نظامِ عدل کے مُکے، دھکے اور لاتیں۔۔۔ملک احمد نادر

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک ممتاز ہائی کورٹ کے ایک معزز جسٹس صاحب کی کورٹ کا نائب قاصد دروازے کی طرف لپکتا ہے اور پوری طاقت سے بلند   آواز میں مقدمے کے عنوان کی صدا لگاتا ہے جس کے جواب میں تین خواتین کورٹ روم کے اندر داخل ہو کر وُکلاء ڈائس سے تھوڑا پیچھے جا کر رُک جاتی ہیں۔ خواتین کے وکیل صاحب پہلے سے ہی ڈائس پر موجود ہیں، مقدمہ گھریلو تنازع  کا ہے اور خواتین کی حالت سے معلوم ہوا کہ وہ کسی نہایت غریب   خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ جسٹس صاحب نے فائل سے ایک نظر اُٹھا کر وکیل صاحب کو دیکھا، پھر اُن تین غریب پاکستانی خواتین کی جانب نگاہ د وڑائی اور پولیس والے کو اشارہ کرتے ہوئے گرجتی ہوئی آواز میں گویا ہوئے کہ ’’ اِن کو باہر نکالو ، باہر نکالو ِان کو“۔ پولیس والا بحکمِ عالی جاہ فوراً آگے بڑھا اور اُن خواتین کو پکڑ کر باہر لے گیا جس پر خواتین بھی خاموشی سے بناء احتجاج و استفسار باہر کی طرف چل دیں،پھر جسٹس صاحب نے وکیل کو اِشارہ کیا کہ بحث شروع کریں۔ بدقسمتی سے فدوی بھی اس کمرے میں موجودہونے کے ناطے اس سارے واقعے کا چشم دید گواہ ٹھہرا اورحیرانگی کے عالم میں یہ سوچتا ہی رہا کہ اُن خواتین کاقصور کیا تھا؟ نہ تو اُنہوں نے کوئی بات کی اور نہ ہی کوئی ایسی حرکت کی جو جناب کو گستاخانہ محسوس ہو سکتی تھی مگر اِس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ اُن خواتین نے بھی چُپ چاپ ایسے باہر کی طرف رُخ کیا جیسے اُن کو وہاں موجود ہونے کا کوئی حق ہی نہیں تھا اور اُن سے بڑی غلطی سرزد ہوئی، حالانکہ اصل میں صورتحال اِس کے عین برعکس تھی۔بعد ازاں میں کئی دن تک یہ سوچتا رہا کہ آخر جسٹس صاحب نے اُن خواتین کے ساتھ، جو اپنے مقدمے کی کارروائی دیکھنے آئی تھیں، جو برتاؤ کیا، اُس کے  بنیاد ی محرکات کیا تھے؟ اور کیا وجہ تھی کہ اُن خواتین نے اُن کے نامناسب رویے کو اُن کا حق سمجھ کر قبول کرلیا؟ دراصل ہم ابھی تک آزاد ہی نہیں ہو پائے، 150 سال تک ہم پر انگریز حکمران رہے اور اُس کے بعد سے اب تک انگریز نُما اشرافیہ۔

حقیقت یہ ہے کہ اِس ملک کے چند شہنشاہِ عدل 1947 سے اب تک اپنے آپ کو آقا اور سائلین کو محکوم سمجھ کر استحصال کرنے میں مصروف ہیں اور اِن شہنشاہوں کے بگڑے ہوئے شہزادے بھی اِس استحصال کے عملی نمونے پیش کر رہے ہیں جن کی ویڈیوز آئے روز سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آتی ہیں۔سوشل میڈیا بھی کیا ظالم ہے، کہ ہر ظلم عیاں کر دیتا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو بار بار آنکھوں کے سامنے آتی رہی جس میں ایک نہتی اور اکیلی حوا کی بیٹی ’وکلاء‘ صاحبان کی  لاتوں اور مُکوں کا شکار ہوتی رہی، یہ منظر ایک وکیل کی حیثیت سے میرے لیے دیکھنا بھی مشکل تھا، جس کی وجہ نہ صرف یہ تھی کہ ایک عورت کے ساتھ یہ سلوک ہوتا رہا بلکہ یہ سوچ بھی ذہن کو ستاتی رہی کہ میرا مقدس پیشہ کبھی قائدِاعظم اور علامہ اقبال جیسے عظیم ناموں سے پہچانا جاتا تھا اور اب ایسے مجرموں اور اِخلاقی طور پر دیوالیہ انسانوں سے جڑتا نظر آتا ہے۔اگر یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہوتا تو شاید یہ کہنا کسی حد تک قابلِ قبول ہوتا کہ خاتون کی بھی کوئی غلطی ہو سکتی ہے، مگر آئے روز ایسی کئی ویڈیوز سامنے آتی ہیں جن میں اِسی قسم کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کاکھلم کھلا مظاہرہ ہو رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بات اپنی جگہ کہ اِس طرح کے واقعات قابلِ مذمت ہیں مگر میری رائے میں اصل سوال یہ ہے کہ اُن لاتوں، مکوں اور دھکوں کی دادرسی کون کرے گا جو نظامِ عدل اور قانون خود سالہاسال سے سائلین کو رسید کر رہے ہیں؟ اور جو ویڈیو کی صورت میں دنیا کے سامنے نہیں لائے جا سکتے اور جن کا درد چند لمحوں کا نہیں بلکہ ہمیشگی کا اثر رکھتا ہے۔ یہ درد پوچھنا ہو تو اُس غریب کسان سے پوچھا جائے جس کی زمین پر اُس وقت قبضہ کیا گیا جب وہ ماں کی گود میں کھیلا کرتا تھااور پوری نسل گزرنے کے باوجود ابھی تک اُس کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ اگر اِس درد کا حال پوچھنا ہو تو کراچی کے شاہ زیب کی ماں سے پوچھا جائے جس کا جواں سال بیٹا معمولی سی تلخ کلامی پرقتل کر دیا گیا مگر قاتل ایک طاقتور شخصیت کا بیٹا ہونے کے ناطے قانون سے بالاتر قرار پایا اور اگر اس درد کی کیفیت کا اندازہ لگا نا ہو تو اُن معصوم بچوں سے دریافت کیا جائے جن کی آنکھوں کے سامنے اُن کے ماں باپ کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیامگر ایک طاقتور ادارے سے تعلق کی بنیاد پر قانون بے بس دکھائی دیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ کفر کا معاشرہ تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا معاشرہ نہیں چل سکتا، کیا یہ ظلم نہیں کہ ایک انسان سے اُس کا پیارا چھین  لیا جائے اور چھیننے والے کو کوئی پوچھنے والا نہ ہوبلکہ تمام نظام اُس کو بچانے میں مصروفِ عمل ہو؟ کیا یہ ظلم نہیں کہ کسی غریب کا مال اُس سے ناحق چھین لیا جائے اور چھیننے والے دندناتے پھریں، اور کیا یہ ظلم نہیں کہ اپنا حق حاصل کرنے کا عمل اتنا مشکل اور سُست روی کا شکار ہو کہ حق مل بھی جائے تو بے کار و بے سود۔ کسی انگریز سکالر نے کہا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں دیر انصاف کی فراہمی سے انکار ہے،اور ہم انکار در انکار در انکار کے مرتکب ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply