چور کا بیانیہ کب اور کیوں شروع ہُوا؟/طیبہ ضیاء چیمہ

سیاست اور اخلاقیات کاتو دیوالیہ نکل چکا ہے۔ گالم گلوچ بیہودگی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اب لکھنے کو بالکل من نہیں کرتا مگر فطرت سے مجبور کبھی قلم اٹھا لیتے ہیں۔ سیاست تو اس قدر کیچڑ میں لتھڑی جا چکی ہے کہ عمران خان کی سیاسی پالیسی پر تنقید کریں تو پٹواری بنا دیا جاتا ہے دوسری جماعتوں یا قائدین پر تنقید کریں تو یوتھیا کہلایا جاتا ہے۔ جہاں دلیل نہ ہو وہاں ذلیل کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔

عمران خان کو فقط نظام تبدیلی کے لئے سپورٹ کیا اور خان کو سپورٹ کرنے کی بڑی دلیل پہلی جماعتوں سے بیزارگی تھی۔ اب خان کی نا اہلیوں پر تنقید اس بات کا رنج ہے کہ جس تبدیلی پر تکیہ کیا تھا وہ ہی بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ عمران خان سے برسوں پہلے جب نیویارک ون ٹو ون سیاست پر بات ہوئی توہم نے پوچھا کیا وجہ ہے آپ ٹین پرسنٹ آصف علی زرداری کی کرپشن پر ہاتھ ہولا رکھتے ہیں اور نواز شریف کو رگڑتے رہتے ہیں؟ خان صاحب نے جواب دیا تھا ” طیبہ مجھے بتایا گیا ہے الیکشن جیتنے کے لئے پنجاب جیتنا بہت ضروری ہے اور پنجاب جیتنے کے لئے پنجاب کو نواز شریف سے آزاد کرنا ہوگا اور یہ اسی صورت ممکن ہے اگر نواز شریف کے خلاف کرپشن کا بیانیہ زور پکڑ جائے۔

میں نواز شریف کو زرداری سے بڑا کرپٹ ثابت کروں گا “۔ اور یوں چور کا بیانیہ بنایا گیا۔ زرداری اور خان میں کبھی نہ سیاسی دوریاں تھیں نہ ہیں۔ زرداری نے ہمیشہ ڈبل گیم کھیلی ہے۔ حالیہ سیاست میں بھی زرداری نے بڑی عیاری سے مسلم لیگ ن کے لئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے زرداری کی سیاست نے ثابت کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں بھی رنگ جمائے گی۔ زرداری صاحب بلاول کو وزیر اعظم بنائے بغیر اس دنیا سے جانے والے نہیں۔

عمران خان کی سیاست کا آغاز اچھی نیت سے ہوا تھا مگر انجام عبرتناک ہو رہا ہے۔ تکبر اور جادو ٹونے اس شخص کی سیاست کو زمین بوس کریں گے۔ فوج کی توہین کا جرم بھی کسی صورت قابل معافی نہیں۔ نظام کی تبدیلی کی سیاست کرنے والا اسی فرسودہ نظام کی بیساکھیوں سے اقتدار میں آیا۔ غلیظ نظام میں الیکشن لڑ کر وزیر اعظم بننے والا تبدیلی نظام کیوں کر لا سکتا تھا؟ عمران خان نے بھی نظریہ ضرورت کی سیاست کی۔ بیساکھیوں سے الیکشن جیتا۔ بیساکھیاں چھن گئیں تو کراچی بلدیاتی الیکشن نے اوقات دکھا دی۔ جنرل الیکشن میں بھی بیساکھیوں کے بغیر جادو ٹونا بھی نہیں جتوا سکے گا۔ مقبولیت اداروں کی قبولیت کے بغیر معذور ہے۔

میاں شہباز شریف وزارت اعظمی کے عہدے پر پہنچ کر اپنی سیاست کی اننگز کامیابی سے جیت چکے ہیں۔ اس سے آگے انہیں کیا چاہئے۔ اب وزیر اعظم رہیں یا نہ، کامیاب سیاست کر چکے۔ چودھری پرویز الٰہی اور شیخ رشید نے شریف برادران میں پھوٹ ڈالنے کے لیے بہت محنت کی پروپیگنڈا کیا مگر پھوٹ چودھری برادران میں پڑ گئی۔ شریفوں میں اتفاق کو کوئی نہ ہلا سکا۔ پرویز الٰہی نے ایک عہدے کی خاطر چوھدری شجاعت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ خان کی سیاست یو ٹرن، تھوک کے چاٹنا، سو پیار سو جوتے کھانے، پر چل رہی ہے۔ جس کو اپنا پٹواری بھی لگانا پسند نہیں کرتے تھے اسے وزیر داخلہ لگا دیا اور جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے اسے سپیکر پنجاب اور وزیر اعلیٰ لگا دیا۔

جنرل قمر باجوہ کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے بیساکھیاں چھن جانے پر ان کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رکھی ہے۔ جنرل فیض حمید کو سیاست میں اپنا دایاں بازو سمجھتے تھے اور ادارے میں بغاوت کرانے کی پوری کوشش کرتے رہے جنرل فیض صاحب کی بیٹی کی شادی پر تمام جرنیلوں اور سیاسی و صحافتی حلقوں کے نمایاں افراد کی موجودگی پر خان کوسمجھ آگئی ہوگی کہ سب ایک ہیں۔ فوج میں بغاوت اور شرارت کرنے کی کوشش نہ کبھی کامیاب ہو سکی نہ ہو سکے گی۔ پنجاب

سے جیتنے کے لئے شریفوں کے خلاف چور بیانیہ خان کو ایک مرتبہ وزیر اعظم بنوانے میں مددگار ثابت ہوا مگر چار مرتبہ اقتدار میں رہنے والا نواز شریف ایک مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے عمران خان کے مد مقابل آج بھی جم کر سیاست کر رہا ہے۔ تین آرمی چیف لگا چکا ہے۔ خان تڑپتا رہا ایک آرمی چیف بھی نہ لگا سکا۔ چور کا بیانیہ بھی فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ جیسے مقدمات کے ساتھ ہی دفن ہو چکا۔۔

چور نعرہ اس وجہ سے مقبولیت حاصل کر گیا کہ کچھ مخصوص وجوہات کی بنا پر ہمارا سیاسی ڈھانچہ گزشتہ 75 برسوں میں ایک عام عادمی کو کچھ ڈیلیور نہیں کر پایا، اس کی وجہ کچھ بھی ہو اور الزام بے شک جمہوریت مخالف طاقتوں پر ہی کیوں نہ ڈال دیا جائے لیکن جمہوری تنزلی کا سلسلہ تھمتا محسوس نہیں ہو رہا۔

عام لوگ جمہوریت، ڈکٹیڑ شپ یا پھر ‘ووٹ کو عزت دو، جیسے نعروں سے بے نیاز اور ماورا ہو کر یہ دیکھنے لگے ہیں کہ اقتدار میں آنے والوں کی کاریں بڑی سے بڑی ہوتی جاتی ہیں، ان کی کوٹھیاں وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہیں اور ان کے بینک بیلنس بھاری سے بھاری تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک عام آدمی کے دل میں یہ غصہ دن بدن بڑھ رہا ہے کہ اس کے حالات تبدیل نہیں ہو رہے لیکن ان کے حکمرانوں کی شان و شوکت دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔

جتنا غصہ جاتی امرا اور بلاول ہائوس پر ہے اتنی ہی نفرت بنی گالہ اور زمان پارک محل سے بھی ہے۔ جب عام آدمی کی حالت نہیں بدلے گی اور صرف صاحب اقتدار شخصیات کی ہی بدلتی رہے گی تو اس نعرے میں مزید تقویت آ جائے گی کہ ‘یہ سب چور ڈاکو ہیں،۔ پہلے چور تھے تو خان کیا ہے؟ ریاست مدینہ تبدیلی سونامی انقلاب حقیقی آزادی کی شعبدہ بازی کا جنازہ عنقریب اٹھنے والا ہے۔ کروڑوں کی نوکریاں لاکھوں گھر جانے کیا کچھ دعوے سب فراڈ تھا۔

توشہ خانے کی گھڑیاں ہی نہیں چادریں اور تولئے بھی نہ چھوڑے ہم نے۔ پاکستان کی تقریبا ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور انہیں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے۔ بے روزگاری ہے، غربت ہے، پڑھائی کے لیے پیسے نہیں ہیں، حالات خراب ہیں، لوڈ شیڈنگ ہے جبکہ معیار زندگی بہت گر چکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ نسل دولت، اختیارات اور اقتدار کی غیر منصفانہ تقسیم پر سوال کھڑے کر رہی ہے۔ یہ بدعنوانی، کرپشن اور اقرباء پروری سے تنگ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply