میں تو چلی چین/شی آن، شاہراہ ریشم اور مسلم کواٹر (قسط12-الف) -سلمیٰ اعوان

تو اب شی آن کی طرف رواں دواں تھے۔جی ہاں۔چینی قوم اور اس کی تہذیب کی جنم بھومی کی جانب۔ مگرمیرے لیئے کشش کا سبب نہ تو اس کی چھ ہزار سال پُرانی تاریخ تھی۔ اور نہ ہی اس کا سینکڑوں سال کم و بیش تیرہ سلطنتوں کا پایۂ تخت رہنا ۔ٹیرا کوٹا میوزیمTerracottaشی آن چھوڑ چین کا لینڈ مارک ہو۔گریٹ سٹی وال،وائلڈ گوز پگوڈا، بیل ٹاور اورمعلق گرم چشمے جیسی خوب صورت قابلِ دید جگہیں پڑی ہوں۔ مجھے کیا؟
مجھے تو جانا تھا، اپنے پیا دیس، اپنے مسلم کواٹر میں۔سجدہ دینا تھا اس کی مسجد میں، ملنا تھا وہاں کی مسلم خواتین سے ، کچھ دل کی باتیں کرنی تھیں اُن سے۔ زبان کا مسئلہ آڑے آنا تھا مگر جب نیتوں میں خلوص ہو تو راستے نکل ہی آتے ہیں۔ سنکیانگ جانا تو شاید نصیب میں نہ ہو۔
ٹیکسی فراٹے بھر رہی ہے۔میں باہر دیکھتے ہوئے صفائی ستھرائی کے معیار دیکھتی ہوں ۔ حسرت سے فٹ پاتھوں کے پہلوؤں میں کھڑے درختوں کو دیکھتی ہوں کہ کہیں زمین پر بکھرا کوئی پتہ نظر آجائے۔ وائے ناکامی۔اللہ جانے درختوں کو اتنا شعور دے دیا گیا ہے کہ انہیں خود کو شوریدہ سر ہواؤں سے سنبھال کر رکھنا ہے یا پھر صفائی کرنے والے اتنے مستعد ہیں کہ وہ بس گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ کہیں کوئی پتہ گرا اور انہوں نے دبوچا۔
ایک وسیع و عریض میدان کے وسط میں مستطیل نما عمارت کے گلیارے سے اس قلعہ شہر کے اندر داخل ہونا جس کے اُوپر سہ منزلہ رنگیلا سجیلا جھلکیاں مارتا پکوڈا دیکھنا اور اُسے یہ کہتے ہوئے سننا۔
ــ‘‘ ارے شاہراہ ریشم یہیں سے تو شروع ہوتی تھی۔پُرانے وقتوں کے لوگ بھی تجارت ، تعلیم اور میل ملاپ کی ضرورت اور اہمیت سے آگاہ تھے ۔ کچھ لوگ سارا کریڈٹ آج کے لوگوں کو ہی دیتے ہیں۔ارے بھئی اپنے حسابوں وہ بھی بڑے با شعور تھے۔’’
پرانے پرشیا (آج کا ایران)،عرب دنیا اور وسط ایشیا کے لوگ اپنے بچوں کو علم کے حصول کے لیے بھی اس قدیم شہر میں بھیجتے تھے۔جیسے تم لوگوں کے بچے آج کل یورپ جاتے ہیں۔
‘‘تم مجھے یہ سب کیوں سُنا رہے ہو؟تمہارا خیال ہے میں شاہراہ ریشم کی اہمیت سے آگاہ نہیں۔ارے مجھ سے زیادہ کون اس کے عشق میں مبتلا ہوگا۔ اورہاں تمہاری تالیف قلب کے لیئے اب ہمارے بچوں نے بھی تمہاری جنم بھومی میں علم حاصل کرنے آنا شروع کردیا ہے ۔اور دیکھو میرے تو نبیؐ کا فرمان ہے کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔’’
‘‘غصّہ کیوں کرتی ہو۔آج کے لوگ اس عظیم شاہراہ بارے کچھ نہیں جانتے کہ صدیوں پہلے اس نے کیسے مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا کے ذریعے مشرق اور مغرب کو ملایا ہوا تھا۔ اور ہاں کیا نہیں چاہو گی کہ کچھ تھوڑا اس کے بارے بھی جانو جس کا یہ خیال تھی، جس نے اِسے بنایا۔چند لمحوں کے لیے انہیں بھی یاد کرلو۔خراج تحسین پیش کردو۔یہ بھی عظمت ہے کہ انہیں محبت سے یاد کیا جائے جنہوں نے انسانی فلاح کے لیے کچھ کیا ہو۔
‘‘ضرورضرور ۔منتظر ہوں۔’’
دو سہرے باندھنے ہیں۔پہلا ہان خاندان کے سر پر جس نے صدیوں پہلے یعنی کوئی اکیس سو سال قبل مسیح اپنا ایک ایلچی وسط ایشیا میں دو بار امن دوستی اور تجارت کے مشن پر بھیجا۔
دوسرا سہرا اس عظیم بادشاہ کے سر بندھتا ہے جو کہیں 138قبل مسیح کا حکمران تھا اور جس کا نام ژانگ چھیان Zhang Qian تھا۔بڑا دلیر،جی دار اورکچھ کر گزرنے والا بادشاہ ۔وسط ایشیا کے لوگوں سے میل جول اور تجارتی تعلقات بڑھانے کا شدید خواہش مند تھا۔ ایسا جیالا تھا کہ کِسی وزیر ،مشیر یا سفیر یا ایلچی کو بھیجنے کی بجائے خود ہی کوسوں میل کا سفر طے کرکے ایک بڑے قبیلے کے پاس جاپہنچا۔انہوں نے دشمن جان کر قید میں ڈال دیا۔کئی سال قید میں رکھا ۔ بیگار لی۔پھر آزاد کردیا۔
اپنی بادشاہت میں واپس آنے کے بعد اُس نے اپنے درباریوں کو اُس دُنیا کے عجیب و غریب قصے سُنائے۔اُن خوبصورت گھوڑوں کا ذکر کیا۔جن کو وہ ر شک سے دیکھتا تھا۔ عرب شہہ سواروں اور اُن کی دلیری و وجاہت کی کہانیوں نے درباریوں کو بھی اُکسایا کہ وہ اُن سے میل جول شروع کریں۔گھوڑے خریدیں ۔بعد میں تو پھر لام ڈور شروع ہوگئی۔سکندراعظم کو بھی قرار نہ تھا۔ رومنوں کو بھی دنیا پر چھا جانے کی بڑی تمنا تھی۔ علاقے فتح کرنے ، ان پر قبضہ گری ،لوٹ مار کے بازار گرم کرنے اور قتل و غارت کے سلسلے بھی اسی کے ذریعے ہوئے۔یہ بھی ایک منفی اثر ہوا۔مگر اِس منفی اثر کے تعاقب میں مثبت پہلو کتنے زیادہ تھے۔ان کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔
قازقستان کا تو بہت نمایاں کردار ہے اِس شاہراہ کے لیے۔الماتے تو عین شاہراہ پر ہی واقع ہے۔اور جانتی ہو۔الماتے کا چین کی جنگ آزادی کے لیے کتنا بڑا کردار ہے۔1941 میں چین حب الوطنی کی عظیم جنگ لڑرہا تھا۔ایک مشہور چینی موسیقار شیان شینگ حائی الماتے پہنچ گیا۔غربت ،بے کاری اور جنگ کا ستایا ہوا۔وہ قازق موسیقار بخت شان بے کراحوف سے کہیں ملا۔جو اُسے اپنے گھر لے گیا۔اس کی ہر طرح دیکھ بھال کی۔یہاں الماتے میں اُس نے مشہور شہ پارے قوم کی آزادی، مقدس جنگ، اور پورا دریا سرخ ہو جیسے نغموں کی دھنیں بنائیں۔اِن نغمات نے لوگوں کو فاشزم کے خلاف مل کر جدوجہد کرنے پر اکسایا۔ایک امنگ اور حوصلہ دیا اور انہوں نے جنگ جیتی۔آج چین جہاں کھڑا ہے اس میں شینگ حائی کے ساتھ قازقستان کا بھی حصّہ ہے۔
سیاہی میں لت پت شفاف سڑکیں ، ان پر چلتی سرخ بیر بہوٹی کے رنگ کی ڈبل ڈیکر بسیں ،نئی گاڑیاں،کاریں،ٹیکسیاں پشت پر غرور وتکبر سے کھڑی بلند وبالا خوبصورت عمارتیں جو چیخ چیخ کر چین کے دُنیا پہ چھا جانے کی خبر دیتی تھیں۔نکھرے ستھرے تکونی آنکھوں والے مرد و عورتیں ،نوجوان لڑکیاں لڑکے سب گویا ایک سیلِ رواں میں بہتے چلے جا رہے تھے۔ ایک بج رہا تھا۔دھوپ کے بانکپن پر ابھی بھی وہی شوخی اور تیزی تھی۔دلکشی اور خوبصورتی عین اپنے عروج پر تھی۔سارا ماحول میٹھے سے سرور میں ڈوبا لگتا تھا۔
وسیع و عریض پختہ ، خوبصورت اور جابجا سنگی بینچوں سے سجے میدان کے سامنے اُترے۔مسلم کواٹر کا علاقہ ۔چند لمحوں کے لیئے ایک بینچ پر بیٹھ کر ہواؤں کی خنکی و تیزی سے لطف اٹھایا۔ اردگردبکھرے سبزے کی دلکشی اور حسن سے آنکھوں کو سیراب کیا۔گردوپیش کے انتہائی پُر کشش سجے سنورے چہرے کو لُطف و انبساط سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ اُوپر والے سے بھی نگاہیں چار کیں۔
‘‘اف میں یہاں ہوں۔احسان ہے نا تیرا۔’’
بیل ٹاور بھی سامنے نظر آتا تھا۔ اس کی شان بھی نرالی سی تھی ۔رنگوں میں سرتاپا لتھڑا ہوا۔ شی آن کی مرکزی جگہ کا لینڈ مارک جیسے فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ہو۔ اس کے پاس ہی بس ایک چھلانگ پرے ڈرم ٹاور بھی ہے۔
دونوں کی تاریخ بھی کس مزے کی ہے۔بنے تو دونوں وہی منگ سلطنت کے زمانوں میں ہی ہیں۔ پر دونوں کا کام کاج بڑا مزے کا تھا۔صبح سویرے لوگوں کو جگانے کا کام ہمارے ہاں کے مرغوں کی طرح بیل ٹاور سے لیا جاتا اور رات ہونے پر ڈرم پیٹا جاتا کہ اچھے چینی بچو چلو اب جاؤ اور سو جاؤ کہ سویرے تڑکے اُٹھنا ہے۔
یہ شی آن کی مرکزی جگہ تھی اور ہوٹل قریب ہی تھا ۔بھوک کچھ اتنی زیادہ نہ تھی۔ بہتیری منہ ماری ہوتی رہی تھی ۔مگر نیت میں فتور تھا۔ پیٹ میں جب تک نان ٹائپ اناج نہ جائے ہم گنواروں کو صدق ہی نہیں آتا۔مگر اس سے بھی پہلے مسجدجاکر سجدہ دینا تھا۔جو روٹی سے بھی زیادہ اہم تھا۔ہم بنجاروں کے پاس سامان کہاں تھا؟سوچا ظہرکو کھونا حماقت ہے۔ پس مسلم کواٹر میں دوڑتے بھاگتے داخل ہوئے۔
دو رویہ سجا بازار بڑا رنگیلا سا تھا ۔بازار خواہ بڑے ملکوں کے ہوں۔بڑے یا چھوٹے شہروں کے ہوں۔ چھوٹے ملکوں کے بڑے اور چھوٹے شہروں کے ہوں ہمیشہ رنگین ہی ہوتے ہیں۔بس کہیں ماڈرن ازم اور کہیں جٹکے پن کے تڑکوں کی رنگینیوں سے اپنے آپ کو نمایاں کرتے ہیں۔سچی بات ہے یہ ایسی رنگ رنگیلی دُنیا تھی کہ جہاں کان پڑی آواز سُنائی نہ دے۔ ہاکروں کی زور دار آوازیں اور کھینچا تانی کی سر گرم کوششیں اپنے عروج پر تھیں۔
دو پھینی لڑکیوں نے روکا کہ اُن کی دکان میں آکر خریداری کریں تو انہیں ہاتھ کانوں تک لے جاکر نماز کا تمثیلی اشارہ دیا کہ فارغ ہو کر آتے ہیں۔ہونٹوں کی براچھیں گالوں تک پھاڑ کر تکونی آنکھوں میں ہنسی بکھیر کر انہوں نے فوراً فوراً ہاتھوں سے گلی کے موڑ کی طرف اشارے دیئے۔
‘‘یہی غالباً بنیامن سٹریٹ ہے۔’’خود سے کہتی ہوں۔اب رک کر پوچھنے کا وقت نہیں چلو چھوڑو یہ نہ ہوگی تو کوئی اگلی پچھلی ہوگی ۔کتابچے میں جب یہ نام پڑھا تھا تو بڑی پرانی شناسائی نے آواز دی تھی۔ حضرت یوسف کا دلارا پیارا بھائی بنیامین ۔معصوم ساجس پر چوری کا الزام لگا کر شاہ مصر نے اپنے پاس رکھ لیا تھا ۔مولوی غلام رسول کی یوسف زلیخا کے طویل پنجابی کلام کا یہ حصّہ جسے ہماری اماں بڑے ترنم سے پڑھا کرتی تھیں۔ اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا نام بھی جب اِس بنیامین کے ساتھ جڑا ہوا سُنا تو یاد آیا۔
‘‘ ارے بھئی ان کی تو بڑی گوڑھی رشتے داری ہے اُن سے۔’’
چلتے ہوئے پڑھی ہوئی چیزیں یاد آنے لگی تھیں۔ شہر بھر میں کوئی دس مسجدیں ہیں۔ ماشاء اللہ جان کر دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ہائے کیسی روح افزا سی بات ہے۔ اب شام تک یہیں رہنا ہے۔ چلو پھر عصر اور مغرب دونوں ایک وضو سے بھی ادا ہوجائیں کوشش کرنی ہے۔اتنی ٹھنڈ میں وضو کرنا کون سا آسان کام ہے؟
یہ علاقہ مختلف بیرکوں پر مشتمل ہے اور جہاں کوئی 2000کے قریب لوگ آباد ہیں۔سب سے بڑی اور اہم بات کہ ریاست کی چھتر چھاؤں میں سانس لیتی ہے۔ اور اپنی پور پور میں اس کے روایتی ،اپنی مذہبی نشانیوں اور علامتوں کے ساتھ جیتی ہے۔
بلند و بالا محرابی دروازے سے مسجد کے احاطے میں داخلہ ہوا۔دائیں ہاتھ پھیلے دکانوں کے سلسلے اور بائیں طرف سبز ڈھائی تین فٹ اونچی باڑوں میں گھری جگہ چھوٹے چھوٹے لانوں میں اور راہداریوں میں بٹی ہوئی تھی۔کسی دوسرے ملک کی مسجد میں سجدہ دینے میں ہمیشہ میری جذباتیت تو جیسے عروج پر ہوتی ہے ۔ اسوقت بھی یہی حال تھا۔ہونٹوں پر اس کی واحدانیت کا ورد تھا۔شکریہ تھا اور آنکھیں آوارہ گرد چھوکروں کی طرح گھومتی پھرتی تھیں۔
دوسرے کورٹ یارڈ کی داخلی عمارت کی پیشانی کلمہ طیبہ سے چمک رہی تھی۔ رُک گئی تھی۔میرا اللہ تو واحد ہے اور لا شریک ہے۔کافروں کے دیس میں یہ بات کہنی تو بنتی تھی نا۔ سو کہی اور آگے بڑھی۔ تیسرے کورٹ یارڈ کی گزرگاہ شاہکار تعمیر کے زمرے میں آتی ہے۔چینی فنِ تعمیر کا حُسن اس کے پگوڈا سٹائل شیڈ ،دائیں بائیں جھانکتا سبزہ اور چھدرے درخت ۔یہیں ایک جانب تین منزلہ پگوڈابھی کھڑا تھا ۔اپنے نوکیلے پر پھیلائے قدامت اور پُر اسراریت کا حسن لیئے۔اس نے مجھے اندر جانے پر مجبور کردیا تھا۔سو گئی اُسے دیکھا ، سراہا اور باہر نکلے۔چوتھے صحن میں وسیع و عریض مسجد تھی۔جس میں مینار نہیں تھا۔
تو اب ایک ایسی قدیم ترین عبادت گاہ میں داخل ہونے جا رہی تھی جو اپنے وجود کے ساتھ بڑی ہونے کی بھی دعوے دار ہے۔جس کی تعمیرمیں عرب اور چینی ثقافتوں کا آمیزہ گندھا ہوا ہے ۔جو باہر سے ایک چینی ٹیمپل کا منظر پیش کرتی ہے مگر اندر سے اسلامی خدخال کی عکاس ہے۔ 6000مربع میٹر پر پھیلی یہ چار صحنوں پر مشتمل جس کا ہر صحن، اس کی مختصر عمارت اپنے اندر ایک انفرادیت اور حُسن کی حامل تھی۔ جسمیں تاریخی ٹچ کی خصوصیت بھی تھی۔جنہیں دیکھتے اورجنہیں سراہتے ہم یہاں تک پہنچے تھے۔
باہر کرسی پر بیٹھے سر پر سفید ٹوپی اُوڑھے ایک مولانا ٹائپ بندے نے تعظیم دی اور اپنی خدمات پیش کیں۔مگر مجھے کِسی کی ضرورت نہیں تھی۔جائے وضو تلاش کرنے سے پہلے نماز ہال کو دیکھنا اور اس کے اندر بسی زمانوں کی خوشبو کو سونگھنا ضروری تھا۔اس کی چوبی دیواروں پر قرآنی آیات کی خطاطی سے بھرے من موہنے سے منظر، چوبی خانوں میں بٹی ہوئی چھت، سبز چوبی ستون جن پر عمودی صورت میں اللہ کے نام لکھے ہوئے تھے۔اس کے سُرخ ستون،فرش کی نیلی میٹنگ جن پر بچھے سبز مخمل کے جائے نماز۔محراب کے سامنے پڑے خوبصورت مدھم رنگوں کے قالین۔اس کا سارا ماحول بڑا مسحور کُن تھا اور لُطف کی بات کہ مجھے اُن میں بلتستان کی مسجد چقچن اور شگر کی مسجد والی جھلک محسوس ہوئی تھی۔
اس وقت میری آنکھیں چند لمحوں کے لیئے بند ہوئی تھیں۔مومو میں شکر گزاری کی برقی لہریں دوڑنے لگی تھی۔اِسے دیکھنا مجھے نصیب کیا تو نے۔سچی بات ہے میں اس وقت جیسے ٹرانس میں تھی۔
مولانا کی انگریزی اچھی تھی۔اُن کا کہنا تھا مسجد بنانے کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے۔تاجروں کا ایک گروہ ظہر کی نماز کِسی شاہراہ کنارے پڑھ رہا تھا۔ بادشاہ کی سواری کہیں ادھر سے گزری۔حیرت سے اِس منظر کو دیکھا اور پُوچھا ؟یہ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ جاننے پر مسجد بنانے کا حکم دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply