سندھ الیکشنز میں خواجہ سراؤں کی نمائندگی/ثاقب لقمان قریشی

معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے حقوق پر تھوڑا بہت لکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دونوں کمیونیٹیز کو حقوق نہ ملنے کی سب سے بڑی وجہ لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ لیڈر معاشرے اور کمیونٹی کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ لیڈر معاشرے کو کمیونٹی کے مسائل سے آگاہ کرتا ہے۔ حکومت وقت سے بات کرتا ہے۔ ایسی ٹیم تشکیل دیتا ہے جو پوری کمیونٹی کی نمائندگی کر سکے۔ جائز مطالبات منوانے کیلئے پیار اور احتجاج کا سہارا لیتا ہے۔ انسانی حقوق کا حصول کوئی آسان چیز نہیں۔ یہ ایک سست عمل ہے۔ بعض اوقات معاشروں کو بدلنے میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔
معاشرے آگہی سے تبدیل ہوتے ہیں۔ جب بھی کوئی کمیونٹی اپنے حقوق سے متعلق آگہی عام کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر منزل آسان ہو جاتی ہے۔ موجودہ دور انفارمیشن کا دور ہے۔ آج آگہی عام کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا شائد پہلے کبھی نہ تھا۔ میں 2019ء سے معذور افراد کے مسائل پر باقاعدگی سے لکھ رہا ہوں۔ جبکہ 2020 سے میں نے خواجہ سراؤں کے حقوق پر بھی آواز بلند کرنا شروع کی۔ میں خواجہ سراؤں کیلئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس موضوع پر ذیادہ معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ذیادہ نہیں لکھ پایا۔ پھر میری دوستی مانسہرہ کی مشہور خواجہ سراء نادرہ خان سے ہوئی۔ 2021 اور 2022 میں خیبر پختون خواہ میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے سب سے ذیادہ واقعات رپورٹ ہوئے۔ نادرہ مجھے ہر واقعے کی تصاویر اور وجوہات بتا دیا کرتیں۔ میں اس پر کالم لکھ دیتا۔ گزشتہ برس میں نے خواجہ سراؤں کے مسائل پر چالیس سے ذیادہ کالمز لکھے۔ میرے کالمز نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے حوالے سے آگہی میں اہم کردار ادا کیا۔
خواجہ سراؤں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انکے تمام لیڈرز جوان ہیں۔ شائد کسی کی عمر پینتیس سال سے ذیادہ نہیں ہے۔ پھر انکے پاس مستقل نوکریاں اور وسائل کی کمی ہے۔ جسکی وجہ سے اپنے گزر بسر کی بھاگ دوڑ میں مصروف رہتے ہیں۔ اسکے برعکس معذور افراد کے لیڈرز کے پاس وسائل کی بھرمار ہے۔ لیکن وہ کام نہیں کرتے۔
محروم طبقات کی لیڈر شپ جتنی مرضی مضبوط ہو جائے جب تک حکومت ان کے مسائل میں دلچسپی نہیں لیتی اس وقت تک تبدیلی نہیں آتی۔ مسلم لیگ ن کو تین مرتبہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع ملا لیکن انھوں نے کبھی معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے حقوق میں دلچسپی نہیں لی۔
تحریک انصاف کو دوسری جماعتوں کے برعکس نوجوان اور روشن خیال لوگوں کی جماعت تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن اس کے دور میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے سب سے ذیادہ واقعات رپورٹ ہوئے۔ خواجہ سراؤں کے حقوق پر لکھا اپنا ہر کالم میں عمران خان صاحب اور ہیومن رائٹس کی منسٹری کے ساتھ شیئر کرتا تھا۔ افسوس ہماری گزارشات کو کبھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔
بات کریں پیپلز پارٹی کی تو اس جماعت کو ہمیشہ سے روشن خیال جماعت تصور کیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کے دور کے مزدوروں کے قوانین سے آج بھی مزدور مستفید ہو رہے ہیں۔ مذہبی شدت پسندی، اقلیتوں، معذوروں، انسانی حقوق کی جہاں بھی خلاف ورزی ہو۔ سب سے پہلی آواز پیپلز پارٹی کی ہی سنائی دیتی ہے۔ معذور افراد کے حقوق کا مفصل بل سب سے پہلے سندھ میں پاس ہوا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست گاہے بگاہے بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ صاحب سے ملتے رہتے ہیں۔
2022ء میں جماعت اسلامی نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل پر سیاست چمکانی شروع کی تو ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے چپ سادھ لی۔ مشکل کے اس وقت میں بھی پیپلز پارٹی خواجہ سراء کمیونٹی کے ساتھ دیوار بن کر کھڑی رہی۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ہر پلیٹ فارم پر جماعت اسلامی کے سوالوں کے جوابات دیئے۔
کراچی اور حیدر آباد کے حالیہ بلدیاتی الیکشنز میں خواجہ سراء کمیونٹی نے تمام بڑی پارٹیوں سے ٹکٹ کیلیئے رابطے کیئے۔ اس موقعے پر تمام بڑی جماعتوں نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ اس موقعے پر پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے خواجہ سراؤں کو ملک میں پہلی مرتبہ پارٹی ٹکٹ دیئے۔
سوال یہ ہے کہ معذوروں، خواجہ سراؤں اور اقلیتوں کو پارٹی ٹکٹ دینے کیوں ضروری ہیں؟ ان سے ملک اور معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
انسانی معاشرہ طاقتور کمزور، امیر غریب، صحتمند بیمار، مختلف فرقوں اورقوموں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے والا معاشرہ متوازن انسانی معاشرہ کہلاتا ہے۔ متوازن انسانی معاشرے پر امن بھی ہوتے ہیں اور ترقی بھی کرتے ہیں۔
مذہبی اقلیتوں اور محروم طبقات کو نمائندگی دینے سے ایک طرف انکی محرومیوں کا خاتمہ ہوتا ہے تو دوسری طرف معاشرے کو پیغام دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں انکے حقوق بھی دوسرے شہریوں کے برابر ہیں۔ تیسری اہم ترین بات یہ ہے کہ اقلیتوں اور محروم طبقات کے نمائندے ہی ان مسائل کو ذیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ حکومت اور معاشرے کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق پر سب سے ذیادہ لکھنے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ میری جگہ کوئی خواجہ سراء ان مسائل پر لکھتا تو شائد مجھ سے بہت بہتر لکھ سکتا تھا۔
شہیدوں کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی لبرل اور روشن خیال جماعت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ غیر جمہوری اور غیر انسانی رویئے ملک کو درپیش چلنجز میں سب سے بڑے مسائل ہیں۔ اگر دیگر سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی روشن خیال نظریے کو فالو کرنا شروع کر دیں تو بہت جلد ملک سے شدت پسندی اور غیر انسانی رویوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply