شعور کی ستمگری/شاکر ظہیر

بنگال پریوں جگنوؤں کا دیس ، ندیوں ، دریاؤں کا دیس جِن میں آتی طغیانی جہاں تباہی لے کر آتی وہاں خوشحالی اور حوصلہ بھی کہ لوگ ان طغیانیوں کے بعد دوبارہ تعمیر میں جُٹ جاتے جس کےلیے انہیں اپنے حوصلے قائم رکھنے پڑتے ۔ یہ علاقہ اپنی ایک ثقافت ، تہذیب ، زبان رکھنے والا خطہ اور یہاں کے باسیوں کو اس پر فخر تھا ۔ فخر کیوں نہ ہو ادب کا نوبل انعام پانے والے ٹیگور بنگال ہی کے تھے ۔ یہاں کے ادب ، شعور نے صدیوں کا سفر طے  کیا ۔ بُدھ بھکشوؤں کے فلسفیانہ مباحث سے لے کر ، رابندر ٹیگور تک صدیوں کا سفر ۔ اس صدیوں کے سفر نے یہاں کے باسیوں کو معاملات کو نئے نئے زاویوں سے دیکھنے کا ذوق دیا ۔

جدید تعلیم میں بھی بنگال بہت آگے تھا جس کے تعلقات پہلے فرانس کے ساتھ بھی تھے ۔ دوسری تہذیبوں کے ساتھ تعلقات نئے افکار ، نظریات بھی ساتھ لے کر آئے ۔ بنگال پر قبضہ انگریز کی شدید ضرورت تھی ۔

بنگال کے معاشی حالات کمپنی کی حکومت سے پہلے بہت اعلیٰ تھے ۔ برصغیر کی اقتصادیات میں اس کا بہت بڑا حصّہ تھا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ یورپ کی قومیں آپس میں لڑ ہی اس بات پر رہی تھیں کہ ہندوستان کی تجارت اور اس کے تجارتی راستوں پر قبضہ کس کا ہوگا ۔
یہ علاقہ بہت سی تحریکوں کا مرکز رہا ہے جس کی وجہ اس کا سیاسی شعور ہے ۔ یہ تہذیب و تمدن اور علم کا گہوارا تھا ۔ کمپنی کی حکومت کے دوران اس کی اقتصادی بدحالی اور اعلیٰ  تعلیم یافتہ لوگوں نے عوام کو شعور دیا ۔ مارکسی فلسفے کو قبول کرنے میں کمپنی کی لوٹ کھسوٹ اور عوام میں اس کے ردِعمل کا بہت بڑا ہاتھ تھا ۔ اس میں ہندو ، مسلمان ، مسیحی کا کوئی فرق نہیں تھا ۔

تقسیمِ برصغیر نے جو اُمید کی کرن اس باشعور عوام میں جگائی کہ اب وہ خود حکمرانی کریں گے ، وہ کرن مارشل لاء نے بجھا دی ۔ انہیں یہ یقین ہو گیا کہ ابھی ان کی جدوجہد اور قربانیاں مانگ رہی ہے ۔ وہ خود کو ایک کمپنی کی حکومت سے نکل کر دوسری کمپنی کی حکومت میں دیکھ رہے تھے ۔

سیاسی شعور رکھنے والے بنگال کے لوگ برصغیر کی تقسیم کو اصل مسئلہ کا حل نہیں سمجھتے تھے ۔ وہ اپنے شاندار اور خوشحال ماضی سے بھی پوری طرح آگاہ تھے اور اس خوشحالی کو بدحالی سے بدل جانے کی وجہ سے بھی آگاہ تھے ۔ ” ہمارے بنگال کی ڈھاکہ کی مسجدیں ، قلعے ، پرانے محلات ، ہماری مصنوعات ، ہماری سنگیت اور سنگ تراشی ، یہ سب اس سنہرے ، رومانی ماضی کی یادگار ہیں ۔ لیکن اسی ڈھاکہ شہر کا موجودہ فرقہ ورانہ کھچاؤ اور افلاس برطانوی کولونیلزم کا ثبوت ہیں ۔ جس دھرتی پر کھانے کو کم ملے گا وہاں فرقہ ورانہ کشمکش ناگریز ہے کہ سب ایک دوسرے کے منہ سے روٹی چھین کر اپنے پیٹ کی آگ بجھانا چاہتے ہیں ۔ یہ جنگل کا قانون ہے ۔ برطانوی نظام ایک ایسی دوکان ہے جس کے سامنے کھڑے ہوئے قطار اندر قطار مختلف ہندوستانی فرقے اپنے اپنے کشکول سنبھالے ، جھولیاں پھیلائے ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے بڑھنا چاہ رہے ہیں اور سر پھٹول میں مصروف ہیں ۔ اور یہ بھوکے فرسڑیٹڈ ابنارمل عوام آپس میں فساد کرکے ملک کی قامت کا آج کل فیصلہ کروا رہے ہیں ۔

مغربی پاکستان کی اشرافیہ اس شعور سے واقف بھی تھی اور دوسرے مشرقی پاکستان کے عوام اس نئی کمپنی کی حکومت کے استبداد کو برداشت کرنے کے لیے  تیار بھی نہیں تھے ۔ 1971 کا سانحہ کوئی ایک دن کی بات نہیں ۔ صاف لفظوں میں کہا جائے تو ایک پڑھی لکھی باشعور اکثریت نے اس شعور دشمن اشرافیہ سے جان چھڑائی ۔ اور اس باشعور عوام کی مخالفت کرنے والوں میں بندوق والے ، جاگیردار اور ان کا ساتھ دینے والے مذہبی رہنما سارے شامل تھے ۔ سازش سازش کی رَٹ لگا کر اپنے آپ کو بری  الذّمہ قرار دینا ہمارا قومی نعرہ رہا ہے ۔

یہ نظریات ایک سراب ہی ہیں جن کے پیچھے یہ انسان بھاگتا رہتا ہے لیکن سب سے بڑا  قوی نظریہ بھوک ہے یہ انسان کو وہاں لے جاتی ہے کہ بس وہ خود سے اپنی زمین ، اپنی تہذیب ، مذہب ، روایات سب سے  کٹ جاتا ہے  اور آخر ایک کٹی پتنگ کی مانند جہاں ہَوا لے جاتی ہے چلتا جاتا ہے ۔ پھر یہ سب نظریات بس افسانوں یا خوابوں ہی میں ملتے ہیں ۔ ماضی کبھی پلٹ کر نہیں آتا اور ہم اس کے سراب سے نکلنے کےلیے کبھی آمادہ نہیں ہوتے ۔ لیکن جہاں صدیاں لگتی ہیں کسی مٹی کو اپنا بنانے میں وہاں بھوک یہ صدیوں میں بنا رشتہ لمحوں میں توڑ دیتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر ان سب کےلیے جو اپنی مٹی کو چھوڑ دیتے ہیں پھر دیارِ غیر کی مٹی کم اَزکم ان کےلیے غیر ہی رہتی ہے اور قبول کرنے کےلیے آئندہ نسلوں کی قربانی مانگتی ہے ۔ یہ المیہ آج بھی موجود ہے کہ ان لوگوں کی پہلی  نسل دوسری نسل کے سامنے آنے کے بعد صرف کُڑھتی  ہے ، اس ماضی کو واپس لانے کی خواہش کرتے ہیں جو کبھی واپس نہیں آتا ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply