رفو/ربیعہ سلیم مرزا

“عدیل نے میرا نمبر کہاں سے لیا ہوگا”؟
میں پیکو والی دکان کا تھڑا چڑھتے ہوئے بھی یہی سوچ رہی تھی۔
دکاندار سے دوپٹہ پکڑ کر دیکھا، ٹُک وہیں کا وہیں تھا۔
لگتا ہے میری طرح سب کی مت مری ہوئی ہے۔
“بھائی ،آپ نے ٹُک تو رفو کیا ہی نہیں “؟
میں نےپیکو والے کو ٹُک دکھایا تو شرمندہ نہیں ہوا ۔کچھ کہے بغیر دوپٹہ میرے ہاتھ سے لیکر دکان کے اندر بیٹھے لڑکے کی طرف اچھال دیا ۔
“اچھی طرح رفو کرنا، پتہ نہ چلے ”
میں نے جیسے خود سے کہا ۔کیونکہ اس نے سنا ہی نہیں۔

دل سے لیکر روح تک چھید رفو کرتے کرتے عمر گذر جاتی ہے ،ہم بیویوں کے خوف نہیں جاتے۔کھانے کے نمک سے لیکر انجانے فون تک،
دل کی دھڑکن ٹوٹتی ہے ۔
ایک ٹانگ سے دوسری ٹانگ پہ وزن ڈالا،کھڑے کھڑے تھک گئی۔

عدیل کی مسلسل کالز نے چور بنا کر رکھ دیا ہے ۔پتہ نہیں چار دن سے کیوں فون کررہا ہے ۔بھاڑ میں جائے ۔
“میں اتنی دیر میں سبزی لے آتی ہوں ”
اتنا کہہ کر میں پیکو والی دکان سے نکل آئی
“ویسے اس نے نمبر کہاں سے لیا ہوگا “؟ ۔ سوال جیسے دماغ میں چبھ کر رہ گیا ۔

اروی بچے نہیں کھاتے ۔چنے کل پکائے تھے ۔اگر آج دال پکا لوں ؟چنے بھی تو دال جیسے ہی تھے ۔
۔چھوٹے گوشت کیلئے دل بڑا کروں تو مسائل کا کلیسڑول بڑھ جاتا ہے ۔
میں نے پرس سے موبائل نکالا ۔
چار دن سے بیل بند کی ہوئی ہے. عدیل کی وقت بے وقت کال جان نکال لیتی ہے۔
لگتا ہے اب اس کے دل سے بیوی کا ڈر نکل گیا ہے !
کل امین چیخ اٹھے
“تم فون کیوں نہیں اٹھاتیں ”
کیا بتاتی
“عدیل مسلسل فون کر رہا ہے ۔
عدیل میرا منگتیر تھا ۔ہماری منگنی صرف چار مہینے رہی
پھر اس کے گھر والوں نے بلاوجہ انکار کردیا۔
کاش فوراً انکار کردیتے ۔
تو چار مہینے میں اس کے ساتھ فون پہ چولیں تو نہ مارتی ۔

اب ان گیارہ سال پرانی باتوں پہ بار بار فون کرنے کی کیا ضرورت ؟
میں نے پرس سے فون نکالا ،دیکھا ۔ شکر ہے کوئی کال نہیں تھی ۔
موٹر سائکل والے نے جیسے پیر کچل ہی دیا
“آنٹی ۔دھیان سے چلیں، سڑک پہ فون استعمال کریں گی تو ۔”
میں نے پیر کو دیکھا جوتی کا اسٹریپ نکل گیا تھا۔درد وکھرا ہورہا تھا۔
میں نے جوتا ہاتھ میں پکڑا ،اگلی نکر پہ موچی کی طرف چل دی ۔لیکن سبزی کی دکان موچی سے پہلے آگئی ۔
“یہ بھنڈی کیا بھاؤ ہے “؟
“بہن جی ، جوتا نیچے کریں،رزق ہے ”
سبزی والے نے میرے ہاتھ میں پکڑے جوتے کی طرف اشارہ کیا تو میں نےخجل ہو کر جوتا زمین پہ رکھ دیا ۔
میری شادی کے آٹھ مہینے بعد عدیل کا کسی امیر باپ کی بیٹی سے نکاح ہو گیا ہےتب گڑیا کا ساتواں مہینہ تھا ۔
“دو سو بیس روپے کی کلو ”
“ایک کلو دے دو ”
میں نے پیسے نکالنے کیلئے پرس کھولا تو ۔۔ عدیل کی کال تھی ۔۔
سبزی والے کو پیسے دیکر جلدی سے پرس بند کردیا۔
بجتی رہے بیل۔۔میں کیا کروں۔؟
ایک ہاتھ میں سبزی اور دوسرے میں جوتی پکڑی تو گڑیا کا اسکارف اور ربن یاد آگیا ۔؟
دو چیزیں خریدوں تو،دو چیزیں لازمی بھول جاتی ہیں ۔
“ٹھیک کرنے کے پچاس روپے لگیں گے “موچی نے شاید جوتی پہ احسان چپل پڑھ لیا تھا ۔
“کردو”
اڑتی اڑتی سنی کہ عدیل کو سسرال والوں نے کاروبار کروا کے دیا ہے۔

تبھی بیوی نے اسے جوتے کا تلوہ سمجھ کے رکھا ہوا ہے ۔
مجھے کیا ”
موچی کو پچاس روپے دیکر جوتا پہنتے ہی لرزتے پیر مضبوط ہو گئے ۔خوف اب غصے میں بدلنے لگا تھا۔
بھلا کیوں کر رہا ہے مجھے فون۔۔۔؟

یونیفارم والی دکان سے گڑیا کا اسکارف مل گیا۔ربن نہیں ملا ۔۔
پرس کھولا تو فون کی اسکرین جھلملا رہی تھی ۔
اسکارف لےکر میں دکان سے نکلی اور ۔راستے میں چلتے چلتے کال کی
“کیوں کر رہے ہو مجھے فون ،تمہیں منع کیا تھا۔مجھے دوبارہ فون مت کرنا ”
مجھے اپنے لہجے کی سختی پہ حیرت ہوئی ۔۔
“دو ماہ پہلے۔۔۔ہماری علیحدگی ہو گئی ”
اس نے افسردگی سے بتایا ۔۔
“اب میں آزاد ہوں۔۔۔بس تمہیں ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا ”

Advertisements
julia rana solicitors

پیکو والے کی دکان آگئی ۔میں نے فون بند کردیا۔دوپٹہ ایسا رفو ہوا کہ لگتا ہی نہیں کہ ٹک لگا تھا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply