چسکا اور ٹھرک۔۔محمد خان چوہدری

شرم ہم کو مگر نہی آتی ۔۔۔
افسوس صد افسوس ہم مرد لوگ جن کو نگاہیں نیچی کرنے کا حکم ہے،

اپنی  ذہنی بیماری کی وجہ سے ہر عورت کو صرف ہوس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،
ہمارے تصورات میں ہر وقت نیلی فلم چھائی  رہتی ہے۔

اور ہم جیسے تو تحریر میں بھی اچھی خاصی پورن دکھا دیتے ہیں،
لیکن جب ہم فحاشی اور عریانی کے خلاف لکھتے یا بولتے ہیں تو وہ ہمیں صرف عورتوں کی نظر آتی ہے۔

کیا ہم خود جب صرف دھوتی باندھ کے پھرتے ہیں،
سینہ کھلا ہوتا ہے ٹانگیں آدھی عُریاں ہوتی ہیں،
اور آہنگی اشکال نمایاں ہوتی ہیں،
تو کیا عورتوں کے لیے ہماری عریانی نہیں  ہوتی؟

کیا عورت کے اندر مادہء شہوت نہیں  ہوتا،
کیا عورت کے جذبات آدھ ننگا مرد دیکھ کے برانگیختہ نہیں  ہوتے؟

اور یہ جو ہم ٹائٹ ٹراؤزرز ،پہن کے
عقبی بدن کی، جو سب سے زیادہ کشش انگیز ہے،
نمائش کرتے  ہیں۔۔
تو یہ پردہ کے احکام ہم پہ  لاگو کیوں نہیں ہوتے؟

کہا جاۓ گا مرد کا ستر تو ناف سے نیچے ٹانگوں تک ہے،
یہ کس وقت اور کس کام کے لیے ہے،
یہ حکم نماز پڑھنے کے ستر کے بارے میں ہے،
با امر مجبوری وہ بھی۔۔

جوان بیٹے کی ماں بھی گر جوان ہو یا جوان بہن ہو
تو ان کوکو تخلیہ میں نہیں  رہنا چاہیے،
تو اگر باپ جوان ہو اور بیٹی بھی جوان ہو جاۓ
تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

دین کے معاشرتی احکام عورت اور مرد پر یکساں لاگو ہیں

مسئلہ یہ ہے کہ عورتوں میں مولوی عورت نہیں  ہوتی،
اور جو ہوتی ہیں
وہ بھی اپنے مولوی ابا کی مرضی کی تبلیغ کرتی ہیں،
اعمال کا دار و مدار نیتوں  پر ہے،
نیت بے ایمان ہو تو حجتوں کے ڈھیر مل جاتے ہیں

اور یہ جو صبح شام ہر نوع کے دانشور
حقوقی نسواں پہ  بحث کر رہے ہوتے ہیں

تو ان میں سے دائیں بازو کے مفکرین کا ہاتھ
ان کے کرتے کی دائیں طرف کی جیب میں ہوتا ہے
اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مقررین کا ہاتھ
ان کی پینٹ کی بائیں پاکٹ میں گھسا ہوتا ہے،

عورت کا لفظ ان سب کے منہ سے،
رال ٹپکنے کی طرح ادا ہوتا ہے،

اور جب خواتین کی عریانی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو
ہم نے ان کے چہرے کے تاثرات کو غور سے دیکھا ہے،
یوں لگتا ہے کہ وہ تصور میں واقعی کسی عورت کو برہنہ دیکھ رہے ہیں،

ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ دونوں جانب کے حضرات
عورت کے کردار کو نہیں ، شلوار کو دیکھتے ہیں۔۔۔

بس اس کے بدن، پہناوے، لباس، کم لباسی، اور بے لباسی کا  ذکر کر کے
حظ اٹھاتے اور ذہنی عیاشی کا مزہ لیتے ہیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حقوق نسواں نہ ان کے پاس ہیں
اور نہ ان کا ان سے کچھ لینا دینا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply