح آف پاکستان‘‘ شائع ہوئی اس وقت ’’ٹرانسفر آف پاور‘‘ دستاویزات کی تمام بارہ جلدیں شائع نہیں ہوئی تھیں اس لیے سٹینلے والپرٹ کو مجبور سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر اس کے سامنے یہ مکمل جلدیں ہوتیں تو وہ کبھی ایسا دعویٰ  نہ کرتا۔

میں نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ باؤنڈری کمیشن کی سربراہی کے لئے قائداعظم نے یو این او سے مدد لینے کی تجویز پیش کی تھی جسے جواہر لال نہرو نے یہ کہہ کر رَد کر دیا تھا کہ اس سے کام میں تاخیر ہو گی۔ اسی طرح آربیٹرل ٹربیونل کے لئے بھی  قائداعظم نے گلستان کی پرائیوی  کونسل کی جوڈیشل کمیٹی سے ممبر لینے کا کہا تھا جسے نہرو نے رَد کر دیا تھا۔

مصنف؛سٹینلے والپرٹ/کتاب؛جناح آف پاکستان

ساری باتیں   تو مجھے یاد تھیں مگر مضبوط ریفرنس یاد نہیں آرہا تھا۔ اتفاق سے انہی دنوں مجھے ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کی کتاب ’’ایم اے جناح؛ دا آؤٹ سائیڈ ویو‘‘ مل گئی جس میں اس بات کی تردید تھی کہ ریڈ کلف کا نام محمد علی جناح نے تجویز کیا تھا۔ ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ اس کی مکمل تفصیل ’’ٹرانسفر آف پاور‘‘ پیپرز کی جلد11 میں موجود ہے۔ میرے پاس چونکہ سافٹ میں ’’ٹرانسفر آف پاور‘‘ پیپرز کی تمام 12 جلدیں موجود تھیں اور جب میں نے جلد 11 کھولی تو وہاں تمام دستاویزات موجود تھیں جو’’جناح آف پاکستان‘‘ کے بیان کو نا  صرف غلط ثابت کرتی تھیں بلکہ ایک نئی کہانی بیان کرتی تھیں۔
’ٹرانسفر آف پاور‘‘ پیپرز کے تمام جلدیں تاریخ وار اور ڈاکومنٹ نمبر کے ساتھ تیاری کی گئی ہیں۔ اس لئے میں نے بھی  تاریخ وارڈاکیومنٹ نمبر کے ساتھ اس معاملے کی تمام تفصیل بیان کردی ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی واضح ہوجائے۔
’’ٹرانسفر آف پاور‘‘ جلد 11 کا پہلا ڈاکیومنٹ جس میں باؤنڈری کمیشن اور آربیٹرل ٹربیونل کا ذکر ہے وہ ڈاکیومنٹ نمبر101 ہے اور تاریخ ہے 7 جون 1947۔ یہ ایک میٹنگ کا ریکارڈ ہے جس میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن، قائداعظم، لیاقت علی خان اور سردارعبدالرب نشتر موجود تھے۔ اس میٹنگ میں لیاقت علی خان نے پرائیوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی کے ممبر کو آربیٹرل ٹربیونل کا چیئرمین بنانے کی تجویز دی جبکہ قائداعظم نے باؤنڈری کمیشن کے لیے تجویز کیا کہ اس میں یو این او سے تین ممبر اور تین ممبر کانگریس و مسلم لیگ سے لیے جائیں۔

اسی 7 جون کی انٹری نمبر 100 سے پتہ چلتا ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ارل آف لسٹوول کو لکھا اور10 جون کو ڈاکیومنٹ نمبر 135 کے مطابق یہی بات ارل آف لسٹوول نے وسکاٹ اسکاؤٹ کو لکھی کہ وائسرائے آربیٹرل ٹربیونل کے لیے پرائیوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی کے ممبر کا نام مانگ رہے ہیں۔
مورخہ 9 جون کا ڈاکیومنٹ نمبر120 دراصل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا ارل آف لسٹوول کو لکھا گیا خط ہے جس میں وہ بتاتا ہے کہ کل ہی میری مسلم لیگ کے نمائندوں سے بات ہوئی تھی۔ جس میں انہوں نے تین ممبران یو این او سے لینے کا کہا جو غیرانڈین ہوں،چاہے امریکن، فرانسیسی اور انگلش مین اور جو باؤنڈری جیسے معاملات کا تجربہ بھی رکھتے ہوں۔ اور ان کے ساتھ کانگریس اور مسلم لیگ کے نمائندے ہوں گے۔ مسلم لیگ کے نمائندوں نے یہ بھی کہا کہ یو این او کے نمائندے زیادہ معاون ثابت ہوں گے۔

اگلے ہی روز یعنی 10 جون کو ماؤنٹ بیٹن کی جواہر لال نہرو، سردار پٹیل اور کرپلانی سے میٹنگ ہوتی ہے۔ اس میٹنگ کا ڈاکومنٹ نمبر124 ہے۔ ماؤنٹ بیٹن کے بقول میں نے باؤنڈری کمیشن کے لیے تین ممبر یو این او سے اور تین کانگریس و مسلم لیگ سے لیے کا کہا۔ جس پر نہرو نے کہا کہ اس سے باؤنڈری کے کام میں تاخیر ہونے کا خدشہ ہے۔ جس کے جواب میں ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ وہ فوری طور پر یو این او کو لکھ دیتے ہیں۔ اس پر نہرو نے کہا میں سوچ کربعد میں جواب دوں گا۔ جبکہ آربیٹرل ٹربیونل کے لیے نہرو نے بھی پرائیوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی کے ممبر کو لینے کی تجویزدی۔

ماؤنٹ بیٹن،پاٹیل،جواہر لعل نہرو

10 جون کو ہی شام میں نہرو نے ماؤنٹ بیٹن کو خط لکھا جس کا ڈاکیومنٹ نمبر 128 ہے۔ اس خط میں نہرو نے لکھا کہ وہ یو این او سے ممبر لینے کو قابلِ  عمل قابل نہیں سمجھتا اور ویسے بھی اس سے باؤنڈری کے کام میں دیر ہو سکتی ہے۔ اور ساتھ ہی تجویز دی کہ باؤنڈری کمیشن کے4 ممبران ہوں دو لیگ سے اوردو کانگریس سے، وہ مل کر اپنا چیئرمین منتخب کر لیں اور اتفاق نہ ہو تو کسی اور کا نام چیئرمین کے طور پر تجویز کردیں۔

12 جون کو ڈاکیومنٹ نمبر 157 کے تحت کے ماؤنٹ بیٹن کے نام نہرو کا ایک اورخط ملتا ہے۔جس میں لکھتے ہیں کہ میرے ساتھی اور میں سمجھتے ہیں کہ آربیٹرل ٹربیونل کے لیے فیڈرل کورٹ کے تین جج لینے چاہئیں اور یہ کہ ہم اس کے لئے پرائیوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی سے ممبر لینے کو سودمند نہیں سمجھتے۔ حالانکہ یہ نہرو ہی تھے جنہوں نے اس سے قبل پرائیوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی کا ممبر لینے کا کہا تھا۔

ڈاکیومنٹ نمبر 175 پر ایک میٹنگ کا احوال ہے جس میں ماؤنٹ بیٹن، نہرو، قائد اعظم، سردار پٹیل، کرپلانی، 10 جون لیاقت علی خان، عبدالرب نشتر، بلدیو سنگھ، ایم ای میولی، سر وی کارفیلڈ اور کلونل ارسکائن موجود تھے۔ باؤنڈری کمیشن کے حوالے سے دو تجاویز زیر غور آئیں۔
1۔ تین ممبر یو این او سے ہونے چاہئیں  اور تین ممبر میں سے ایک ہر فریق سے لیا جائے۔
2۔ کمیشن کا ایک آزاد چیئرمین ہو اور چار میں سے دو ممبر ہر دو پارٹیوں سے شامل کیے جائیں۔

قائد اعظم نے پہلی تجویز سے اتفاق کیا جب کہ نہرو نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ بھی کہا کہ یو این او سے ایک ممبر ایسا بھی لیا جا سکتا ہے جو اس کا ماہر ہو اور اس کے ذمہ ایڈوائزری کا کام ہو۔ لیکن بحث کے بعد یہ طے پایا کہ ہر دو پارٹیوں سے دو دو ممبر ہوں گے اور ان کا ایک چیئرمین ہو گا۔

اس طرح آربیٹرل ٹربیونل کے لیے قائداعظم کی تجویز تھی کہ اس کے لیے پرائیوی کونسل کی جوڈیشل کمیٹی سے ممبر لیا جائے۔ جبکہ نہرو نے اس کی بھی مخالفت کی اور تجویز دی کہ جیسا کہ وہ اپنے 12 جون کے خط میں لکھ چکے تھے کہ اس کے لیے فیڈرل کورٹ سے تین ممبر لیے جائیں۔ اس پر قائداعظم نے نہرو کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کے والد تو پرائیوی کونسل کے بڑے مداح تھے۔ لیکن آخر کار یہ طے پایا کہ لیاقت علی خان اور سردار پٹیل مل کر اس مسئلے کو دیکھیں گے۔

اسی دن یعنی 13 جون کو ہی ڈاکیومنٹ نمبر185 کے مطابق وسکاٹ جووٹ نے وائسرائے کی ہدایت پر ارل آف لسٹوول کو لکھا کہ ذرا آپ معلوم کریں کہ کیا سر ریڈ کلف آربیٹرل ٹربیونل کی چیئرمین شپ کے لیے آمادہ ہو سکتے ہیں۔ جس کے جواب میں 16 جون کو ارل آف لسٹوول نے اسے بتایا کہ وہ اس کام کے لیے راضی ہیں۔

یاد رہے کہ اس تاریخ تک ہندوستانی قیادت کے سامنے اس کا نام نہیں آیا تھا اور ماؤنٹ بیٹن بالا بالا اس کے لیے راہ ہموار کر رہا تھا۔

13 جون کو ہی ڈاکومنٹ نمبر 195 کے مطابق ارل آف لسٹوول نے ماؤنٹ بیٹن کو لکھا کہ فارن آفس نے یو این او سے ممبر لینے کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ 15 جون بمطابق ڈاکیومنٹ نمبر 204 اسکاؤٹ جووٹ نے ماؤنٹ بیٹن کو لکھا کہ اچھا ہے یو این او کا آپشن ڈراپ کر دیا گیا۔

ڈاکیومنٹ نمبر275 بتاریخ 20 جون کو لارڈ اسمے کا لیاقت علی خان سے ملاقات کا احوال درج ہے۔ جس میں اس نے ماؤنٹ بیٹن کو بتایا کہ میں نے لیاقت علی خان کے کان میں ڈال دیا ہے کہ اگر باؤنڈری کمیشن کے سربراہ کے لیے ریڈ کلف کا نام تجویز کیا تو لیگ اسے کیسے لے گی۔ اس کے ساتھ اس نے لیاقت علی خان سے یہ بھی کہا کہ کانگریس نے دونوں باؤنڈری کمیشنز کے لئے اپنے نمبر لکھ کر بھیج دیے ہیں۔

قائداعظم؛ماؤنٹ بیٹن

ان دستاویزات سےاس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ ماؤنٹ بیٹن نے کانگریس کو ریڈ کلف کے متعلق کب اعتماد میں لیا لیکن جیسا کہ اس میٹنگ سے معلوم ہوتا ہے کہ کانگریس نے باؤنڈری کمیشنز کے لیے اپنی نامزدگیاں کر دی تھیں  تو پھر انہیں ریڈ کلف کا بھی علم تھا۔

20 جون ڈاکیومنٹ نمبر 251 پر ارل آف لسٹوول کا ماؤنٹ بیٹن کے نام پیغام ہے جس میں اس نے لکھا کہ ریڈ کلف کا نام نہایت موزوں ہے اور مجھے خوشی ہے کہ باؤنڈری کمیشن کے لیے یو این او کا آئیڈیا ترک کر دیا گیا ہے۔

ڈاکیومنٹ نمبر 311 پر 23 جون کی ماؤنٹ بیٹن سے قائداعظم کی ملاقات کا احوال درج ہے جس میں قائداعظم نے تجویز پیش کی کہ باؤنڈری کمیشن اور آربیٹرل ٹربیونل دونوں کے سربراہ کے لیے بار آف انگلینڈ سے ہی کسی کو منتخب کیا جائے۔

ماؤنٹ بیٹن نے بتایا کہ آربیٹرل ٹربیونل کے لئے سر ریڈ کلف کا نام کیسا رہے گا۔ قائداعظم نے کہا میں اس پر سوچ کر ایک دو دن میں جواب دوں گا۔

اگلے ہی روز 24 جون کو ڈاکیومنٹ نمبر 317 کے مطابق قائداعظم نے ماؤنٹ بیٹن کو لکھا کہ 23 جون کی میٹنگ میں جو تجاویز میں نے دی تھیں میرے خیال میں وہی مناسب ہیں۔

اوپر درج میٹنگ اور خط دونوں سے صاف واضح ہے کہ نا  صرف قائداعظم نے ریڈ کلف کا نام تجویز نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس کا نام قبول کرنے سے بھی احتراز کیا۔ اس میٹنگ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قائداعظم باؤنڈری کمیشن اور آربیٹرل ٹربیونل دونوں کے لیے الگ الگ فرد کی بجائے کسی ایک ہی آدمی کو چیئرمین بنانے کے حق میں تھے۔

26 جون ڈاکیومنٹ نمبر 354 پر ہندوستانی کابینہ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس کا احوال ہے جس میں ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ لیاقت علی خان، سردار پٹیل، راجندر پرشاد، عبدالرب نشتر، لارڈ اسمے، سر ای مایوول وغیرہ موجود تھے۔ ماؤنٹ بیٹن نے تجویز پیش کی کہ بجائے باؤنڈری کمیشن کے لیے لیگ اور کانگریس کے ممبر مل کر اپنے لیےچیئرمین منتخب کریں بہتر ہے کہ چیئرمین کے لیے باہر سے کسی کا نام دیا جائے۔ ماؤنٹ بیٹن نے سیکریٹری آف سٹیٹ سے کہا کہ وہ کوئی نام تجویز کریں۔ جس پر سیکریٹری آف سٹیٹ نے پہلے سے طے شدہ ریڈ کلف کا نام آگے کردیا۔ یہ بھی طے پایا کہ یہ کمیشن 15 اگست تک اپنا کام مکمل کرے گا۔ یہ بھی بات ہوئی کہ آربیٹرل ٹربیونل کے لیے بھی ریڈ کلف کو لیا جائے لیکن پھر تجویز ہوا کہ اس کا فیصلہ لیاقت علی خان اور سردار پٹیل مل کر کریں گے۔

27 جون ڈاکیومنٹ نمبر 368 پر ارل آف لسٹوول کے نام ماؤنٹ بیٹن کا خط ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ قائداعظم نے تجویز دی کہ باؤنڈری کمیشن اور آربیٹرل ٹربیونل کے لیے ریڈ کلف کو چیئرمین بنایا جائے۔ اسی تاریخ یعنی 27 جون کو ڈاکیومنٹ نمبر 369 پر ماؤنٹ بیٹن کی ذاتی رپورٹ ہے جس میں اس نے لکھا کہ قائداعظم نے تجویز کیا کہ باؤنڈری کمیشن اور آربیٹرل ٹربیونل دونوں کا چیئرمین ریڈ کلف کو بنایا جائے۔ جبکہ کانگریس آربیٹرل ٹربیونل کے لیے ریڈ کلف کی سربراہی کے خلاف ہے۔

ڈاکیومنٹ نمبر 368 اور 369 دونوں کے اندراج خلافِ  واقعہ  ہیں۔ قائداعظم نے ریڈ کلف کا نام کبھی بھی تجویز نہیں کیا تھا۔ قائداعظم نے صرف باؤنڈری کمیشن اور آربیٹرل ٹربیونل دونوں کے لیے ایک ہی چیئرمین بنانے کا کہا تھا۔ اور اس کے لیے انہوں نے ماؤنٹ بیٹن سے اپنی میٹنگ اور اگلے ہی دن اپنے خط میں جو تجویز دی تھی وہ پرائیوی کونسل سے کسی کو لینے کی تھی۔

اسی 27 جون کو ہی ماؤنٹ بیٹن کا ارل آف لسٹوول کے نام ٹیلیگرام درج ہے جس کا ڈاکیومنٹ نمبر 378 ہے۔ اس میں ماؤنٹ بیٹن نے لکھا کہ کانگریس آربیٹرل ٹربیونل کے لیے ریڈ کلف کےنام پر راضی نہیں ہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بےعزتی کی بات ہے کہ اس کام کے لیے کسی کو باہر سے لایا جائے۔ اور یہ بھی دریافت کیا کہ اگر ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن کی سربراہی کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہارے پاس کوئی متبادل بھی ہے۔ اس کے جواب میں یکم جولائی کو ارل آف لسٹوول نے ماؤنٹ بیٹن کو لکھا کہ ریڈ کلف اس کام کے لیے تیار ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ مسٹر ایچ سی بیماؤنٹ کو اس کے سیکریٹری کے طور پر بھیجا جا رہا ہے۔ یہ ایچ سی بیماؤنٹ وہی ہے جس نے برسوں بعد یہ اعتراف کیا تھا کہ 13 اگست کے بعد ریڈ کلف سے باؤنڈری کے ایوارڈ میں تبدیلی کرائی گئی تھی۔

3جولائی ڈاکیومنٹ  نمبر 478 وائسرائے کی 51 ویں سٹاف میٹنگ کا احوال درج ہے جس میں چیف جسٹس سر پیٹرک سپینس بھی موجود تھے۔ ماؤنٹ بیٹن نے سر پیٹرک سپینس سے فیڈرل کورٹ کے تین ممبران دینے کا کہا جو آربیٹرل ٹربیونل میں ہوں گے۔ سر پیٹرک سپینس نے کہا کہ اس کام کے لیے ایک جج کافی ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے تجویز کیا اس کام کے لیے سر پیٹرک سپینس ہی مناسب ہیں اور منظوری کے لیے کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک اورخط  لکھنے کا آرڈر کیا۔

ڈاکیومنٹ نمبر 510 پر 4 جولائی کا ارل آف لسٹوول کا ماؤنٹ بیٹن کے نام پیغام ہے جس میں اس نے لکھا کہ مجھے خوشی ہے اور یقیناً یہ شاندار ہے کہ باؤنڈری کمیشن کے سربراہی کے لیے تم ریڈ کلف کو تعینات کرانے میں کامیاب ہو گئے ہو۔

5 جولائی ڈاکیومنٹ نمبر 516 پر پارٹیشن کونسل کی میٹنگ کا احوال ہے جس میں ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ قائداعظم، سردار پٹیل، راجندر پرشاد اور لیاقت علی خان موجود تھے جس میں ماؤنٹ بیٹن نے بتایا کہ میں نے سر پیٹرک سپینس سے آربیٹرل ٹربیونل کے لیے تین ججز کی بات کی تھی۔ اس کے مطابق اس کام کے لیے ایک جج ہی کافی ہے۔ لہذا میں آربیٹرل ٹربیونل کے لیے سر پیٹرک سپینس کا نام تجویز کرتا ہوں۔ اور دونوں پارٹیوں نے اس سے اتفاق کیا۔

یہ ہے باؤنڈری کمیشن اور آربیٹرل ٹربیونل کی سربراہی سے متعلق لمحہ لمحہ تبدیل ہوتی کہانی کی مکمل روداد۔ اس میں کہیں پر بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ باؤنڈری کمیشن کے لیے ریڈ کلف کا نام قائد اعظم نے تجویز کیا تھا ۔ جو کہ غلط طور پر مشہور کر دی گئی ہے۔ بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ باؤنڈری کمیشن کے لیے قائداعظم نے یو این او سے ممبر لینے کی تجویز دی جسے پہلے جواہر لال نہرو نے اور بعد میں برٹش گورنمنٹ نے رد کردیا ۔ اسی طرح آربیٹرل ٹریبونل کی سربراہی کے لیے قائد اعظم نے پرائیوی کونسل کی جیوڈیشل کمیٹی سے ممبر لینے پر زور دیا ۔ اسے بھی نہرو نے رد کر دیا ۔ بعد میں قائداعظم نے تجویز کیا کہ باؤنڈری کمیشن اور آربیٹرل ٹربیونل کے لیے مشترکہ طور پر پرائیوی کونسل کی جیوڈیشل کمیٹی سے ممبر نامزد کیا جائے۔ یہ بات بھی نہرو اور کا نگریس نے نہ مانی۔ ریڈ کلف کا نام ماؤنٹ بیٹن نے پیش کیا بلکہ اندرون خانہ اس کے لیے لابنگ بھی کی۔ سب سے پہلے اس کا نام آربیٹرل ٹربیول کے لئے سامنے لایا گیا مگر بعد میں اسے باؤنڈری کمیشن کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ اسی طرح سے آربیٹرل ٹربیول کے سربراہ کے لئے بھی فیڈرل کورٹ کے تین ججوں کی تجویز نہرو نے دی۔ جسےمعمولی ترمیم کے بعد فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس کے نام پر اتفاق کرا لیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری بات یہ کہ اس اہم کام کے لیے کسی بھی فرد کا نام جہاں سے بھی آتا اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ یہ کام آزادانہ اور ایمانداری سے سرانجام دیتا۔ مگر بدقسمتی کہیے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے کانگریس سے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ایک ایسا ایوارڈ  سامنے آیا جو نا  صرف غیر منصفانہ تھا بلکہ اس نے کشمیر کا ایسا قضیہ پیدا کیا جو آج بھی دو ممالک کے درمیان مستقل تناؤ کا باعث بنا ہوا ہے۔

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply