“ہومر” قریب 8 قبل مسیح/مبشر حسن

کئی صدیوں تک ہو مر کی نظموں کے اصل مصنف کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ یعنی یہ کہ کب کہاں کیسے یہ نظمیں ایلیڈ اور اوڈیسی لکھی گئی ہیں؟ کس حد تک ان کا انحصار پہلے سے موجود مختصر نظموں پر رہا؟ کیا ایلیڈ اور اوڈیسی کسی ایک ہی شخص نے لکھی یا دو افراد نے ایک ایک نظم لکھی؟ ہو سکتا ہے کہ ہومر نام کا کوئی شخص نہ ہو؟ اور یہ کہ دونوں نظمیں آہستہ روی سے متشکل ہوئی ہوں یا پھر مختلف شاعروں کی متعدد نظموں کو ملا کر یہ دو نظمیں بنی ہوں؟ علماء نے سالہا سال ان مسائل پر تحقیق کی ہے اور باہم متفق نہیں ہیں۔ آخر ایک شخص جو کلاسیکی ادب کا عالم نہیں ہے، کیسے یہ جان سکتا ہے کہ ان
سوالات کے کیا جوابات ہیں۔ ان سوالات کے جوابات کےلیے درج ذیل مفروضات قائم کیے جاتے ہیں
پہلا مفروضہ ہے کہ واقعتاً ایلیڈ کا اصل مصنف ایک ہی ہے۔ (صاف طور پر یہ بات اس مفروضے سے بدرجہا بہتر ہے کہ ایک مجلسِ شعراء کو فرض کیا جائے)۔ ہومر سے پہلے ایک ہی موضوع پر خود کار نظمیں لکھی گئیں جنہیں مختلف یونانی شعراء نے تحریر کیا ہومر نے ان کے کام سے بہت کچھ مستعار لیا۔ لیکن ہومر نے ایلیڈ کو متشکل کرنے کے لیے فقط پہلے سے موجود نظموں کو جمع ہی نہیں کیا۔ اس نے ان کا انتخاب، انتظام و انصرام کیا۔ انہیں دوبارہ لکھا اور ان میں اضافے کیے اور آخری صورت دیتے ہوئے اس نظم میں اپنا نایاب جوہر داخل کر دیا۔
جس ہومر نے یہ ادبی شہ پارہ تخلیق کیا وہ غالباً آٹھویں صدی قبل مسیح میں موجود تھا حالانکہ اس حوالے سے متعدد دیگر تواریخ جو عموماً قدیم ہیں۔ میں یہ مفروضہ بھی قائم کیا ہے کہ یہی اس اوڈیسی کا بھی مصنف ہے۔ اگرچہ یہ دلیل دی گئی (جو دونوں کے اسلوبیاتی اختلاف پر مبنی ہے ) کہ دونوں نظمیں دو مختلف افراد نے تخلیق کیں، یہ دلیل با وزن ہے مجموعی طور پر
اس دونوں نظموں میں موجود مماثلتیں ان کے اختلافات سے بہت کم ہیں۔ تاریخ میں ہمیں ہومر کے متعلق بہت کم معلومات حاصل ہیں۔ بلاشبہ اس سے متعلق سوانحی کوائف موجود نہیں ہیں۔ ایک مضبوط قدیم حکایت کے مطابق، جس کا تعلق قدیم یونان سے ہے، ہومر اندھا تھا۔ تاہم ان دونوں نظموں میں موجود حیران کن بھری تخیلات ظاہر کرتے ہیں کہ اگر چہ ہومر اندھا تھا لیکن وہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ نظموں کی زبان سے معلوم ہو تا ہے کہ ہومر کا تعلق “آمونیا” سے تھا۔ یہ ایجئین سمندر کے مشرقی ساحل پر واقعہ ایک علاقہ ہے۔ اگرچہ یہ ماننا دشوار ہے کہ ایسی طویل اور محتاط انداز میں مرتب کی گئی نظمیں لکھے بغیر تخلیق ہو سکتی ہیں۔ تاہم بیشتر علماء اس امر پر متفق ہیں کہ وہ بنیادی طور پر اور غالباً مکمل طور پر زبانی طور پر تخلیق ہوئی۔ یہ بات البتہ معلوم نہیں ہے کہ پہلی بار یہ نظمیں کب ضابطہ تحریر میں لائی گئیں۔ اس کی طوالت کے پیش نظر (یہ قریب اٹھائیس ہزار اشعار پر مشتمل ہیں یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ ان کی حقیقی تخلیق کے تھوڑا ہی عرصہ بعد مناسب درستی کے ساتھ دوسرے کو منتقل کیا جانا ممکن تھا۔ بہر کیف چھٹی صدی قبل مسیح تک یہ دونوں نظمیں عظیم کلاسیکی ادب میں شمار کی جانے لگی تھیں جبکہہومر کے متعلق سوانحی کوائف کھو چکے تھے۔ بعد ازاں یونانیوں نے اوڈیسی اور ایلیڈ کو اپنی قوم کا عظیم ادبی شہ پارہ قرار دیا ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تمام درمیانی صدیوں میں
اور ان تمام ادبی تبدیلیوں کے باوجود جو بعد کے ادب میں ظاہر ہوئیں ہومر کی مقبولیت میں فرق نہ آیا۔ اگرچہ اس کی
نظموں کو سکولوں میں اکثر پڑھایا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں نسبتاً کم لوگ ہی سکول یا کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسے دوبارہ پڑھنے کی خواہش محسوس کرتے ہیں۔
شیکسپئر سے ، جس کی نظمیں اور ڈرامے پڑھے اور ڈراموں کو اکثر و بیشتر سٹیج پر پیش کیا جاتا ہے، ہومر کا موازنہ دلچسپ ہے۔ ہومر کو ویسی مقبولیت حاصل نہیں رہی۔ اگر چہ ہومر کے مقولے بارلٹ کی تحریروں میں بکثرت موجود ہیں، لیکن آج عام بول چال میں شاذ ہی وہ سننے میں آتے ہیں۔ یہ شیکسپیئر کے حوالے سے ایک اہم نقطہ ہے اور یہاں اس کا موازنہ بنجمن فرینکلن اور عمر خیام جیسے مصنفین سے بھی بنتا ہے۔ اس کا ایک مقبول عام فقرہ یہ ہے “ایک ” پینی پس انداز کرنے کا مطلب ہے کہ ایک ” پینی” کی آمدنی ہوئی۔ اس کے انسانی کردار اور سیاسی رویوں اور فیصلوں پر اثرات پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر مر کا کوئی مصرع آج مقبول نہیں ہے۔
یونان میں عوام الناس بھی اس کی تحریروں سے واقف تھی۔ انہوں نے ایک طویل عرصہ مذہبی اور اخلاقی رویوں کو متاثر کیا۔ اوڈیسی اور ایلیڈ نہ صرف ادبی دانشوروں میں بلکہ فوجی اور سیاسی رہنماؤں میں مقبول تھیں۔ متعدد قدیم رومی قائدین نے ہومر کے حوالے دیے سکندر اعظم تو ایلیڈ کی ایک جلد مہمات کے دوران اپنے پاس رکھتا تھا۔
آج بھی چند لوگ ہومر کو پسند کرتے ہیں جبکہ ہم میں سے بیشتر نے اس کی تحریروں کو سکول کے زمانے میں پڑھا تھا۔
لیکن اس سے زیادہ اہم بات ہومر کے ادب پر اثرات ہیں ، تمام کلاسیکی یونانی شاعر اور ڈرامہ نگار ہومر سے بہت متاثر تھے۔ سوفوکلیز یوریپائیڈس اور ارسطو ( یہ فقط چند نام ہیں) ہومر کی روایت ہی کے آدمی تھے۔ سبھی نے ادبی وقار کے اپنے نظریات ہومر ہی سے اخذ کیے ہیں۔ ہومر نے قدیم رومی مصنفین پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ سبھی نے اس کی شاعری کو عظمت کا معیار قرار دیا۔ رومی مصنفین میں سے عظیم ترین ورجل نے اپنا شہ پاره “Acncid” تحریر کیا تو اس نے ایلیڈ اور اوڈیسی کے نمونہ پر اسے ترتیب دیا۔
حتی کہ جدید دور میں بھی تمام اہم مصنفین یا تو ہومر سے متاثر رہے یا ورجل یا سوفوکلینر جیسے مصنفین کے اثر تَلے رہے جو خود ہومر سے متاثر تھے۔ تاریخ میں کسی دو سرے مصنف کے اثرات اس قدر دور رس اور ہمہ گیر نہیں ہیں۔ آخری بات غالباً سب سے اہم ہے۔ یہ ممکن ہے کہ گزشتہ سو برسوں میں ہومر کی نسبت ٹالسٹائی کو زیادہ کثرت سے پڑھا گیا ہو، لیکن پہلی صدیوں میں ٹالسٹائی کے اثرات ناپید تھے، جبکہ ہومر کے اثرات کی عمر تو دو ہزار سات سو سال سے بھی زیادہ ہے۔ یہ واقعی ایک طویل مدت ہے۔ اس مثال کا ثانی ہمیں دیگر ادبی شخصیات یا کسی بھی انسانی کاوش کے میدان میں کسی شخصیت میں دکھائی نہیں دیتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply