دوغلے لوگ—- عمیر اقبال

کہتے ہیں ایک انسان کے تین چہرے ہوتے ہیں ایک جو وہ اپنے گھر والوں کو دکھاتا ہے، دوسرا وہ اپنے دوست احباب کو دکھاتا ہے، تیسرا وہ چہرہ جو وہ کسی کو نہیں دکھاتا اور یہی اس کا اصلی چہرہ ہوتا ہے۔ اب آپ دیکھیں تو سوشل میڈیا فیس بک وغیرہ جیسے ہماری لازمی حصہ بن چکا ہے اور آپ اگر غور کریں تو یہاں اکثریت مرد و خواتین آپ کو ایسی نظر آئے گی جو بہت مہذب بااخلاق ہوگی، ان کی پروفائل دیکھیں تو بہت ہی اچھی اچھی پوسٹ شئیر کی ہوتی ہے ان سے گفتگو کی جائے تو زبان میں بہت مٹھاس نظر آتی ہے۔

یہ سب ہمارے معاشرے کے ہی لوگ ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا مجموعی طور پر رویہ تلخ کیوں ہے؟ ایسے مہذب اور بااخلاق لوگ ہمیں عملی زندگی میں نظر کیوں نہیں آتے..؟ کیا وجہ ہے ہمیں اپنے معاشرے کی اکثریت میں عدم برداشت نظر آتی ہے..؟
مجھے تو اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے وہ ہے ہمارا “دوغلہ پن” یا “منافت”۔۔۔

ہمارے معاشرے میں بے راوی بہت تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اور لوگوں کا جنس مخالف کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں ان میں ایک ہتھکنڈا جو فیس بک وغیرہ پر سب سے زیادہ اپنایا جاتا ہے وہ “میٹھی زبان اور جنس مخالف سے ہمدردی ظاہر کرنا ہے”

بہت زیادہ مرد اور کچھ خواتین بھی اس حربے کو استعمال کر کے جنس مخاف کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، ایسے لوگوں کا جھکاو آپ کو ایک طرف نظر آئے مطلب جس مخالف کی ہمدردی میں بولیں گے بات کچھ بھی ہو رہی ہو ایسے لوگ اپنے ہی مشن پر ہوتے ہیں ایسی باتیں کی جائیں کہ کوئی تو ہمارے جال میں پھنس جائے کوئی تو ہم سے متاثر ہو جائے، یہ لوگ سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں یہ جنس مخالف کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملائیں گے، جب کہ حقیت یہ ہے کہ اختلاف رائے ہر کسی میں پائی جاتی ہے وہ مرد ہو یا عورت۔ اور جب کوئی ان کی باتوں سے مثاثر ہو کر ان سے تعلق بڑھاتا ہے تو یہ آہستہ آہستہ اپنی اوقات دکھانا شروع کر دیتے ہیں پھر ان کا وہ چہرا سامنے آتا ہے جو وہ کسی کو نہیں دکھاتے اکثر اوقات جب تک ان کے بھیانک چہرے کو انسان پہچانتا ہے ان کے عزائم ظاہر ہوتے ہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، پھر بس پچھتاوا ہی بچتا ہے نتجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارا سب پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔

اسلام نے ہمارے لئے حدود مقرر کر دی ہیں، کسی نامحرم سے شریعی وجہ یا مجبوری کے بغیر بات کی اجازت نہیں ہے اور اجازت بھی ایسے ہے کہ جب کسی نامحرم سے بات کریں تو تلخ یا سخت لہجے میں بات کریں تاکہ کسی نامحرم کے دل میں کوئی بدگمانی پیدا نہ ہو۔

لیکن ہمارا حال الٹا ہے مردوں کو دیکھیں جو اپنے گھر کی محرم عورتوں ماں، بیوی، بہن سے مسکرا کر بات کرنا پسند نہیں کرتے وہ فیس بک پر غیرمحرم خواتین کے آگے جی جی کر رہے ہوتے ہیں کسی کا نام بھی لیتے ہیں تو ساتھ جی لگا کر بہت ہی مہذب اور شائستہ بنے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے اگر وہ نامحرم سے تلخ لہجے میں بات کریں گے تو ان کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالے گی۔

پھر خواتین کو دیکھیں تو ان کا بھی غیرمحرم مردوں سے بات کرتے وقت انداز زیادہ مختلف نہیں ہوتا، ساری مٹھاس غیرمحرم سے بات کرتے زبان میں آجاتی ہے، ایسی خواتین کی تعداد کم ہے لیکن ہے ضرور۔

بعض اوچھی قسم کی خواتین خود اپنا تماشہ بنواتی ہیں مردوں سے فری ہو کر، پھر مرد نازیباں زبان کا استعمال کرتے ہیں تو پھر ان کو برا لگتا ہے اور کچھ خواتین روتی دیکھی ہیں جو کہتی ہیں کہ میں ایسی نہیں تھی بس اس کی باتوں میں آگئی، اس کی باتیں مجھے اچھی لگی، پھر کیا ہوا اس نے اپنے اوقات دکھا دی، بات کمنٹ سے شروع ہوتی ہے پھر ان باکس میں اور اس کے بعد بہت دور تک جاتی ہے جس کا انجام صرف رونا ہی ہوتا ہے، اس لئے پہلے ہی اللہ کی مقرر کردہ حدود سے باہر نہ نکلیں۔

میں یہاں اپنی بات کرتا ہوں آپ لوگوں کو نہیں معلوم کہ میں اپنی عملی زندگی میں کیسا ہوں، یہ میں ہی جانتا ہوں، اتنی لمبی بات کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے سوشل میڈیا پر مجھ سمیت کوئی بھی انجان مرد یا عورت قابل اعتبار نہیں ہے کسی کی باتوں میں ہرگز نا آئیں یہاں لوگ ویسے نہیں ہوتے جیسی باتیں کرتے ہیں کسی کی شخصیت کا پتا اس کی عملی زندگی سے ہی چلتا ہے، بعض اوقات انسان کی آنکھوں کے سامنے ہونے والا عمل بھی دھوکہ ہوتا ہے لہذا مرد ہوں یا خواتیں خاص طور پر خواتین کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

فیس بک ہو، گھر ہو یا باہر کی زندگی نامحرم سے دوری بنا کر رکھیں۔ کسی نامحرم سے ہمدردی کی امید رکھنا ہی بیوقوفی ہے اور کسی نامحرم کو بھائی یا بہن کہہ دینے سے بھی وہ نامحرم ہی رہے گا ایسا کر کے آپ خود کو ہی دھوکہ دیں گے اور کچھ نہیں..!!

Facebook Comments

عمیر اقبال
حقیقت کا متلاشی، سیاحت میرا جنون ، فوٹوگرافی میرا مشغلہ ماڈلنگ میرا شوق،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply