غیر قانونی تارکین وطن کے بھی حقوق ہیں/ثمر عباس

گزشتہ سال 29 دسمبر 2022 کو افغان مہاجرین کے بارے میں “ایسوسی ایٹڈ پریس” کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ
پاکستانی پولیس نے متعدد چھاپوں میں کم از کم 1200 افغان مہاجرین کو حراست میں لیا ہے جن میں افغان مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی بھی اچھی خاصی تعداد شامل ہے۔ ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ شہرِ کراچی میں درست سفری دستاویزات کے بغیر داخل ہوئے تھے۔ پاکستانی جیل میں قید افغان عورتوں اور بچوں کی تصاویر جب سوشل میڈیا کے ذریعے گردش کرنے لگیں تو افغانستان بھر سے حکومت پاکستان کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا
ابتدائی طور پر سندھ حکومت نے اس قسم کی خبروں اور تصاویر کو غلط قرار دے کر سختی سے اس کی تردید کی لیکن پھر بعد میں انہوں نے اپنے بیان کو واپس لیتے ہوئے کہا کہ جیل میں بند مہاجر بچوں کو علاج کی غرض سے رکھا گیا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ افغان خواتین اور بچے سلاخوں کے پیچھے قید ہیں۔

“پاکستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ “کراچی کی ایک ہائی سکیورٹی جیل میں قید ہونے والوں میں کم از کم 139 افغان خواتین اور 165 بچے شامل ہیں
یہ رپورٹ جیلوں میں قید متعدد افغان باشندوں کے انٹرویوز پر مبنی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق نو سال سے کم عمر بچوں کو ان کی ماؤں کے ساتھ ہی جیل میں رکھا گیا ہے جبکہ 10 سے 18 سال کے بچے جوینائل جیل میں رکھے گئے ہیں۔ ان تمام قیدیوں کو “فارنرز ایکٹ” کے تحت مختلف الزامات کا سامنا ہے جو کہ پناہ گزینوں کے تحفظ کے بین الاقوامی معیارات کے خلاف ہے بلکہ سراسر اس کی خلاف ورزی ہے۔

مقامی میڈیا میں سندھ میں آنے والے افغان پناہ گزینوں کو منفی انداز میں ایک آمد کے طور پر دکھایا جاتا رہا ہے جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ مجموعی آبادی کے لحاظ سے “سندھی آبادی” کو کم کرنا ہے جبکہ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتِ سندھ انہی افغان مہاجرین کے لیے بین الاقوامی برادری سے مدد کی اپیل کرتی ہے۔ ہم نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی پر اعتراض کرتے ہوئے بارہا سنا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ کراچی کی جیلوں میں قید افغان پناہ گزین خواتین اور بچوں سے لاعلم ہیں۔

افغانیوں کی نسلی پروفائلنگ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پاکستان میں غیر ملکیوں کو سنبھالنے سے متعلق قوانین کی بدولت معاملہ مزید گھمبیر ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر صوابدیدی پاکستان فارنرز ایکٹ 1946 میں موروثی ہے کیونکہ اس کا واحد مقصد وفاقی حکومت کو تارکین وطن کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کے اختیارات دینا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت غیر ملکیوں کے داخلے پر پابندی، ریگولیٹ یا انہیں محدود کرنے کا انتظام کر سکتی ہے۔
اگر ہم اپنے مُلک کی جغرافیائی حدود سے ہٹ کر دیکھیں تو مہاجرین کی بہبود کے لیے بین الاقوامی قوانین بہت زیادہ قابلِ ستائش ہیں۔

مہاجرین کی حیثیت سے متعلق کنونشن اور پروٹوکول غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت کے بارے میں بھی بہت واضح ہیں کیونکہ یہ پناہ گزینوں کو اس بات کی ضمانت فراہم کرتے ہیں کہ کوئی بھی پناہ گزین کو اس کی مرضی کے خلاف کسی بھی طریقے سے، کسی بھی ایسے علاقے سے نہیں نکالے گا یا وہاں پر واپس نہیں بھیجے گا جہاں پر اس کی زندگی یا اس کی آزادی کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ لاحق ہو۔ اس کے علاوہ پناہ گزینوں کو یہ قوانین اس بات کی ضمانت بھی دیتے ہیں کہ
مخصوص استثناء کے ساتھ پناہ گزینوں کو ان کے غیر قانونی داخلے یا قیام کے لیے سزا نہیں دی جانی چاہیے اور مزید یہ کہ پناہ کی تلاش میں پناہ گزینوں کو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے”

پاکستان کا فارنرز ایکٹ 1946 ایک ایسا ضابطہ ہے جو غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرنے، جیل بھیجنے، ٹرائل کرنے اور ملک بدر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ایکٹ کی رو سے جہاں کوئی بھی شخص جان بوجھ کر غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے، وہ اس ایکٹ کے تحت یقیناً کسی جرم کا مرتکب ہو گا اور اسے دس سال تک قید اور دس ہزار روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ سیکشن 14(B) وفاقی حکومت کو کسی بھی وقت تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا اختیار بھی تفویض کرتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں غیر قانونی پناہ گزین برسوں سے جیلوں میں قید ہیں۔ سیکشن 14C کے مطابق،ایک غیر ملکی جس کے پاس پاکستان میں رہنے کی اجازت نہیں ہے، جسے اس ایکٹ کے تحت قید کی سزا سنائی گئی ہو، اسے سزا کی میعاد ختم ہونے پر بھی رہا نہیں کیا جائے گا اور وہ جاری رہے گی۔ وہ تین ماہ سے زیادہ کی مدت تک حراست میں رہے تاکہ اس کی ملک بدری کے انتظامات کو حتمی شکل دی جا سکے۔ افغان پناہ گزین جن پر 14 (ii) کے تحت کوئی یا نامکمل دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے فرد جرم عائد کی گئی ہے، ان کے پاس ملک بدری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے جیسا کہ 14(c) میں بتایا گیا ہے جو کہ مہاجرین کے لیے بین الاقوامی پروٹوکول کی صریح خلاف ورزی ہے۔

اگر غور کیا جائے تو مردوں کے پاس ان کے شناختی دستاویزات مثال کے طور پر کارڈ یا پاسپورٹ ہوتے ہیں جبکہ خواتین اور بچوں کے پاس غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر لیبل لگائے جانے والے پناہ گزینوں کے پاس ایسی کوئی دستاویزات سِرے سے ہوتی ہی نہیں ہیں اور اسی لیے وہ موجودہ قانون سے فائدہ بھی نہیں اٹھا سکتیں جس کی دفعہ 14D میں غیر قانونی تارکین وطن کی رجسٹریشن کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی ہیں۔

پاکستان کرائسز رسپانس پلان 2020-22 پناہ گزینوں کے اثرات اور افغانستان سے غیر قانونی تارکین وطن سے نمٹنے کے بارے میں بہت واضح ہے۔ اس کے مطابق
پاکستان کے تناظر میں فکر مند افراد کے لحاظ سے جو زیادہ تر قومیت کے لحاظ سے پاکستانی ہیں، ملک میں 1.4 ملین سے زیادہ کی میزبانی کی گئی ہے۔ رجسٹرڈ افغان مہاجرین، 840,000 افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز اور تقریباً 400,000 اضافی غیر دستاویزی افغان شہری (ماخذ: افغان مہاجرین کے چیف کمشنریٹ کا دفتر)۔ حکومت کے وسائل کی رکاوٹوں کے پیش نظر مہاجر آبادی، خاص طور پر افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز اور غیر دستاویزی افغانوں کی ضروریات کو پورا کرنا بہت ضروری ہے۔”

امریکہ’ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی بہبود کے لیے ہنگامی طور پر نقد رقم، پناہ گاہیں ذہنی و نفسیاتی طور پر صدمے سے نکلنے کی حکمت عملی کے علاوہ عدم تحفظ کے شکار افراد کی معاونت، پانی، حفظانِ صحت کی ضروریات، صفائی و سینیٹیشن اور صنفی بنیاد پر تشدد کی خدمات وغیرہ کے لیے 48 ملین ڈالر کی خطیر امداد فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی برادری پاکستان کی طرف سے انسانی امداد کی تعریف بھی کرتی نظر آتی ہے۔ UNHCR بھی پناہ گزینوں کے لیے پاکستان کے تاریخی کردار کو تسلیم کرتا ہے اور مہاجرین کی بہبود کے لیے رجسٹریشن اور سیاسی پناہ کے طریقہ کار کی حمایت کے ساتھ ساتھ مستقبل میں سول رجسٹریشن تک ان کی رسائی کو بہتر بنانے کے لیے بھی معاونت کرے گا۔ لیکن غیر قانونی تارکین وطن سمیت پناہ گزینوں کے بارے میں پاکستان کا ردعمل اتنا واضح سامنے نہیں آیا جیسا کہ UNHCR کی رپورٹ بتاتی ہے۔ “فارن پالیسی” کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے جہاں افغان مہاجرین کو رہائش فراہم کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے، اب طالبان کے قبضے کے بعد اسے پناہ گزینوں کی میزبانی کی قیمت ادا کرنے کا خدشہ ہے اور اس لیے ہر قسم کے مہاجرین کے حوالے سے رویہ سرد ہے”

افغانستان سے حال ہی میں آنے والے مہاجرین کے بارے میں حکومت پاکستان کا یہ رویہ پناہ گزینوں کی میزبانی سے اٹھنے والے اخراجات سے بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتا ہے اور حکومت کی قومی سلامتی کے بارے میں بھی خوف کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو اکثر حکومت مُلک کی معاشی غیر یقینی صورتحال اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں قربانی کا بکرا بناتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آگے کا راستہ کیا ہو سکتا ہے؟ پہلے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہے کہ “انصاف” پاکستانی شہریوں اور غیر قانونی تارکین وطن دونوں کا بنیادی حق ہے۔ بین الاقوامی قانون اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر قسم کے تارکین وطن کے ساتھ انصاف کی فراہمی میں کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی بربریت سے خوفزدہ ہو کر ہجرت کرنے والے افغان مہاجرین کے حالات کی اصلاح کے لیے سب سے پہلے سندھ سمیت ہر صوبے میں نسلی تعصب کو روکنا ہو گا۔ حکومت پاکستان کو ملک کے موجودہ قوانین پر نظرثانی کرنی ہو گی کیونکہ ہجرت کی پالیسی کو کنٹرول کرنے والے بین الاقوامی معیارات کے مطابق اگر مُلکی قوانین میں ضروری ترامیم نہیں کی گئیں تو یہ مسئلہ اسی طرح برقرار رہے گا اور تارکینِ وطن خوف و ہراس میں مبتلا رہ کر جیلوں میں قید رہیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply