گونگلو۔۔سلیم مرزا

جسے کچھ اور نہیں سوجھتا سیدھاحکومت پہ تنقید کرنے لگتا ہے ۔غریب کی جورو جیسی حکومت کو سبھی “ٹچکریں” کرتے ہیں ۔
اب ضروری تو نہیں کہ سارے کام آپ ہی کی مرضی کے ہوں ۔ٹھیک ہے مہنگائی ہوگئی ۔اب ہونی کو کون روک سکا ہے؟
ہونے کو تو یاسمین راشد بھی منسٹر ہوگئی ہیں ، پہلے صرف کیمرہ ہی انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتا تھا ۔اب ذرا محبت سے جاہل کہا تو لاہوریوں نے بھی نظریں بدل لی ہیں ۔
یاسمین راشدمیری پسندیدہ ڈاکٹر ہے ۔ ۔سنا ہے کہ نارمل ڈیلیوری کیلئے ،ایک دم پردے کے پیچھے سے نکل کر “بھا۔۔۔۔۔۔۔ؤ “کی آواز نکالنے والا طریقہ ان کی ایجاد ہے ۔جس کی وجہ سے پرائم منسٹر والی کرسی پہ چیف منسٹر کی طرح بیٹھی زچہ کا “تراہ “نکل جاتا تھا۔
انہی بیساختہ پیدا ہونے والے ووٹروں کی وجہ سے وہ وزارت تک پہنچی ہیں ۔
اب ان کی “بھا۔۔۔ؤ “میں وہ دم نہیں ۔ ان کی آواز ایسی ہے کہ مکینک کے پاس لے کر جائیں تو آواز سنتے ہی چھوٹا کہہ دیتا ہے،
“استاد ،انجن بیٹھ گیا ای “۔۔

شور شرابے میں رہنے والی قوم اتنی جاہل ہے کہ آہستہ آواز میں سمجھتی ہی نہیں ۔ اسی لئے بڑے منہ والے وزیربنائے گئے کہ “باگا “بھی بڑا ہوگا ۔لیکن اب ان کی بیٹھی آواز کی وجہ سے نہ تو کرونا ان کی سن رہا ہے اور نہ ہی عوام ۔گو دیکھنے میں اپنی وزیر صحت ،وزیر صحت لگتا ہے ۔لگتا ہے پرانا طریقہ استعمال کرنا پڑے گا جب دو ہزار اٹھارہ کی دھینگا مشتی میں بنائی جانے والی حکومت کو دیکھ کر  عوام کا ہاسا نکل گیا تو ” وڈے” حاجی صاحب نے اس کامشرف والا حل نکالا۔

تمام ڈی سی اوز کو دکانوں کے چھپر توڑنے پہ لگادیا ۔ریڑھی بانوں کی دوڑیں لگوادیں اور چھابڑی فروشوں کے آلو تک ضبط کرلئے ۔
تب کہیں جاکر عوام کو ہلکا ہلکا یقین آیا کہ رسی اور سوٹی اب بھی مداری کے ہاتھ ہے ،اور باندر واقعی سسرال جا رہا ہے۔
کرونا کیلئے بھی وہی طریقہ اپنایا جائے تو بہتر رہے گا ۔

وباء کا بہانہ بنا کر دکانداروں کے چھپڑ توڑے جائیں ۔میونسپل کمیٹی ریڑھی اور چھابڑی فروشوں کے آم ضبط کرلے ۔اس طرح عوام گھر میں ہی رہے گی اور کوئی بھی “امب “لینے باہر نہیں نکلے گا ۔
قوم اتنی زندہ دل ہے کہ ہنستے ہنستے مہنگائی ہو یا ہمسائی اس پہ مر جاتی ہے ۔انہیں کرونا سے مارنا کسی طرح بھی سماجی مفاد میں نہیں ۔
بہترین پالیسی وہی ہے جو کرونا کے انیس نکات میں درج ہے۔مہنگائی اتنی کر دی جائے کہ لوگ ضروریات زندگی کا سوچ بھی نہ سکیں
گھر میں رہ کر بھوک سے مریں ۔
اس سے کرونا سے مرنے والوں کی تعداد کم ہوگی ۔

جہاں تک صحت کا تعلق ہے تو اچھی صحت سے دماغ میں شیطانی خیالات آتے ہیں ، اور وہ حکومت اور ریاست کا فرق تلاش کرنے لگتا ہے ۔بیمار آدمی ملک کی معیشت کیلئے بہتر ہیں ۔ دوائی کی قیمتیں بڑھانے کا مقصد ملکی اکانومی کی بہتری ہے ۔اتنی مہنگائی میں بیمار ہونے والا کوئی عیاش شخص ہی ہوسکتا ہے ۔

لاہور کے انصافی دوست سے بات ہوئی ،کرونا کی وجہ سے سے اس کا سوفٹ وئیر ہاؤس بند پڑا ہے۔وجہ یہ ہے کہ وباء کے ڈر سے سوفٹ چیز یں اب اس کے کہنے پہ وئیر ہاؤس تک نہیں جاتیں ۔
وہ کملا ان دنوں گھر میں اپنی قرنطینہ کو کترینہ سمجھ کر کملی کملی گارہا ہے ۔میں نے اسے فون کرکے بتایا کہ تمہارے شناختی کارڈ کے مطابق تم ایک مکمل جاہل ہو ۔بلکہ ڈنگر ہو۔۔
وہ اکڑ گیا ۔کہنے لگا ۔
“بحریہ ٹاؤن لاہور سے باہر ہے ”
“تو تم جاہل نہیں ہو ،باہرلے ہو “؟
وہ میری اس بات پہ ناراض ہوگیا ۔حالانکہ لوگ باہر سے آکر انہی جاہلوں کے چیف منسٹر لگے ہوئے ہیں ۔
اور “باہرلا “کہنے پہ ناراض بھی نہیں ہوتے ۔

ابھی پچھلے دنوں ایک تقریب میں شرکت کرنی تھی ۔جلدی میں لاہور پہنچا تو سوچا حجامت ہی بنوالوں ۔نائی نے ابھی خلعت فاخرہ پہنائی ہی تھی کہ بجلی چلی گئی ،کہنے لگا
“باؤ جی ،دکان میں گرمی بہت ہے ۔تھڑے پہ نہ بیٹھ جائیں “؟
تھڑے پہ بیٹھے دومنٹ نہ ہوئے کہ ایک گئے گزرے لاہورئیے نے آواز لگائی
“او راجہ ، گونگلو اندر بیٹھ کے چھیلا کر ”
مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ نائی نے راجہ کہنے پہ ذرا بھی ناراضی کا اظہار نہیں کیا ۔۔۔۔؟

Advertisements
julia rana solicitors london

راجہ ضرور باہر سے آیا ہوگا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply