سالگرہ کا کیک/سلیم مرزا

گھر کا دروازہ لوہے کا ہے ۔کوئی زور سے کھٹکھٹائے تو دل دھڑ دھڑا جاتا ہے۔کھولتے کھولتے سو وسوسے اور دو سو لین دار یاد آجاتے ہیں ۔
پھر بھی کوئی بجائے ہی جارہا تھا ۔۔
کھولا تو گلی میں دھند تھی ۔حدنگاہ دوگز سے بھی کم تھی کیونکہ ڈیڑہ گز سامنے ہمراز مغل بغلوں میں ہاتھ دبائے کھڑا تھا ۔بنا علیک سلیک کہنے لگا
“مرزا ۔بیٹھک کھول،ضروری بات کرنی ہے ”
“تمہیں پتہ ہے گھر میں بیٹھک نہیں ہے،اور بیگم بھی نہیں ہے،لہذا لنگ آ”
میں اتنا کہہ کر مڑا تو مغل نے پیچھے سے آواز دی
“چائے کا بھی کہہ دینا ”
ہمراز کو کمرے میں بٹھایا،
کچن میں چائے کا پانی رکھا تو دیکھا گیس کی نمی نمی سی لاٹ آرہی تھی۔
چنانچہ دودھ،پتی چینی دو کپ میں ڈالی ،اوون میں دو منٹ چکر لگوایا پھر مکسچر کیتلی میں ڈال،چولہے پہ رکھ دیا ۔
واپس کمرے میں آیا تو ہمراز ابھی تک بغلوں میں ہاتھ دبائے بیٹھا تھا،میری سوالیہ نگاہ کو بھانپ کر کہنے لگا
“یخ ہاتھوں سے ٹھنڈا دروازہ بجایا ہے، ہاتھ دُکھ رہے ہیں۔ ”

میں کہنے لگا کہ دروازہ بھی دُکھ رہا ہوگا پھر چپ چاپ بیٹھ گیا،جانتا ہوں کہ ہمراز پیدائشی فنکار ہے، اس لئے پورا میراثی ہے ۔غریب آدمی کی سردیاں ویسے بھی زیادہ ٹھنڈی اور گرمیاں تپی ہوئی ہوتی ہیں ۔

اس کی رہی سہی کسر مہنگائی نے نکال رکھی ہے ۔زندگی کے اس ادھورے کمبل سے مغل بچہ دہلی ڈھانپتا ہے تو کلکتہ ننگا ہوجاتا ہے۔

“صبح صبح یلغار کی وجہ “؟
میں نے پوچھا تو ہمراز نے بغل میں سے ہاتھ نکال کر میرے گولڈ لیف کے پیکٹ سے کیپسٹن کا سگریٹ نکال کر سلگایا ۔
“یار مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے “؟
اس نے مسکین سا کش لگا کر کہا تو میرا ہاسا نکل گیا۔

“تم نے غلط ٹائم پہ غلط دروازہ کھڑکایا ہے ۔دوگھنٹے بعد اگر بینک کا گیٹ اتنے زور سے بجاتے تو تمہارے ساتھ،میرا تین لاکھ کا قرضہ بھی اُتر جاتا۔ ”

یہ سن کر ہمراز نے ملامتی نظر سے مجھے دیکھا اور کہا
“دیکھ مرزا،کبھی راتیں لمبی ہوتی ہیں ،اور کبھی دن چھوٹے،پھر تُو ۔۔تو یار ہے ۔جانتا ہے کہ میں اگر فنکار نہ ہوتا تو زندگی اتنی بیکار نہ ہوتی،اس لئے انکار مت کرنا ۔”

ہمراز مغل کے قافیے میں ضرورت کی گھٹن تھی ،میں نے تھوڑا توقف کیا اور کہا
“یار مغل !میرے حالات تمہارے سامنے ہیں ۔میرا تو بجلی کا بل بھی تب جمع ہوتا ہے جب لائن مین پلاس پکڑ لیتا ہے ۔گھر کا کرایہ تب دیتا ہوں جب مالک مکان تالہ لے کر آجاتا ہے،چھوٹا گوشت بڑی عید پہ اور بڑا گوشت چھوٹی عید پہ پکتا ہے،میرے تو بچے پھل بھی اس وقت کھاتے ہیں جب ریڑھیوں والے ۔۔سو روپے کا ڈھائی درجن۔۔۔ چیخنے لگتے ہیں  ۔
تم مجھ سے مدد مانگ رہے ہو جس کی دس سال کی بیٹی فرمائش کرنے سے پہلے پوچھتی ہے
“پاپا پچاس روپے ہیں ۔”؟

اتنا کہہ کر میں اٹھا اور کچن سے چائے لے آیا ۔
مغل ایسے چپ بیٹھا تھا جیسے بہادرشاہ ظفر رنگون میں بیٹھتا تھا ۔
اس نے چائے کا ایک گھونٹ لیا ۔
“ذرا چینی پکڑنا۔۔۔بھابھی نے چینی کم ڈالی ہے ”
“کہا ناں ۔۔تیری بھابھی گھر نہیں ہے ،چینی ختم ہے اور دکانیں ابھی کھلی نہیں ،ویسے تمہیں کتنے پیسوں کی ضرورت تھی “؟

“تین ہزار کی ،چھٹیوں کی وجہ سے ایک اسکول کی وال پینٹنگ کا کام ملا تھا ۔چار دن ہوگئے رنگ لگا کر بیٹھا ہوں،دھند جان ہی نہیں چھوڑرہی،رنگ سوکھ جائیں تو ان پہ کچھ کام کروں،گھر میں سخت فاقہ ہے۔ ”

ڈیجیٹل پرنٹنگ کے باوجود مغل نے ابھی تک وال پینٹنگ نہیں چھوڑی تھی۔مزے کی بات اسے اپنے جیسے قدامت پسند گاہک بھی مل جاتے تھے ،چنانچہ یہی ہونا تھا ۔میں چائے کے خالی کپ اٹھا کر کچن میں آگیا ۔

اپنی بیٹی فاطمہ سے پوچھا
“گھر میں کچھ پیسے ہیں “؟
اس نے حسبِ  معمول پہلے نفی میں سر ہلایا ۔پھر میری شکل دیکھ کر کہنے لگی
“پاپا ہم سب نے مل کر آپ کی سالگرہ کا کیک لانے کا سوچا تھا ،اکیس بائیس سو ہوں گے۔ ”

اتنا کہہ کر اس نے الماری میں سے پرس نکال کر پیسے گنے،ڈیڑھ سو چھوڑ کر دوہزار میرے ہاتھ پہ رکھ دیے ۔پانچ سو میری جیب میں تھے ۔پچیس سو لاکر میں ہمرازمغل کو دیے ۔
وہ پیسے لے کر چلا گیا ،میں دوبارہ کمبل میں گھس گیا ۔دس بجے اٹھا تو دیکھا مہر ساجد کی کال مِس تھی ۔
میرے فون کے جواب میں کہنے لگے
“چائے بنواؤ ،آرہا ہوں ،ناشتہ مل کر کریں گے ۔”
پندرہ منٹ بعد ساجد شاد بڑا سا کیک لئے آگئے ۔

پتہ نہیں مجھے کس کا شکریہ ادا کرنا ہے ۔؟
ہمراز مغل کا،بچوں کا، ساجد شاد کا یا پروردگار کا جس نے مجھے اتنی خوبصورت زندگی دی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے شکریہ تو مجھے بیگم کا بھی ادا کرنا چاہیے جس نے عین سالگرہ والے دن بہن کے گھر جاکر مجھے ایک دن جینے کا موقع دیا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply