حبیب جالب ۔۔۔ شاعر انقلاب

حبیب جالب کا سب سے نمایاں کارنامہ ہر دور کی آمریت کے خلاف آواز بلند کرنا ہے ۔ وہ ایک انقلابی شاعر تھے ۔1958ء میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا ،1962ء میں اسی ایوبی آمریت نےنام نہاد دستور پیش کیا جس پر جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم “دستور” کہی جس نے عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگا دی ،

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا

1970ء کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکژیتی پارٹی کو منتقل نہیں کیا اور اس کے جواب میں ان پر گولیاں برسایئں اس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کر رہا تھااس وقت یہ جالب صاحب ہی تھے جو کہے رہے تھے؛

“محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو ”

1974ء میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسند اقتدار پر پہنچے تھے ان سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کردیا،اسی دور میں جالب صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی:

“قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو”

ضیاء الحق کے مارشل لا میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاءالحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں تو کہا :

“ظلمت کو ضیا ء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا”
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر دیوار کو در کرگس کو ہما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہل حشم یہ دارا و جم سب نقش بر آب ہیں اے ہم دم
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب اے اہل وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری کی ہم نے ہی انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
ہر شام یہاں شام ویراں آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے وہ شہر دل برباد کہاں
صحرا کو چمن بن کر گلشن بادل کو ردا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فن کارو ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

ضیاءالحق کے آمرانہ ہتھکنڈوں پر مبنی ریفرنڈم کے موقع پر بھی حبیب جالب نے ایک نمایاں احتجاج کیا اور اپنی نظم “ریفرنڈم ” لکھی ۔

شہر میں ہو کا عالم تھا
جن تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ
باہر شور بہت کم تھا
کچھ با ریش سے چہرے تھے
اور ایمان کا ماتم تھا
مرحومین شریک ہوئے
سچائی کا چہلم تھا
دن انیس دسمبر کا
بے معنی بے ہنگم تھا
یا وعدہ تھا حاکم کا
یا اخباری کالم تھا

آمریت کے بعد جب پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت آیا اور عوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا:

“وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے”

امید نو کی بات کرتے ہوئے جناب جالب کے قلم سے ایک بہت دلفریب اور انقلابی نظم سامنے آئی

“شہر ظلمات کو ثبات نہیں ”

اے نظام کہن کے فرزندو
اے شب تار کے جگر بندو
یہ شب تار جاوداں تو نہیں
یہ شب تار جانے والی ہے
تا بہ کے تیرگی کے افسانے
صبح نو مسکرانے والی ہے
اے شب تار کے جگر گوشو
اے سحر دشمنو ستم گوشو
صبح کا آفتاب چمکے گا
ٹوٹ جائے گا جہل کا جادو
پھیل جائے گی ان دیاروں میں
علم و دانش کی روشنی ہر سو
اے شب تار کے نگہبانو
شمع عہد زیاں کے پروانو
شہر ظلمات کے ثنا خوانو
شہر ظلمات کو ثبات نہیں
اور کچھ دیر صبح پر ہنس لو
اور کچھ دیر کوئی بات نہیں

اس طرح سے وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ آمریت کے خلاف ایک توانا آواز کی صورت زندہ رہے ۔حکومتی ایوانوں اور وزیروں مشیروں کی لوٹ مار اور عوامی وسائل پر غاصبانہ قبضے کے خلاف بھی وہ چپ نہ رہے اور بڑے طمطراق سے اپنی نظم “یہ وزیران کرام” لکھی اور عوام کو بھرپور طریقے سے جگانے کی کوشش کی ۔

یہ وزیرانِ کرام

کوئ ممنونِ فرنگی، کوئ ڈالر کا غلام
دھڑکنیں محکوم ان کی لب پہ آزادی کا نام
ان کو کیا معلوم کس حالت میں رہتے ہیں عوام
یہ وزیرانِ کرام
ان کو فرصت ہے بہت اونچے امیروں کے لیے
ان کے ٹیلیفون قائم ہیں سفیروں کے لیے
وقت ان کے پاس کب ہے ہم فقیروں کے لیے
چھو نہیں سکتے انہیں ہم ان کا اونچا ہے مقام
یہ وزیرانِ کرام
صبح چائے ہے یہاں تو شام کھانا ہے وہاں
کیوں نہ ہوں مغرور چلتی ہے میاں ان کی دکاں
جب یہ چاہیں ریڈیو پر جھاڑ سکتے ہیں بیاں
ہم ہیں پیدل، کار پر یہ کس طرح ہوں ہمکلام
یہ وزیرانِ کرام
قوم کی خاطر اسمبلی میں یہ مر جاتے بھی ہیں
قوتِ بازو سے اپنی بات منواتے بھی ہیں
گالیاں دیتے بھی ہیں اور گالیاں کھاتے بھی ہیں
یہ وطن کے آبرو ہیں کیجیے ان کو سلام
یہ وزیرانِ کرام
ان کی محبوبہ وزارت، داشتائیں کرسیاں
جان جاتی ہے تو جائے پر نہ جائیں کرسیاں
دیکھیے یہ کب تلک یوں ہی چلائیں کرسیاں
عارضی ان کی حکومت عارضی ان کا قیام
یہ وزیرانِ کرام

Advertisements
julia rana solicitors london

الغرض حبیب جالب کی سیاسی شاعری آج بھی عام آدمی کو ظلم کے خلاف بے باک آواز اٹھانے کا سبق دیتی ہے۔ حبیب جالب کی پوری زندگی فقیری میں گذری ۔ اپنی زندگی میں حکومتی مخالفتوں کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت کا بھی ایک جم غفیر ان کے ساتھ تھا ۔ جن میں ہر شعبۂ زندگی کے لوگ شامل تھے ۔ جن سے آپ کسی نہ کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر انہوں نے ایک معمولی سا فائدہ نہ اپنی ذات کے لیے اٹھایا اور نہ اپنے اہل خانہ کو کچھ حاصل کرنے دیا ۔

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply