• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اخبار کی ایک سُرخی اور خمینیؒ ڈاکٹرائن/نذر حافی

اخبار کی ایک سُرخی اور خمینیؒ ڈاکٹرائن/نذر حافی

یہ بات پہلے ہی مجھے کھٹک رہی تھی۔ ایک دن رائے یوسف رضا دھنیالہ صاحب نے بھی اس مسئلے کو چھیڑا۔ قلّتِ وقت کے باعث گفتگو قلمبند نہ ہوسکی۔ گفتگو کا خلاصہ یہی تھا کہ بھائیو!، لوگو!، دوستو! “یہ شہر طلسمات ہے، کچھ کہہ نہیں سکتے، پہلو میں کھڑا شخص فرشتہ ہے کہ بلا ہے۔” اس بات سے یوسف رضا صاحب بھی اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں پر لوگ کسی فرشتے اور بلا میں فرق کرنے پر راضی ہی نہیں۔ ویسے بھی دنیا میں فرشتوں کو بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔ آج ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ دنیا کے بعض ممالک میں شيطان پرستي (Satanism) بھی رائج ہے۔ شیطان پرستوں کے مطابق آپ جس فرشتے کی بھی پیروی کریں تو نجات پائیں گے، لہذا اس فکر کے حامل افراد ابلیس کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے تین بڑے فرقوں کے نام بھی مفت میں ہم سے جان لیجئے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے: ۱۔ موهومي فرقہ(gothic satanistis)، ۲۔ مذهبي فرقہ (veliqioussatanistis)، ۳۔ بوالهوسي فرقہ (stanic dabblers)۔

یقین مانئے! یہ انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ نہ مانے تو اللہ کی پاکیزہ ہستیوں کی بات بھی نہ مانے اور ماننے پر آئے تو ابلیس بھی اُسے ستاروں کی مانند نظر آئے۔ ہمارے نزدیک ابلیس کے بھی بہت سارے فائدے ہیں۔ ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس کے ذریعے مومنین اور منافقین کا فرق پتہ چلتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ شیطان کے ذریعے انسانوں کا امتحان بھی ہو جاتا ہے۔ اگر ہماری طرح کوئی شمار کرنے لگے تو ابلیس کے مزید فائدے بھی سامنے آئیں گے۔ گذشتہ دنوں روزنامہ جنگ کی ایک خبر کا مجھے بھی بہت فائدہ ہوا۔ اس خبر سے میرے ایک قدیمی دعوے کی تصدیق ہوگئی۔ خبر کی سُرخی کو بعض دوستوں نے روزنامہ جنگ کی شیطانیت بھی قرار دیا ہے۔ بہرحال سُرخی تو ملاحظہ فرمائیے: “آذربائیجان اسرائیل میں سفارتخانہ کھولنے والا پہلا اہل تشیع ملک بن گیا۔” کمال کی سُرخی ہے۔ اتنی اہم سُرخی پر داد نہ دینا بھی زیادتی ہوگی۔

میں اپنے تجزیات میں عرصہ دراز سے یہ بیان کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ اکثر اس انقلاب کو شیعہ انقلاب، مُلا انقلاب، نیز کافر اور زندیق۔۔۔ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے۔ میرے اور رائے یوسف رضا دھنیالہ صاحب کے درمیان جو گفتگو ہوئی تھی، اس کا بھی ایک بڑا حصّہ اسی پہلو پر متمرکز تھا۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان آیت اللہ خمینی ؒ کے افکار و نظریات سے لوگوں کو آگاہ ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ انقلاب کے آغاز میں ہی مغربی حکام اور مسلمان بادشاہوں نے ان افکار و نظریات کے مضمرات کو بروقت بھانپتے ہوئے انہیں روکنا ضروری قرار دیا۔ بہرحال اب تو اس پر بات ہونی چاہیئے کہ امام خمینی کے افکار و نظریات میں ایسا کیا تھا کہ جس کی بدولت ساری مشرقی و مغربی طاقتیں اور بادشاہتیں اُن کے خلاف صف آراء ہوگئیں۔ اس وقت روزنامہ جنگ کی مذکورہ سُرخی میں چھپی شیطانیت کو آشکار کرنے کیلئے امام خمینی ؒ کے افکار و نظریات کی مخالفت کے تین نمایاں اسباب نوٹ کر لیجئے۔

۱۔ جہانِ اسلام میں امام خمینی وہ پہلے لیڈر ہیں، جنہوں نے مسلمانوں کے درمیان جمہوریت کی بات کی۔ آپ نے اسلامی جمہوریت کا نظریہ پیش بھی کیا اور کامیاب بھی کیا۔ اس سے پہلے مسلمان علماء، بادشاہوں اور ملوکیت کیلئے کتابیں لکھتے اور آمریّت کو ہی دینی نظام کہتے تھے۔ بقولِ اقبالؒ:
فتنہ ملت بيضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطيں کا پرستار کرے
امام خمینی ؒ نے دینِ اسلام کی روشنی میں آمروں اور بادشاہوں کی اطاعت کو حرام قرار دیا۔ اسی طرح آپ کے نزدیک تھیوکریسی بھی خلافِ دین ٹھہری۔ آپ کے ہاں جس طرح بادشاہت و آمریّت حرام ہے، اُسی طرح کسی دینی طبقے کا اسلحے اور طاقت کے بل بوتے پر برسرِ اقتدار آنا بھی غیر مشروع اور حرام ہے۔ آپ کے نزدیک دیندار لوگ بھی صرف اُسی صورت میں حکومت کرسکتے ہیں کہ جب لوگوں میں انہیں مقبولیّت حاصل ہو اور وہ عوام کی رائے سے منتخب ہو کر اقتدار میں آئیں۔ صرف حافظِ قرآن، محدث یا فقیہ ہونے سے کوئی لائقِ اقتدار نہیں ہو جاتا۔ ایران میں جب عوام نے آپ کے نظریئے کو قبول کیا تو اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا تختہ اُلٹ گیا۔

اس صورتحال نے ساری عرب ریاستوں اور بادشاہوں کو شکست و ریخت کے خوف میں مبتلا کر دیا۔ خوفزدہ بادشاہوں نے لوگوں کو اسلامی جمہوریت کے نظریئے سے لاعلم رکھنے کی خاطر کافر کافر خمینی کافر کا نعرہ بلند کیا۔ ساتھ ہی اپنی اپنی بادشاہتوں کو بچانے کیلئے عراقی ڈکٹیٹر صدام سے ایران پر حملہ بھی کروا دیا، تاکہ لوگ اسلامی جمہوریت کو سمجھنے کے بجائے شیعہ و سُنی کے جھگڑے میں الجھ جائیں۔ بادشاہوں اور آمروں کی اس چالاکی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ایران تو ایک کامیاب اور باعزّت اسلامی جمہوریت کا تجربہ کر رہا ہے، جبکہ اس نظریئے کو نہ سمجھنے والے آج بھی آمریّت اور غلامی کے بدترین عہد سے گزر رہے ہیں۔ کہاں بادشاہت و آمریت اور تھیوکریسی کو عین اسلام کہنا اور کہاں بادشاہت و آمریت اور تھیوکریسی کو مسترد کرکے اسلامی جمہوریت کی بنیاد ڈالنا۔

۲۔ آپ کا دوسرا اور نمایاں کارنامہ شیعہ و سُنی کے اختلافات کو ختم کرکے متحد ہونے کی دعوت دینا تھا۔ آپ نے شیعہ و سُنی مسلمانوں کے اتحاد کیلئے صرف زبانی کلامی دعوے نہیں کئے بلکہ اہلِ سُنت اور شیعہ حضرات کے مفادات اور تحفظ کو بھی مساوی قرار دیا۔ چنانچہ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے پر آپ کا موقف شیعہ و سُنی فرقہ بندی سے بالاتر تھا۔ آپ نے ایک طرف تو یوم القدس منانے کاا علان کیا اور دوسری طرف ۱۲ ربیع الاوّل سے ۱۷ ربیع الاوّل تک مسلمانوں کے درمیان ہفتہ وحدت کو رائج کیا۔ اسی طرح مسلمانوں کو احترامِ باہمی کی ترغیب دی اور اہلِ تشیع کو اہلِ سنّت کے مقدسات کا احترام کرنا سکھایا۔ آپ نے قلم و کتاب، محراب و منبر سے نفرت پر مبنی تحاریر و تقاریر، علاقائی و نسلی تعصبات سے مملو گالی گلوچ اور فرقہ وارانہ لعن طعن کے بجائے معقول اندازِ گفتگو کو متعارف کرایا۔

آپ کے ان اقدامات کے باعث ایرانی عوام، متحد ہوئے اور ایران سے جہاں شاہی حکومت کا خاتمہ ہوا، وہیں ایران کے معدنی وسائل اور قدرتی ذخائر سے بھی امریکہ و برطانیہ اور سرائیل کا قبضہ ختم ہوگیا۔ یہ صورتحال استعماری طاقتوں اور مسلمان بادشاہوں کیلئے بہت پریشان کُن تھی، چنانچہ شیعہ و سُنی اتحاد کو سبوتاژ کرنے کیلئے فرقہ وارانہ تنظیمیں اور لشکر بنائے گئے، تاکہ مختلف ممالک میں استعماری مفادات اور عربی بادشاہتوں کا تحفظ کیا جا سکے۔ امام خمینی کے مقابلے میں فرقہ واریت کا مورچہ سنبھالنے والے تو آج استعمار کے نسل در نسل مقروض اور غلام ہیں، لیکن امام خمینیؒ کا وطن ایران عزت و سربلندی کے ساتھ آج سارے شعبوں میں ترقی کر رہا ہے۔

۳۔ امام خمینی کا تیسرا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے صدیوں سے مسلمانوں پر حاکم فرسودہ سوچ اور شکست خوردہ نظریات کا خاتمہ کیا۔ آپ سے پہلے مسلمانوں کے ہاں خصوصاً اہل تشیع کے ہاں یہ سوچ حاکم تھی کہ حضرت امام مہدی ؑ کے ظہور سے پہلے اسلامی حکومت کے لئے قیام کرنا حرام ہے۔ آپ نے اس سوچ پر خطِّ تنسیخ کھینچا۔ آپ نے اس کے بدلے میں یہ نظریہ دیا کہ اگر مسلمان ظالم بادشاہوں اور خائن حکمرانوں کے خلاف قیام نہیں کریں گے تو امام مہدیؑ کا ظہور بھی نہیں ہوگا۔ آپ نے ظہورِ امام مہدی ؑ کے لئے اپنی اپنی بساط کے مطابق قیام کرنا سب پر واجب قرار دیا۔ اس سے وقتی طور پر شیعہ مراجع بھی چونک گئے، تاہم ایرانی عوام نے اس نظریئے کو قبول کیا اور ایران میں نظریاتی طور پر پہلا اسلامی انقلاب وقوع پذیر ہوا۔ اس انقلابی حکومت کا ویژن آج بھی حضرت امام مہدیؑ کے ظہور کیلئے مقدمات فراہم کرنا اور راستہ ہموار کرنا ہے۔ کہاں یہ سوچ کہ امام مہدی ؑ سے پہلے قیام کرنا گناہ اور حرام ہے اور کہاں یہ نظریہ کہ اگر قیام نہیں کیا تو امام مہدیؑ کا ظہور بھی نہیں ہوگا۔

مذکورہ بالا تین نکات (اسلامی جمہوریت، سُنّی و شیعہ اتحاد اور حرکت و فعالیّت) کو چھپانے کیلئے دنیا کی ساری طاقتوں نے اپنی طاقت امام خمینی کے نظریات کو روکنے کیلئے صرف کی۔ اس دوران مسلسل یہ کہا گیا کہ ایران کا انقلاب ایک شیعہ انقلاب ہے۔ خمینی شیعہ کافر ہے۔ شیعہ کائنات کے بدترین کافر ہیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ جب آپ لوگوں کو بار بار کسی کے بارے میں یہ کہیں گے کہ فلاں کافر ہے، اور بدترین کافر ہے تو وہ انسان چاہے کتنا ہی مفید اور باصلاحیّت ہی کیوں نہ ہو، عام لوگ اُس سے دور ہو جائیں گے اور اُس کے افکار و نظریات پر توجہ نہیں دیں گے۔ محققین کو فراخدلی سے ایہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ استعماری طاقتیں اور مسلمان بادشاہتیں اپنے اس پروپیگنڈے میں کامیاب ہوئیں اور ہمارے معاصر حکمران و سلاطین پرست علماء، مسلمانوں کو “خمینی ڈاکٹرائن” سے غافل رکھنے میں کامیاب رہے۔

ایسے میں روزنامہ جنگ کی اس خبر کو سمجھنا اور بھی ضروری ہے “آذر بائیجان اسرائیل میں سفارتخانہ کھولنے والا پہلا اہل تشیع ملک بن گیا۔” اگرچہ یہ ایک شیطانی ہی ہے۔ یہ شیطانی ہی سہی، تاہم اس شیطانی میں بھی سوچنے اور سمجھنے والوں کیلئے فہم و فراست کا سارا سامان موجود ہے۔ یہ سُرخی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی مخالفت شیعہ ہونے کی وجہ سے نہیں کی جا رہی۔ شیعہ تو آذربائیجان والے بھی ہیں اور شیعہ تو شہنشاہِ ایران بھی تھا۔ ایران کی مخالفت اسلامی جمہوریت کی کامیابی، سُنی و شیعہ اتحاد کی کوششوں اور امریکہ و برطانیہ نیز بادشاہوں کی غلامی سے نجات کیلئے جدوجہد کرنے کی وجہ سے کی جا رہی ہے۔ آپ نے اگر ایران میں اسلامی انقلاب کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھنا ہے تو اس سے سمجھئے کہ اگر ایران میں موجودہ اسلامی انقلاب ختم ہو جائے تو پھر بھی ایران میں شیعہ حکومت ہی وجود میں آئے گی۔

نوّے فیصد سے زائد شیعہ آبادی والے ملک میں بہر صورت شیعہ حکومت ہی بنے گی اور پھر وہ شیعہ حکومت شہنشاہِ ایران اور آذربائیجان جیسے شیعوں کی ہوگی۔ یعنی ایسے شیعہ جو اپنے مفادات کیلئے امریکہ و اسرائیل کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیں گے، جو فلسطین و یمن اور کشمیر کے بجائے عیش و نوش اور شکم و شہوت کی بات کریں گے۔ پھر ایسے شیعہ برسرِ اقتدار آئیں گے جو استعمار کی غلامی سے نجات کیلے سُنّی و شیعہ اتحاد کی بات نہیں کریں گے، بلکہ امریکہ و اسرائیل کے ساتھ مل کر اہلِ سُنّت کو کچلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ آپ نے آج تک سُنی داعش اور سُنّی طالبان کا نام تو سُنا ہوگا، لیکن شیعہ داعش و شیعہ طالبان بننے کا راستہ صرف اور صرف ایران کے موجودہ انقلاب نے روک رکھا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دنیا بھر میں اگر فلسطین اور قدس کی آزادی کیلئے نیز شیعہ و سُنّی اتحاد کی خاطر دل سے کوئی بات اور کوشش کرتے ہیں تو وہ صرف اور صرف خمینی ڈاکٹرائن کے حامل لوگ ہی کرتے ہیں۔ یہ واضح فرق ہے ایران کے اسلامی انقلاب اور خمینی ڈاکٹرائن کے پروردہ شیعہ اور ایک عام و روائتی قسم کے شیعہ میں۔ روزنامہ جنگ کی مذکورہ سُرخی بھی اس فرق کو آشکار کر رہی ہے۔ اس وقت دنیا میں ایران کا اسلامی انقلاب ہر شیعہ و سُنّی کیلئے ایک نعمت ہے۔ ایک ایسی نعمت جس کے بغیر آپ فلسطین و کشمیر کی آزادی، اسلامی جمہوریت، اسلامی وحدت، اسلامی تہذیب و ثقافت، اسلامی بھائی چارے، اسلامی بینکاری، اسلامی فوج، اسلامی سوچ اور حقیقی معنوں میں انسانی آزادی و رواداری کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے۔ موجودہ صدی میں اس خواب کی تعبیر آپ کو صرف اور صرف خمینی ڈاکٹرائن میں ملے گی۔ کبھی وقت نکالئے اور خمینی ڈاکٹرائن کا شیعہ و سُنی سے ہٹ کر جائزہ لیجئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply