• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یہ وقت فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا ہے۔۔منور حیات سرگانہ

یہ وقت فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا ہے۔۔منور حیات سرگانہ

اس وقت بھارتی حکومت شہریت کے ترمیمی قانون کو لے کر اپنے خلاف بڑھتے ہوئے مظاہروں سے اتنی پریشان ہے،کہ اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ باقی نہیں  بچا کہ،پاکستان کے خلاف کوئی محاذ کھول کر اپنے لوگوں کے اضطراب اور غصے کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دے۔

اب اس بات کا پورا امکان موجود ہے،کہ دہشت گردی کا کوئی ڈرامہ رچا کر اسے پاکستان پر حملے کے جواز کے طور پر استعمال کیا جائے۔یا دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کر کے جارحیت کر کے کئی طرح کے فوائد سمیٹنے کی کوشش کی جائے۔

اس بات کا اندازہ بھارتی آرمی چیف کے کچھ دن پہلے کے بیانوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔جس میں اس نے بھارتی فوج کے لائن آف کنٹرول کو پار کر کے کارروائی کرنے کے لئے پوری طرح سے تیار رہنے کی بات کی تھی۔

اس کے بعد پاک فوج کو لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی طرف سے نیوکلیئر میزائلوں کی تنصیب کی معلومات ملیں،جس کے بارے پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کو ایک خط لکھ کر آگاہ بھی کر دیا گیا۔

آج بھارتی فوج کی طرف سے آزاد کشمیر کے علاقوں پر دوبارہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع ہو گیا،جس کی زد میں آ کر دو نو عمر کشمیری لڑکوں کے شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔ہو سکتا ہے،آنے والے دنوں میں اس طرح کی جارحیت میں تیزی لائی جائے،جو کہ بعد میں مکمل جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔

بد قسمتی سے2014 میں بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی انتہا پسند ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے بر سراقتدار آنے کے بعد سے جہاں ایک طرف ہندوستان میں بسنے والے بیس کروڑ مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی۔وہیں  دوسری طرف بھارتی حکومت کےقومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی قیادت میں پاکستان کے خلاف انتہائی سخت اور جارحانہ پالیسی اختیار کی گئی۔
اس پالیسی کے تحت پاکستان کے خلاف بیک وقت کئی محاذ کھولے گئے۔جن میں سفارتی محاذ پر پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کرنے کے لئے پوری شدت سے دہشت گردی کا واویلا مچایا گیا۔اس کام میں بھارتی میڈیا،اور بین الاقوامی میڈیا میں اپنے اثر و رسوخ اور مالی وسائل کو استعمال کیا گیا۔ابھی حال ہی میں یورپی یونین کے ایک ماتحت ادارے نے ایسی 260 سے زائد جعلی ویب سائیٹس کا سراغ لگایا ہے،جنہیں جعلی اور من گھڑت خبروں کے ذریعے سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔

دوسری طرف پاکستان میں سرگرم عمل مذہبی شدت پسند اور علیحدگی پسند قوم پرست عناصر کے ذریعے سے باقاعدہ دہشت گرد کارروائیاں شروع کروائی گئیں۔جن کاثبوت بلوچستان میں سرگرم عمل دہشت گرد نیٹ ورک کے ایک بڑے کردار انڈین نیول آفیسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کی صورت میں دنیا کے سامنے آیا۔تیسری طرف ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی ادارے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کا مرتکب قرار دلوا کر معاشی طور پر اسے دیوار سے لگانے کی کوششیں کی گئیں۔

بد قسمتی سے اس سارے عرصے میں اپنی کمزوریوں کی وجہ سے پاکستان نے دفاعی پوزیشن اختیار کیے رکھی۔بھارتی جتنی شدت سے ہمارے اوپر دہشت گردی کا ٹھپہ لگانے میں جٹے رہے،اس سے دگنی شدت سے وہ ہمارے خلاف عملی طور پر دہشت گردی میں بھی مصروف رہے۔
ہماری کمزوری اور صرف دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی پالیسی نے عملی طور پر ہمیں بھارت کا پنچ بیگ بنا کر رکھ دیا ہے۔
اور اس صورتحال سے مودی حکومت نے بے تحاشہ فوائد سمیٹے ہیں۔ اگرچہ ہمیں سخت ناپسند ہو مگر ،ہماری ناک پر مکہ جڑ کر انہوں نے آسانی سے انتخابات جیت لئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر پر اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر لی ہے،اور کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر ظلم و ستم میں اضافہ کر دیا ہے۔

ہماری صفائیاں دینے کی عادت کہ ہم کشمیر میں مداخلت نہیں کر رہے،حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر کو نظر بند کرنا،ہمارے کسی بھی کام نہیں آ سکے۔
ہماری کمزوری ہی کی وجہ سے آج کشمیریوں پر مسلط بد ترین لاک ڈاون کو 150 دن سے اوپر گزر چکے ہیں۔ان کے بچوں کو مارا جا رہا ہے،ان کی بچیوں کی عزتیں تار تار کی جا رہی ہیں۔ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،ان کے گھر جلائے جا رہے ہیں۔اور ابھی اس جنونی انتہا پسند حکومت کے حوصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔
یاد رکھیے،کمزوری جارحیت کو دعوت دیتی ہے۔

وقت نے یہی ثابت کیا ہے کہ ہماری معذرت خواہانہ پالیسی نے دشمن کے حوصلے بڑھائے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ اس پالیسی پر نظر ثانی کی جائے،ناکہ جوابی مکہ جڑنے کی منصوبہ بندی کی جائے۔بلکہ دشمن کو یہ ڈر ضرور ہو کہ ضرورت پڑنے پر ہم بھی ان پر کاری وار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس وقت بیرونی دنیا میں بھارت کشمیر کے معاملے پر دباؤکا شکار ہے۔داخلی سطح پر CAB. اور NRC. کے   معاملے میں وہ انتشار کا شکار ہے،اور اسے اندرونی طور پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ان کالے قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا دائرہ اب سبھی بڑے شہروں تک پھیلتا جا رہا ہے۔معاشی میدان میں ان کی معیشت شدید سُست روی کا شکار ہے،اور تقریباً ایک دہائی کی تیز رفتار شرح ترقی کے بعد ان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 5۔4%تک گر چکی ہے۔اگر ہم معاشی بدحالی اور قرضوں کے گرداب میں دھنسے ہوئے ہیں،تو ان کی حالت بھی اتنی قابل رشک نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس بار اگر وہ پھر پرانا حربہ اختیار کر کے اپنے لوگوں کے غصے اور بے چینی کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کے لئے کوئی مہم جوئی کریں،تو اس کا جواب پوری قوت سے دیا جانا چاہیے۔روز روز کے مرنے سے ایک بار کا مرنا ہی بہتر ہے۔
اور اس نازک وقت میں جب دشمن پوری طرح سے ہم پر جنگ مسلط کرنے کی تیاری کر چکا ہے،ہمارے ہاں جنرل پرویز مشرف کے خلاف آنے والے سزائے موت کے عدالتی فیصلے پر بے مقصد بحث و مباحثہ جاری ہے،جس میں بعض حلقے اکثر اوقات فوج کے ادارے کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔یاد رکھیں اس وقت اگر کوئی منظم ادارہ اس ملک میں باقی بچا ہے،تو وہ افواج پاکستان کا ہے،جو دشمن کی آنکھ میں بھی کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔کہیں ہم نادانستگی میں دشمن کے ہاتھ مضبوط تو نہیں کر رہے،جبکہ یہ وقت فوج کے ہاتھ مضبوط کرنے اور اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا ہے۔

Facebook Comments

منور حیات
ملتان میں رہائش ہے،مختلف سماجی اور دیگر موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply