پہچان کا سفر: خدا ایک ڈر ہے ۔۔۔ محمود فیاض

بچپن میں ہم گلی محلے میں کھیل کھیل کر جب تھک جاتے تھے تو کسی دیوار کے سائے میں تھوڑی دیر کو بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے۔ اور بہت سے موضوعات کی طرح خدا کی ذات بھی ایک موضوع ہوا کرتی تھی۔ خدا کیسا اور کتنا بڑا ہے؟ ہم میں سے کوئی بتاتا کہ خدا اتنا بڑا ہے کہ جتنا یہ جامن کا درخت ہے نا، اس سے بھی کہیں(یہاں کہیں کی “ایں” کو اپنے تصور خدا جتنا لمبا کھینچ لیجیے)بڑا ۔ پھر کوئی دوسرا بتاتا کہ اس اتنے بڑے خدا کی چھوٹی انگلی بھی ہم سے اتنی بڑی ہے کہ وہ اگر اپنی انگلی سے ہمیں ایسے دھکیل ہی دے تو ہم گر پڑیں۔ ہم دیر تک خدا کی “بڑائی ” بیان کرتے اور پھر اپنے کھیل میں لگ جاتے۔

گھر اور اسکول میں خدا سے میرا تعارف ایک ڈراوے کی شکل میں ہوا۔ خدا اس بات پر ناراض ہوگا یا خدا اس بات پر گناہ دے گا۔ان دنوں میں صرف یہ بات سمجھنے لگاتھاکہ خدا وہ ہوتا ہے جو ہر دوسری بات میں گناہ دیتا ہے۔ شاباشی کا تصور کم کم ہی تھا۔ جلدی نہ سوئے، کھانا نہ کھایا، ابا کی بات نہ مانی، یا اماں کو ناراض کیا تو خدا گناہ دے گا۔ جھوٹ بولنے پر ، کسی سے لڑائی کرنے پر اور گالی دینے پر تو خدا بہت شتابی سے گناہ دیتا تھا۔ مگر سچ بولنے ، لڑائی نہ کرنے اور گالی نہ دینے پر کوئی شاباشی نہ ملتی تھی۔ کم از کم مجھے ایسا لگتا تھا کہ خدا ایک ڈرا دینے والی بہت بڑی ہستی ہے، جس کا کام ہی سزا دینا ہے۔

ہائی اسکول میں ہمارے تین مختلف فرقوں کے اساتذہ تھے۔ ہمیں انکے مختلف ہونے کا اندازہ اس سے ہوا جب ایک نے ہمیں گیارہویں کے لڈو کھانے کو دیے اور دوسرے نے گیارہویں شریف منانے سے منع کیا ۔تب پہلی دفعہ ہمیں پتہ چلا کہ گیارہویں تو ہوتی ہی نہیں۔ یہ تو بدعت ہے۔ کیونکہ عربی میں “گ” کا حروف تہجی ہی نہیں تو گیارہویں کیسے ہو سکتی ہے؟ پہلی بار ہمیں پتہ چلا کہ خدا تک پہنچنا اتنا آسان نہیں ہے۔ وہ تو ایک کے لڈو کھا کر دوسرے کا “گ” غائب کر دیتا ہے۔

تیسرے استاد سب سے سخت تھے۔ انہوں نے ہمیں نماز نہ پڑھنے کی سزا گن گن کر بتائی۔ انکی لمبی داڑھی کا راز یہ تھا کہ وہ قینچی کو داڑھی سے لگانا بھی حرام سمجھتے تھے۔ انہوں نے بحرحال باقی دو اساتذہ سے زیادہ پر اعتماد طریقے پر ہمیں خدا کا طریقہ سزا سمجھایا۔ ایک نماز جس نے چھوڑ دی یا چھوٹ گئی اس کے لیے ہماری گنتی سے زیادہ (کروڑوں ) سالوں کی سزا ، انہوں نے ہمیں بتائی۔ سچ بتائیں کہ اس کے بعد تو ہم تقریبا بے فکر ہوگئے۔ کیونکہ ہم نے اپنی عمر اور چھوٹی ہوئی نمازوں کو ضرب دیا، اور پھر حاصل ضرب کو کروڑوں سالوں سے ضرب دیا، تو ہمارے حسابوں ہماری سزا کو تو پہلے ہی دیر ہو چکی تھی، اسکو تو جلد از جلد شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ ان استاد کا نام تو ایک پیغمبر کے نام پر تھا مگر آپ ان کو خاں ؔ صاحب کہہ لیجیے۔
ہمارے اسکول کے سارے سال اسی ادھیڑ بن میں گذر گئے۔ ماں باپ کے بتائے ہوئے خدا اور استادوں کے خدا میں بہت فرق تھا۔ گھروالا خدا چھوٹی چھوٹی باتوں میں انوالو ہوتا تھا تو اسکول والا خدا کنفیوز کرکے مزہ لیتا تھا۔

ایک استاد نے ہمیں یہ کہہ کر خوشخبری دی کہ دنیا میں صرف ہمارا دین اسلام ہی صحیح ہے۔ اور یہ بات تو طے ہے کہ باقی دنیا کی چھ ارب میں سے پانچ ارب لوگ گمراہی کا شکار ہیں۔ مگر ہم وہ چنیدہ لوگ ہیں جو صحیح راستے پر ہیں۔ اور یہ کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں سچائی جاننے کے لیے در در بھٹکنا نہیں پڑا، بلکہ ہم پیدا ہی ایمان والے ہوئے ہیں۔ اور یہ کہ یہ ہم پر خدا کا خصوصی کرم ہے۔

خدا کے ہر بات میں سزا دینے والے روپ کے بعد ہمیں یہ بہت اچھا لگا کہ خدا نے ہمارا بہت خیال کیا اور ہمیں کسی محنت کے بغیر ہی صراط مستقیم پر ڈال دیا۔ اب ہمیں مزید کچھ سوچنے کی حاجت نہیں اور بس استاد اور مولوی صاحب جو جو کہتے ہیں وہ وہ کرتے جائیں تو جنت کے باغ اور مزے ہمارے ۔ اگرچہ ہمیں یہ سمجھ نہ آیا کہ باقی پانچ ارب انسان جو صراط مستقیم پر پیدا نہیں ہوئے انکو اس خصوصی قرعہ اندازی میں شامل کیوں نہیں کیا گیا۔ ضرور انہوں نے دنیا میں آنے سے پہلے کوئی جرم و خطا کی تھی جس کی سزا کے طور پر انکو سیدھا سیدھا مسلمان نہیں پیدا کیا گیا، بلکہ ایک اضافی ٹیسٹ رکھ دیا گیا ہے، کہ پہلے سارے مذاہب میں سے اصلی والا ڈھونڈو اور پھر اس پر عمل کرو تب ہی تم کو جنت کا ٹکٹ ملے گا۔
یہی سوال ہم نے اپنے استاد صاحبان سے کیا تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ کہ کوئی جرم و خطا کا سوال ہی نہیں کہ اس دنیا میں آنے سے پہلے تمام روحیں پاک تھیں۔ دیکھا نا؟ بات الجھ گئی۔ مگر چونکہ ہماری جنت پکی تھی اسلیے ہم نے زیادہ بحث نہیں کی۔

اسکول کے ایک استاد بہت شفیق تھے، ہمیں دوزخ سے بچانے اور نماز کی عادت ڈالنے کے لیے انہوں نے روزانہ صبح ہر ایک سے وہ سوال پوچھنا شروع کردیے جن کو پوچھنے کا حق صرف منکر نکیر کو ہے، یعنی کہ کل نماز پڑھی تھی؟ جواب میں انکار کی صورت میں دوزخ کی سزا کا چھوٹا سا نمونہ وہیں پیش کردیا جاتا۔ خداجانتا ہے کہ انکی مار کے ڈر سے ہم نے خدا کے ڈر کو ایک طرف رکھ کر اکثر جھوٹ بولا۔ پھر ہم نے اپنی تخلیقی صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے کئی طریقے نکالے جن کی مدد سے صبح صبح ان قبر والے سوالو ں سے بچا جاسکتا تھا۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ ہم صرف ایک نماز پڑھ لیتے اور اس سوال کا جواب اس ایک نماز کو زہن میں رکھ کر دیتے تھے، کہ جی (ایک) نماز پڑھی تھی۔ پھر ایک دن کسی بھیدی نے لنکا ڈھا دی اور ایک سوال پانچ سوالوں میں بدل گئے، یعنی فجر کی نماز پڑھی ؟ ظہر کی نماز ؟۔ ۔ ۔ وغیرہ۔

ہوسکتا تھا ہم ماسٹر جی کے ڈر سے ہی سہی ، نمازیں پڑھتے ہی رہتے۔ ہوسکتا تھا کہ ہم داڑھی کے آنے کے بعد قینچی بھی نہ لگاتےاور ہوسکتا تھا کہ ہم دوزخ کے کروڑوں سال کے کوکنگ ٹائم سے ڈر کر قضائے عمری کر رہے ہوتے۔ مگر پھر اسکول میں ایک چھوٹا سا واقعہ ہوگیا۔ ہمارے استاد خاں صاحب ، جن کا اوپرزکر ہو چکا ہے، اسکول کی مسجد میں ایک طالبعلم کے ساتھ بدفعلی کرتے پکڑے گئے۔ جی وہی استاد، جوداڑھی کو قینچی لگانے کے خلاف تھے، اور ایک نماز قضا کرنے کا کروڑوں سال دوزخ لگواتے تھے۔
ہم سارے طالبعلم کئی دن اسکول میں بولائے پھرتے رہے، اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھتے رہےکہ کیا ایک بھی نماز قضا نہ کرنے والاخدا کے گھر میں قیامت اٹھا سکتا ہے؟

کبھی آپ نے آسمان میں اڑتی پتنگ دیکھی ہے؟ جو اڑانے والے کے ہاتھ سے ایک لمبی ڈور سے بندھی ہوتی ہے۔ جس کو پتہ ہوتا ہے کہ چاہے وہ جب تک آسمان کی بلندیوں میں اڑے، بالاخر ڈور کے سمٹنے پر وہ اڑانے والے کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گی۔ مگر کبھی کبھی وہ ڈور ٹوٹ بھی جاتی ہے، اور پھر اس کٹی پتنگ کو کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ اسکی منزل کیا ہوگی؟ اسکی ڈور کن ہاتھوں میں جا پہنچے گی؟ وہ سلامت کسی کے پاس پہنچے گی، یا کوئی طوفان اسکے تنکے بکھیر دے گا۔
خانصاحبؔ جو ہمیں اس خدا سے ملانے والے تھے جس نے ہمیں جنتیں دے دینا تھیں، کے بیچ سے ہٹ جانے سے ہم بھی اس کٹی پتنگ کی طرح ہو گئے جس کی ڈور کسی کے ہاتھ میں نہ رہی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس پتنگ کو تنکے تنکے ہونے سے کس نے بچایا؟ یہ قصہ پھر کبھی۔ آپ نے یہاں تک پڑھا اور برداشت کیا، خدا آپ کو خوش رکھے۔ آمین۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”پہچان کا سفر: خدا ایک ڈر ہے ۔۔۔ محمود فیاض

  1. بہت خوبصورت کالم. آپ کے تقریباً سارے ھی کالم حساس موضوعات پہ ھوتے ھیں. دل کو چھو لینے والے. لیکن آج کے کالم نے تو لکھنے پہ مجبور کر دیا. بے شک یہ ایسا موضوع ھے جس پہ بات کرنے کی ضرورت سب سے زیادہ ھے. کیونکہ میں سمجھتا ھوں. جب تک نظریات درست نہیں ھونگے. معاشرہ جہالت سے نہیں نکل پائے گا.سلامت رہیے, لکھتے رہیے اگلے کالم کا شدت سے انتظار ھے.

Leave a Reply