سفرِ بلوچستان/ مُولا، جھل مگسی و بولان(1)–ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بُخاری

دریا سے نکل کر  میں پتھروں پہ آ بیٹھا۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور خنکی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔
پتھروں پہ بیٹھے بیٹھے پیاس محسوس ہوئی تو اچانک کسی نے جگ میں دریائے مُولا کا پانی بھر کے  تھما دیا۔ میں پیاس کا مارا جگ کو منہ لگا کر  غٹک گیا اور دریائے مولا کے پانی نے بلوچستان کی پوشیدہ محبت کو 14  برس بعد، میرے روم روم میں جگا دیا۔
اِس پانی نے بچپن کی اُس محبت پر امر ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جو میں دل میں لیئے گھوم رہا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان سے میرا عشق نیا نہیں ہے
یہ تب کی بات ہے جب میں شعور کی منزلوں میں قدم رکھ رہا تھا۔
اللہ بھلا کرے ابا جی کے زمانہ طالب علمی کے دوست ”جبار خان” کا جو کوئٹہ میں رہتے تھے۔ ان سے ہمارے بہت اچھے اور خاندانی تعلقات تھے۔ ان کی بدولت مجھے کوئٹہ اور بلوچستان تب دیکھنے کا موقع ملا جب میں ملتان، لاہور، کراچی اور فیصل آباد جیسے بڑے اور قریبی چہروں سے روشناس تک نہ تھا۔ یوں خانپور میں رہنے والے اس چھوٹے بچے کے لیئے بلوچستان کی سرزمین وہ پہلا حیرت کدہ تھا جو اس کی سوچ و تخیل کو جھنجھوڑ گیا۔

بچپن میں جب میں تقریباً آٹھ یا نو سال کا تھا تو خالہ کے ساتھ بذریعہ ریل اکیلے کوئٹہ کا پہلا سفر کیا۔ یہ سفر آج بھی میرے ذہن کے کسی نہال خانے میں کسی فلم کی طرح محفوظ ہے۔
میری زندگی کا غالباً پہلا بڑا سفر۔۔۔۔
کوئٹہ ایکسپریس رات کو نکلی تھی خانپور جنکشن سے اور تب یہ چھوٹا لڑکا کھڑکی والی سیٹ پر قبضہ جما کہ بیٹھ گیا۔ یہ سیٹ اس کی پسندیدہ تھی کہ بہت سے نظارے دیکھنے کو ملتے تھے۔ ٹرین کا سفر مبہوت کر دینے والا تھا۔ روہڑی سکھر اور جیکب آباد تک تو وہی نظارے تھے جو پنجاب میں دیکھنے کو ملتے ہیں، اصل مزہ تو اس کے بعد شروع ہوا۔ یہ لڑکا بس کہنی کھڑکی سے ٹکائے رات کو آدھے چاند کی روشنی میں اس سر زمین کو دیکھے جا رہا تھا جس سے اسے عشق ہونے والا تھا۔ اُردو اس کا پسندیدہ مضمون تھا سو وہ شوق سے مدھم روشنی میں اسٹیشنوں کے منفرد نام پڑھتا جا رہا تھا۔ ڈیرہ اللہ یار، ڈیرہ مراد جمالی اور سبی گزرا تو اس سرزمین کے اِسرار اور بڑھ گئے۔ آبِ گم، مچھ، کولپور اور سپیزند کے اسٹیشنوں نے ایک عجیب سا تاثر قائم کر دیا تھا۔ دن میں رات کر دینے والی بولان کی سرنگوں سے اُسے ڈر نہیں لگا بلکہ وہ منہمک ہو کے گنتا گیا اور ساتھ گزرتی سڑک کو دیکھتا رہا۔

خالہ جان پوچھتی رہیں کہ کچھ کھانا ہے۔۔ انکار!
دودھ پینا ہے۔۔۔۔۔انکار!
کچھ دیر سو جاؤ بیٹا ۔۔۔ نیند نہیں آ رہی!

کیوں نہ اسے تو دیکھنا تھا۔ وہ منظر جو شاید اسی کے لیئے تخلیق کیئے گئے تھے۔ وہ سر زمین جو اپنے آپ میں ایک حیرت کدہ ہے۔ صبح تک وہ دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ اسے بلوچستان کے چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر نیلے ڈرم میں بِکتا ہوا پانی بھی یاد ہے جس پر اُس کے چھوٹے سے ذہن نے یہ سوچا تھا کہ یہاں پانی پیسوں سے کیوں ملتا ہے۔۔ ؟
ہماری طرح یہ مفت پانی کیوں نہیں پی سکتے۔۔؟؟
کیا یہ لوگ انسان نہیں؟؟؟
اور جب ایک جگہ ٹرین رکی تو اسے بتایا گیا کہ یہاں ٹرین کو دوسرا انجن لگے گا
اس کا دل کیا کہ ٹرین سے اترے اور اس دوسرے انجن کو ریل سے جڑتا دیکھے۔ لیکن اس کے بڑوں نے اسے جانے نہ دیا کہ وہ بہت چھوٹا تھا۔
ٹرین چلتے چلتے جب کوئٹہ پہنچ گئی تو اس شہر کی ہوا اس کے جسم سے ٹکراتے ہی اسے دیوانہ کر گئی اور اس چھوٹے سے پہاڑی شہر کی دیوانگی سمجھو خون میں رچ بس گئی۔ اسی کی بدولت پھر کوئٹہ کے تین سفر اور ہوئے۔

اب وہ لڑکا سمجھدار ہو چکا تھا۔
2008 میں کوئٹہ کا چوتھا اور آخری سفر ہوا۔ تب کچھ ہوش آ چکا تھا۔ جعفر ایکسپریس نے رات کو رحیم یار خان اسٹیشن چھوڑا تو کچھ دیر بعد نیند کے جھونکے آنے لگ گئے۔ تب ماں جی ساتھ تھیں۔ تھکن کے  مارے نیند ایسی آئی کہ صبح ہی آنکھ کھلی۔ فجر کا وقت گزرے کچھ ہی دیر ہوئی تھی۔
جعفر ایکسپریس کی بڑی بڑی شفاف کھڑکیوں سے وہ وہ منظر دیکھے کہ آنکھیں دنگ رہ گئیں۔ ٹرین تیزی سے بلوچستان کے لق و دق صحرا سے گزر رہی تھی۔ پہاڑوں کو پیچھے چھوڑ رہی تھی اور دور کہیں ان پہاڑوں سے سورج ابھر رہا تھا۔ چھوٹی چھوٹی ندیاں اور نالے اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ میری نیند سے اَٹی آنکھیں فوراً پھیل گئیں۔
یہ کیا تھا
بلوچستان کا حسن۔
ویرانے، صحرا، پہاڑ، ندیاں، پل، سرنگیں، پرانے اسٹیشن، بیابان اور قدرت
یہ وہ کنوارا حسن تھا کہ چھونے سے بھی میلا ہو جائے۔ اچھا ہوا کہ تب موبائل جیسی بلا میرے پاس نہیں تھی ورنہ سارا وقت تصاویر اتارتے گزر جاتا۔
ہائے
بس وہ مناظر آنکھوں میں کھب کے  رہ گئے اور آج،
آج وہی مناظر اس لڑکے کو چودہ سال بعد اس دھرتی پر لے گئے جہاں جانے کے لیئے وہ تڑپتا تھا۔
لیکن اس بار کچھ نئی جگہیں اور نئے تجربات اس کے منتظر تھے۔ رب نے اس بار بھی اس پر کچھ آشکار کرنا تھا۔
کچھ مناظر، کچھ قدرت کے شاہکار، کچھ نا انصافیاں، کچھ درد، کچھ آنسو اور کچھ اپنے لوگ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاہور سے اپنے شہر ٹرانسفر کے بعد کب سے بلوچستان جانے کا سوچ رہا تھا۔ فیس بک پہ ملنے والے دوست ”محمود کھوسہ” وہاں کی تصاویر لگا لگا کر دل جلاتے اور ہم منصوبہ بندی کر کے  پھر کسی مجبوری کے تحت بیٹھ جاتے۔ آخر 2022 کے سیلاب کے بعد پکا ارادہ کیا کہ اب تو ان علاقوں میں جانا ہی جانا ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت کے لیئے بھی اور حالات کا جائزہ لینے کے لیئے بھی۔
اس بار پھر پلان بنا کہ دو بار ٹالنا پڑا لیکن ارادہ مضبوط تھا سو نومبر کے پہلے ہفتے ملک میں چل رہے احتجاجی دھرنوں کے باوجود ہم اپنا سامان باندھ، ادویات کے ڈبے اٹھا کے  رات ایک بجے سکھر بائی پاس پہ کھڑے تھے۔ ڈیرہ اللہ یار سے تعلق رکھنے والے ہمارے پیارے دوست محمود کھوسہ اپنے تین کزنز اور دوستوں سمیت وہاں موجود تھے۔ آفتاب احمد، وحید کھوسہ اور ذوالفقار کھوسہ بھائی اتنی اپنائیت سے ملے کہ پہلی ہی ملاقات میں برف پگھل گئی اور رات کو ہم گپ شپ کرتے ضلع جعفر آباد کے صدر مقام ڈیرہ اللہ یار پہنچ گئے۔

جیکب آباد کے پاس واقع ضلع جعفر آباد، ڈیرہ اللہ یار (جھٹ پٹ) کی تحصیل پر مشتمل ہے ۔ ضلع کا نام تحریک آزادی کے سپاہی اور قائداعظم کے ساتھی ”سردار جعفر خان جمالی” کے نام پر رکھا گیا ہے۔ صدر مقام ڈیرہ اللہ یار کو پہلے جھٹ پٹ کہا جاتا تھا لیکن مقامی سردار ”میر اللہ یار کھوسہ” کی وفات کے بعد اِسے ان کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔

یہ علاقہ جمالی، کھوسہ اور مگسی قبائل کا گڑھ ہے۔ تعلیمی لحاظ سے یہ علاقہ بہت پسماندہ ہے۔ سندھ سے بذریعہ ریل بلوچستان کی طرف جائیں تو سب سے پہلا ضلع جعفرآباد کا ہے۔ کچھی کے میدان کے باعث یہ بلوچستان کے زرخیز اضلاع میں سے ایک ہے۔

اگلی صبح ناشتے سے فارغ ہو کے  سامان باندھا اور پروگرام کے مطابق جھل مگسی کی راہ لی۔سکھر کو کوئٹہ سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پر ڈیرہ مراد جمالی اور نوتال تک سفر کیا جس کے بعد ہم مغرب کی جانب مڑ گئے۔ یہاں سے ہمارا اصل امتحان شروع ہوا۔ ضلع جھل مگسی کے صدر مقام گنداواہ کو جانے والی یہ سڑک بالکل نئی تعمیر کی گئی تھی لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں نے اسے جگہ جگہ سے اکھیڑ دیا تھا۔ پل ٹوٹ چکے تھے اور سیلابی پانی کو راستہ دینے کے لیئے بہت سی جگہوں پہ کٹ لگائے گئے تھے۔ کہیں آف روڈ سفر تو کہیں پکی سڑک پر سفر کرتے کرتے ہم فتح پور شریف سے ہو کے  گنداواہ پہنچ گئے۔ گنداواہ جو ضلع جھل مگسی کا صدر مقام ہے ایک پرانا اور چھوٹا سا شہر ہے جہاں صرف سرکاری عمارتیں ہی بہتر حال میں نظر آئیں۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور سہولیات کا فقدان۔ یہاں سے کچھ ضروری سامان پکڑا اور کوٹرہ سے ہو کر  ہم جنوب مغرب میں واقع پیر چھتل نورانی پہنچ گئے جو ضلع کا اہم ترین سیاحتی مقام ہے۔

جھل مگسی نصیرآباد ڈویژن کا دوسرا بڑا ضلع ہے جس میں جھل مگسی و گنداواہ کی تحصیلوں سمیت میر پور سب تحصیل شامل ہے۔ 1991 سے پہلے یہ ضلع کچھی کا حصہ تھا۔ ضلع کا نام ”جھل” شہر کے نام پر ہے جو مشہور بلوچ قبیلے مگسی کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ جھل مگسی اپنے خوبصورت قدرتی مقامات جیسے درگاہ و چشمہ پیر چھتل نورانی ، دریائے مُولا، اور پیر لاکھہ کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ مقبرہ میاں صاحب، مقبرہ موتی گہرام، بھوتانی مقبرہ، فتح پور شریف کی درگاہیں، مقبرہ اِلتاز خان اور خانپور اس علاقے کی تاریخی جگہیں ہیں۔ جھل مگسی کے صحرا میں ہر سال جیپ ریلی بھی منعقد کی جاتی ہے۔ رتو ڈیرو کو خضدار سے ملانے والی موٹروے اس ضلع سے ہو کر گزرتی ہے۔ دریائے مُولا یہاں کا اہم دریا ہے۔ یوسف عزیز مگسی اور ذوالفقار علی خان مگسی یہاں کے اہم نام ہیں۔

بات ہو رہی تھی پیر چھتل نورانی کی۔ جھل مگسی کے بیابانوں میں آباد اس جگہ پر حضرت پیر چھتل شاہ نورانی کی درگاہ ہے۔ یہ مزار ایک چبوترے پر واقع ہے جس کی چھت نہیں ہے شاید اس لیئے انہیں پیر چھتہ بھی کہا جاتا ہے۔
اس جگہ کی وجہ شہرت یہاں کھجور کے درختوں کے بیچ واقع وہ خوبصورت تالاب ہے جس کے زمُردی مائل پانی میں سنہری مچھلیاں (ڈمبرا) تیرتی پائی جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پانی دھنک کے رنگوں کی طرح کئی رنگ بدلتا ہے۔ کبھی فیروزی تو کبھی سبز، کبھی زمردی تو کبھی نیلا مانو جیسے نیلم، زمرد، فیروزے و عقیق یہاں غسل کرنے آتے ہوں اور اس تالاب میں اپنے اپنے رنگ چھوڑ جاتے ہوں۔۔۔۔۔
تالاب کا پانی اتنا شفاف ہے کہ تہہ میں پڑے پتھروں سمیت یہ مچھلیاں دور سے ہی تیرتی نظر آ جاتی ہیں۔ لمبی لمبی معصوم سی مچھلیاں انسانوں کو دیکھتے ہی تالاب کے کنارے پہ ہو جاتی ہیں۔ یہ مچھلیاں بالکل بے ضرر ہیں اور ان کو پکڑنے یا شکار کرنے پر پابندی ہے۔ اس اقدام کی وجہ سے نہ صرف ان کی افزائش بہترین طریقے سے ہو رہی ہے بلکہ اس جگہ کا حسن بھی قائم ہے۔ چھتل نورانی تالاب کا پانی ایک پُراسرار پتھر میں سے نکلتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تالاب کبھی نہیں سوکھتا۔ اس کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ اس کا پانی سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں سرد ہوتا ہے۔

یہ بلا شک و شبہ بلوچستان کا خوبصورت اور منفرد مقام کہلانے کا حق دار ہے۔ یہاں ہم نے تالاب میں نہانے سمیت مچھلیوں کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ دور دور سے لوگ اس جگہ پکنک منانے آتے ہیں۔ یہاں محمود بھائی کے مقامی دوست سلیم بھائی نے ہماری تواضع روایتی مصالحے دار مٹن، گنوار کی سبزی اور ٹماٹر کے سالن سے کی۔ روایتی اس لیئے کہ ہر علاقے کے اپنے مخصوص مصالحے اور پانی ہوتا ہے جس کی وجہ سے کھانوں کا ذائقہ بدلتا رہتا ہے۔ اور یہاں کا ذائقہ انتہائی لاجواب تھا۔

کھانے سے فارغ ہو کے  ہم نے اپنا سامان باندھا اور گاڑی سے بائیکس پر منتقل کیا۔ کیونکہ آگے کا راستہ صرف جیپ، ڈالے، بیل گاڑی یا موٹر سائیکل پر طے کیا جا سکتا تھا۔ چار موٹر سائیکلوں پر ہم لوگ سوار ہوئے جن میں سلیم بھائی اور ان کے تین مددگار دوست بھی شامل تھے۔ چونکہ میزبانوں کی طرف سے کیمپنگ اور کھانے کا سامان پہلے ہی یہاں تک پہنچا دیا گیا تھا سو گاڑی سے ضروری اشیاء پکڑیں اور سفر شروع کیا گیا۔

کھجوروں کے جھنڈ میں سفر شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے پکی سڑک ختم۔ ایک کٹھن اور یادگار سفر کی شروعات ہو گئی۔ جھل مگسی کے بہترین لینڈ اسکیپ سے لطف اندوز ہوتے ہم پتھریلے راستوں پر رواں دواں تھے۔ کبھی پہاڑ تو کبھی بیابان، کبھی کھجور کے جھنڈ تو کبھی رنگ برنگ جھاڑیاں۔ ذوالفقار بھائی کی مہارت نے مجھے وقت پہ اس جگہ لا پہنچایا جہاں بس پتھر ہی پتھر تھے۔ بڑے، چھوٹے، کائی سے لپٹے ہوئے اور سنگِ مرمر کی طرح سفید پتھر ہر جگہ بکھرے ہوئے تھے۔ اِس جگہ کو میں نے ”پتھروں کا صحرا” کا نام دیا۔ ان پتھروں کے پیچھے نالے کی صورت میں دریائے مُولا بہہ رہا تھا اور دور چٹیل پہاڑوں کے پیچھے سورج غروب ہونے کو تھا۔ بائیکس ایک جگہ کھڑی کر کے  ہم کچھ آگے گئے اور نیکریں پہن کر  دریا پار کیا۔ ایک بہترین جگہ دیکھ کے خیمے وہیں لگا دیئے اور کچھ دیر دریا میں غسل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

دریا سے نکل کے  میں پتھروں پہ آ بیٹھا۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور خنکی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔

پتھروں پہ بیٹھے بیٹھے پیاس محسوس ہوئی تو اچانک کسی نے جگ میں دریائے مُولا کا پانی بھر کے  تھما دیا۔ میں پیاس کا مارا جگ کو منہ لگا کہ غٹک گیا اور دریائے مولا کے پانی نے بلوچستان کی پوشیدہ محبت کو چودہ برس بعد، میرے روم روم میں جگا دیا۔

اِس پانی نے بچپن کی اُس محبت پر امر ہونے کا ٹھپہ لگا دیا جو میں دل میں لیئے گھوم رہا تھا۔۔۔۔۔۔
دریائے مُولا اس علاقے کا سب سے بڑا اور واحد دریا ہے جو اپنی معاون ندیوں سمیت
ضلع جھل مگسی کے بہت سے علاقوں کے لیئے پانی کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ یہ دریا ضلع خضدار میں وسطی براہوی کے چٹیل پہاڑوں سے نکلتا ہے اور بہت سے ندی نالوں کا پیٹ بھرتا ہوا جھل مگسی تک آتا ہے۔ اس کے کنارے مولا چھٹوک سمیت بہت سے دلکش قدرتی مقامات موجود ہیں۔ کئی ایک مخفی بھی ہیں جن میں سے ایک جگہ ہم نے کیمپنگ کی جو کوہان کے قریب ضلع خضدار کی حدود میں آتی تھی۔
رات خیمے لگانے کے بعد کپڑے بدلے اور لکڑیاں جلا کر سلیمانی قہوہ تیار کیا گیا۔ جان میں جان آئی تو مقامی دوستوں سے گپ شپ کا دور چلا۔ چاند اپنے جوبن پہ تھا لیکن شرارتی بادل بار بار اس کے چہرے کو چھپانے کی کوشش میں تھے جیسے کسی دوشیزہ کی لَٹیں ہوا سے اُڑ اُڑ کے  اس کے چہرے کو چھپا رہی ہوں۔

میں ایک زمانہ گرد، گرد پِھرا تو مجھ پہ کھلا
باہر نہیں ہے کچھ، جو بھی ہے گردباد مجھ میں ہے
بول پڑوں تو ڈھیروں باتیں نہ بولوں تو پہروں چُپ
آتش و انجماد مجھ میں ہے، کیا کیا تضاد مجھ میں ہے
(سید مہدی بخاری)

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply