گندم مرغیاں،اور تونسہ شریف کی بھیڑ۔۔منور حیات سرگانہ

اب پچھتائے کیا ہوت،جب ‘ککڑیاں’چگ گئیں کھیت۔
ککڑیوں سے مراد یہاں مرغیاں ہیں۔
تو صاحبو’خیر سے آٹے کا بحران شروع ہو چکا ہے،ابھی نئی فصل کے آنے میں کم و بیش تین ماہ باقی ہیں،اگر اس دوران ہمارے صحراؤں میں پاکستانیوں سے بھی تیز رفتاری سے محو ِ افزائش نسل ٹڈی دل کی فوج ظفر موج سے امسال گندم کی فصل بچ گئی تو تین ماہ تک اس بحران سے ہماری قوم نکل آئے گی۔
لیکن اس سے پہلے آٹا چکی والوں نے آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو کر دی ہے،آٹا مِلوں نے مارکیٹ میں آٹے کی سپلائی روک دی ہے،اور آٹا مِل مالکان اور حکومتی انتظامیہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔

اس طرح مارکیٹ میں جو تھوڑا بہت آٹا دستیاب ہے ،وہ بھی چند دنوں میں ہی ختم ہو جائے گا ،اور چند دن بعد آٹے کے حصول کے لئے شہروں میں ڈپوؤں پر لائنیں ہوں گی،دھکم پیل، اڑتی ہوئی دھول ،پولیس کا لاٹھی چارج اور وزراء و حکومتی ارکان کے آٹے کے تھیلے تقسیم کرتے ہوئے فوٹو شوٹ۔۔اور ایسے میں تسبیح والی سرکار اچانک ہڑبڑا کر کسی زومبی کی طرح جاگی ہے،اور آٹے کی اس کمیابی کا فوراً نوٹس لے لیا ہے،جس کمیابی کے ڈانڈے سال بھر پہلے کی گندم کی فصل سے جا ملتے ہیں،جبکہ تونسہ شریف کے تحفے کا کچھ پتہ نہیں ،کہ کہاں مصروف ہے۔
‘ہائے اس ذود پشیماں کا پشیماں ہونا’

تو صاحبو ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ سال ڈیزل ،کھاد ،بجلی،زرعی ادویات،اور دیگر زرعی مصارف پر اندھا دھند ٹیکس لگا دیے گئے،جس سے تمام زرعی مداخل کے دام بڑھ گئے۔اس صورتحال کے پیش نظر گندم کی کاشت کے وقت گندم کی امدادی قیمت،جو کہ پچھلے چھ سال سے منجمد تھی، بڑھانے کی سفارش کی سمری اس وقت کے وزیر خزانہ ‘معاشی جادوگر’جناب اسد عمر کے روبرو پیش کی گئی،جس پر وزارت خزانہ میں خوب غورو خوص ہوا،اور اسے مکمل اتفاق رائے سے رد کر دیا گیا۔اس بے حسی پر اس وقت برادرم روف کلاسرہ اور جناب عامر متین نے اپنے ٹی وی شو، پروگرام ‘مقابل’ میں آواز بھی اٹھائی تھی،مگر اس وقت کسی کی نہیں سنی گئی،نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت کسانوں نے غیر منافع بخش ہونے کی وجہ سے گندم کم سے کم رقبے پر کاشت کی۔اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ بارشوں کا موسم غیر معمولی طور پر طول پکڑ گیا ،اور ملک کے اناج گھر پنجاب کے جنوبی حصوں میں بارشی سیلاب گندم کی لاکھوں ایکڑ کی فصل بہا کر لے گیا۔بقیہ علاقوں میں فضا میں غیر معمولی نمی کی وجہ سے گندم کی فصل پر ‘رسٹ’ نامی بیماری کا شدید حملہ ہو گیا،جس سے سر سبز فصل کے پتوں پر پیلے رنگ کے دھبے نمودار ہو گئے،اور فصل کے پتے گلنے کی وجہ سے سِٹوں میں دانوں کی تعداد کم اور دانوں کا سائز باریک ہو گیا۔اس بیماری کے حملے میں رہی سہی گندم کی فصل کی پیداوار آدھی سے بھی کم رہ گئی۔

گندم کا زیرِ کاشت رقبہ اوراس سے ہونے والی پیداوار کے اعداد وشمار ‘محکمہ زراعت’ کے کارپردازان اکٹھے کرتے ہیں،اور اس کی تفصیل صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ارسال کی جاتی ہے،جبکہ محکمہ خوراک اور پاسکو کے ذمہ گندم کی خریداری ہوتی ہے۔پچھلے سال کے یہ سب اعداد و شمار حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت کے پاس موجود تھے کہ اس بار گندم کی پیداوار ہدف سے بہت کم ہے،لیکن اس کے باوجود سرکاری گوداموں سے 8 لاکھ ٹن اضافی گندم مرغیوں اور جانوروں کی فیڈ بنانے والی ملوں کو دے دی گئی۔
ایک ایسے بحرانی سال میں،جبکہ انسانوں کے کھانے کے لئے بھی گندم بہت کم دستیاب تھی،اور اس کو درآمد کرنے کی بھی ضرورت درپیش آ سکتی تھی آخر کس کے کہنے پر لاکھوں ٹن گندم فیڈ ملوں کو دے دی گئی،یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

فی الحال حکومتی کارپردازوں کا یہ کہنا ہے کہ گندم کو درآمد کرنے کے لئے کافی اقدامات کر لئے گئے ہیں،جس کی وجہ سے جلد ہی آٹے کا بحران ختم ہو جائے گا۔
اس مشکل وقت میں شیخ رشید صاحب کا یہ کہنا کہ لوگ نومبر اور دسمبر میں روٹیاں زیادہ کھا گئے،جس کی وجہ سے آٹا کمیاب ہو گیا ہے،یہ ثابت کرتا ہے،کہ حکومت اس بحران کی سنگینی سے کس قدر آشنا ہے۔اور کتنی سنجیدگی سے یہ معاملہ حل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آئندہ چند روز میں جب یہ بحران بہت شدید ہو گا تو بہت کچھ سامنے آ جائے گا۔حکومت کی بحرانوں سے نمٹنے کی اہلیت اور قابلیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔لیکن امید ہے شیخ رشید اور دوسرے وزراء اسی سنجیدگی سے عوامی مسائل کا ادراک کر کے ان کو حل کرنے کی کوششیں کرتے رہیں گے،تسبیح گھومتی رہے گی،اور تونسہ شریف کی بھیڑیں سر جھکائے بیابانوں میں اسی محویت سے گھاس چرتی رہیں گی۔
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

منور حیات
ملتان میں رہائش ہے،مختلف سماجی اور دیگر موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”گندم مرغیاں،اور تونسہ شریف کی بھیڑ۔۔منور حیات سرگانہ

  1. وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
    مگر دکھ تو اس بات کا ہے کہ
    کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔ کسی کو غریبوں کی مشکلات کا احساس ہی نہیں

Leave a Reply