خلائی مخلوق؟ (2)/وہاراامباکر

کیا ذہین غیرارضی زندگی موجود ہے؟ اگر آپ نے اس کے حق میں دلائل سنے ہیں تو یہ مندرجہ ذیل کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے سیارے
کتنے ستاروں پر زندگی ہو سکتی ہے؟ اس کے لئے ڈریک مساوات استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے مطابق کائنات کے کل سیاروں کو زندگی شروع ہونے کے امکان سے ضرب دی جائے تو اس کے جواب میں زندہ دنیاؤں کا عدد آ جائے گا۔
کائنات ناقابلِ بیان وسعت رکھتی ہے۔ کھربوں کہکشائیں۔ ہر کہکشاں میں کھربوں ستارے۔ ہر ستارے کے گرد سیارے۔ یہ اعداد ہمیں ہمیں بتاتے ہیں کہ “کل سیاروں” کا عدد بہت ہی بڑا ہے۔ لیکن دوسرا عدد؟ یعنی زندگی کے شروع ہونے کا امکان کتنا ہے؟ اس کا درست جواب یہ ہے کہ ہمیں ذرا سا بھی اندازہ نہیں۔ یہ امکان آیا دس فیصد بھی ہو سکتا ہے، 0.1 فیصد یا پھر 10^-100 فیصد؟ ان میں سے کسی عدد کے بھی درست ہونے کا امکان دوسرے سے زیادہ نہیں۔ اور چونکہ ان میں سے کچھ بھی ٹھیک ہو سکتا ہے، اس لئے زندہ دنیاؤں کے لئے کوئی بھی جواب ممکن ہے۔ یہ جواب “صرف ایک” سے لے کر “کھربوں” تک نکل سکتا ہے جس میں سے کسی کو ترجیح دینے کی کوئی بنیاد نہیں۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاروں کی بہت بہت بڑی تعداد خود میں کچھ بھی نہیں بتاتی۔ “بہت سے سیارے”غیرارضی زندگی کے ہونے کے لئے دلیل نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاپرنیکن اصول
دوسری استعمال کی جانے والی دلیل Copernican Principle کی ہے۔ اس دلیل کا سٹرکچر یہ ہے کہ چونکہ سورج کہکشاں کا عام سیارہ ہے اور زمین ایک عام سیارہ ہے تو ہماری موجودگی کا ہونا بھی عام ہو گا۔ ہم “خاص” نہیں ہیں۔
یہ بات تو درست ہے کہ سورج اور زمین میں کچھ ایسا خاص نہیں جو باقی کائنات سے جدا ہو۔ لیکن غیرارضی زندگی کی موجودگی کیلئے یہ دلیل کام نہیں کرتی۔ وہ کیوں؟
فرض کر لیجئے کہ میں نے گیندوں سے بھرے ایک مٹکے سے گیند نکالنی ہے۔ اگر یہ سبز رنگ کی ہوئی تو میں زندہ رہوں گا ورنہ قتل کر دیا جاؤں گا۔ میں نے گیند نکالی اور یہ سبز رنگ کی تھی۔ اور میں اس لئے زندہ ہوں۔ اب کیا اس بنیاد پر یہ بتایا جا سکتا ہے کہ مٹکے میں کتنی سبز گیندیں تھیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ (اگر کسی نے سبز گیند نہ نکالی ہوتی تو وہ اس بارے میں بتانے کے لئے زندہ نہ ہوتا)۔ یہ انفارمیشن خود میں کچھ بھی بتانے کے لئے کافی نہیں۔ زمین کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔
ہمیں اس میں سبز گیند ملی ہے جو کہ ہماری زندہ زمین ہے۔ اور اگر نہ ملی ہوتی تو اس بارے میں بات کرنے کے لئے ہم موجود نہ ہوتے لیکن یہ ڈیٹا ہمیں باقی کہکشاں کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتاتا۔ اس بات کو ٹھیک طرح سے نہ سمجھنا selection bias کی قسم ہے۔ (اور تعصبات کی وہ قسم ہے جس سے بچنے کے لئے آسٹرونومر بہت احتیاط کرنے کی کوشش کرتے ہیں)۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کاپرنیکن اصول اس وقت کام نہیں کرتا جب ایسی سٹیٹمنٹ کا ذکر ہو جو آپ کے ہونے کی پیشگوئی کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلائی مخلوق (2)
ایک اور دلیل جذباتی اپیل کی ہے۔ اور یہ سب سے برا طریقہ ہے۔
اس کی مثال: پروفیسر ایوی لو کہتے ہیں، “یہ ایک انتہائی متکبرانہ سوچ ہے کہ ہم اکیلے ہوں گے”۔
یا پھر ایک اور سائنسدان کی طرف سے “ہمیں عاجزی دکھانی چاہیے اور یہ ماننا چاہیے کہ ہم خاص نہیں”۔
یہاں پر بنیادی طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر آپ مجھ سے متفق نہیں ہیں تو پھر آپ سخت مغرور ہیں۔ ایسے فقرے منطقی یا سائنسی دلائل نہیں بلکہ شخصی حملے اور جذباتی اپیل ہیں۔
ایسے دلائل (اور رویے) کو ہم نظرانداز کر دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلد آغاز
زمین پر زندگی جلد شروع ہو گئی تھی۔ زمین کی عمر ساڑھے چار ارب سال ہے۔ اور ہمیں اس وقت کے مائیکروفوسل ملے ہیں جب زمین کی عمر صرف نوے کروڑ سال تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی اس سے بھی قبل پیر رکھ چکی تھی۔
اس دلیل کے مطابق اگر زمین پر زندگی اتنی جلد شروع ہو گئی تو پھر یہ جگہ جگہ پر شروع ہوئی ہو گی۔
یہاں پر ایک مسئلہ ہے:
زمین پر ایسی مخلوق تک پہنچتے ہوئی جو آفاق کے بارے میں سوال سوچ سکے اور زندگی کے آغاز کے بارے میں متجسس ہو، ساڑھے چار ارب سال کا عرصہ لگا ہے۔
اس پیچیدگی نے بہت وقت لیا ہے۔ جبکہ طرہ یہ کہ صرف نوے کروڑ سال بعد زمین اس حالت میں ہو گی کہ یہ قابلِ رہائش سیارہ نہیں ہو گا۔ پیچیدہ زندگی برقرار نہیں رہے گی۔ ارضیاتی سکیل پر نہ صرف ہم بہت تاخیر سے آئے ہیں بلکہ ہمارے پاس زیادہ وقت بھی نہیں بچا ہے۔
یعنی کہ اگر اس دلیل کو مان لیا جائے کہ زمین کی ہی طرح ہر جگہ پر زندگی فٹافٹ شروع ہو جاتی ہے (یعنی محض چند سو ملین سال میں ہی) تب زمین کی ہی مدد سے دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ذہین زندگی بہت بہت بہت وقت لیتی ہے۔ اور اگر یہ ابتدا تھوڑی سی بھی آگے ہو جائے، تو اتنا وقت ہی نہیں کہ ذہین زندگی جنم لے سکے۔ اس سے پہلے ہی کہانی ختم ہو جائے گی۔
ہم اپنے وجود کا اس لئے مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ زمینی زندگی جلد شروع ہوئی تھی۔ یہ دلیل دراصل زندگی کے جلد ابتدا کو کڑی شرط بنا دیتی ہے۔ اور زندگی کا جلد آغاز ابتدا کے طریقے یا اس کے امکان کے بارے میں کوئی بھی مفید معلومات فراہم نہیں کرتا۔
اس سے زیادہ سے زیادہ یہی پتا لگ سکتا ہے کہ اگر کہیں پر عین زمین والے حالات ہوں، وہی کیمسٹری ہو، ویسے ہی برِاعظم ہوں، ویسے ہی سمندر، ویسے ہی فلکیاتی تصادم (مثلاً، جس سے چاند بنا، جو کہ زمینی تاریخ کا اہم واقعہ تھا) تو زندگی شروع ہونے کا امکان موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایکسٹریموفائل
یہ وہ جاندار ہیں جو سخت ترین حالات میں بھی زندگی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ ٹارڈیگریڈ سپیس میں بھی باقی رہ سکتا ہے۔ یہاں پر دلیل یہ ہے کہ زمین جیسے سیارے کی ضرورت بھی نہیں۔ زندگی مریخ یا زہرہ جیسے سیاروں پر بھی ہو سکتی ہے۔ کئی جاندار سخت گرمی، سخت سردی، پریشر، تیزابیت، نمکیات کو برداشت کر لیتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ ایکسٹرویموفائل بہت زبردست مالیکیولر مشین ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سمیت تمام بائیولوجیکل مشینیں ہکابکا کر دیتی ہیں۔ کسی بھی خلیے کے اندر پیچیدگی اور نفاست کا جہاں پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایسے شروع نہیں ہوا تھا۔ اربوں سال کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔
سادہ کیچر اور پانی سے جو ابتدا ہوئی ہو گی، وہ انتہائی نازک ہو گی۔ اور آج نظر آنے والے ایکسٹریموفائل زندگی کی انتہائی ایڈوانسڈ شکل ہیں۔ پریشر، درجہ حرارت اور تیزابیت کی رینج برداشت کرنا ابتدائی زندگی کی مہارت نہیں ہو سکتی۔ یہ طویل عرصہ میں ڈویلپ ہونے والے میکانزم ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی مختلف حالات میں پیدا نہیں ہو سکتی لیکن ایکسٹریموفائل اس کی اچھی دلیل نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر کیا کوئی امید نہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی بھی بنیاد پر اس کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتے؟
نہیں، اس کا مطلب یہ نہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply