اشفاق کی بانو

اشفاق کی بانو
وثیق چیمہ
آپا کو کیا خراج عقیدت پیش کروں کہاں میں بدذوق جاہل کہاں قدسیہ، بقول ممتاز مفتی بانو اور تھی قدسیہ اور تھی اشفاق اور تھا اشفاق احمد اور تھا مگر میں کہتا ہوں بانو اشفاق ایک ہی تھی صرف اپنے مجازی خدا کی بلامبالغہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ ایک ہی تھے دو ذات دو ہستیاں دو فرد نہیں تھے اشفاق ہی بانو تھے اور بانو ہی اشفاق تھیں۔ بابا جی کے جانے کا انہیں بہت صدمہ تھا آپا کہا کرتی تھیں
اشفاق احمد میری چادر بھی تھے اور چار دیواری بھی ـ اشفاق احمد کے جانے کے بعد مجھے کئی باتیں سمجھ آئیں ہیں ـ اب میرے سامنے ہٹو بچو کہتا ہوا، ہوشیار باادب باملاحظہ کہتا ہوا ڈھائی قدم آگے چلنے والا آدمی نہیں ہے اب میں ٹھوکر کھا جاؤں گر جاؤں کسی کے کندھے سے بھِڑ جاؤں وہ شخص نہیں ہے جو میرے لیے سڑک پر آگے چلتا تھا اور مجھے بچاتا جاتا تھا۔
انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ مرد کفالت کرتا ہے عورت پرورش کرتی ہے۔ انکی زیارت کا شرف حاصل کرنے والے جانتے ہیں میں کی نفی کا نام قدسیہ تھا۔ ایک دوسرے کے رنگ میں ڈھلے ہوئے ایک دوسرے کی روحوں سے واقف،
شہر ذات میں لکھا ہے
“بحث کرنا جاہلوں کا کام ہے – بال کی کھال نکالنے سے کیا حاصل؟ میری بلا سے آپ چاہے کچھ سمجھتے ہوں مجھے اپنے نظریوں پرشکوک نہیں ہونے چاہیں- آپ اگردنیا کو چپٹا سمجھتے ہیں تو آپ کی مرضی -”
آپا بر ملا اعتراف کرتی ہیں کہ میرے لکھے ہوئے میں اور اشفاق احمد کے لکھے ہوئے میں کوئی فرق محسوس نہیں کرسکتا تھا کیونکہ بانو کو بانو قدسیہ بھی تو بابا جی نے ہی بنایا تھا اپنے مجازی خدا کے بارے میں راہ رواں میں کچھ اس طرح سے تحریر کیا ہے
ابھی کتابیں کاپیاں رکھ کر سیٹل ہو ہی رہی تھی کہ ایک خوبصورت گورا چٹا اطالوی شکل و صورت کا نوجون اندر داخل ہوا ۔ اس نے لٹھے کی شلوار،نیلی لکیروں والا سفید کُرتا اور پشاوری چپل پہن رکھی تھی ۔ وہ ملائمت کے ساتھ آگے بڑھا اورمردانہ قطار میں مولوی طوطا کے ساتھ بیٹھ گیا ۔
چند لمحے خاموشی رہی ۔ پھر نوجوان نے اپنا تعارف کرانے کے انداز میں کہا ۔۔۔ “خواتین و حضرات ! میرا نام اشفاق احمد ہے۔ میں مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور سے آیا ہوں ۔ ہمارے قصباتی شہر کا نام مکستر ہے۔ میرے والد وہاں ڈنگر ڈاکٹر تھے،پھر رفتہ رفتہ حیوان ِناطق کا علاج کرنے لگے ۔۔۔ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں اوراس وقت موج ِدریا کے بالمقابل مزنگ روڈ میں رہتا ہوں ۔ میرے پاس ایک سائیکل ہے جس پر اس وقت میں آیا ہوں”
یہ کہہ کر اشفاق احمد نے کلاس کے لڑکے لڑکیوں پر نظر دوڑائی ۔سب خاموش تھے ،ابھی اورینٹیشن کی کلاسوں کا رواج نہ تھا ۔ لوگ اپنا تعارف ،حدود اربعہ ،ہسٹری بتاتے ہوئے شرماتے تھے، صرف اشفاق احمد نے سب کی سہولت کو مد ِنظر رکھ کر اپنا آپ تھالی میں رکھ کر پیش کر دیا۔
لکھنے پر آئے تو کیا کچھ لکھ دیا
راجہ گدھ میں لکھتے ہیں
محبت کا تحفہ سیمی عموماً دو قسم کے لوگوں کو ملتا ہے
ایک وہ فتعون صفت لوگ جو اپنے جیسا کسی کو نہیں سمجهتے .جو چلتے نہیں اچهلتے ہیں . ان کی انا کے پر قینچ کرنے کے لیئے کوئی محبت کا گلدستہ لے کر ان کی زندگی میں آتا ہے . گلدستہ وصول کرتے وقت فرعون شکل لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں کانٹے بهی ہیں اور چیونٹیاں بهی . عموماً ان ہی چیونٹیوں کے ہاتهوں بڑے بڑے ہاتهی جانبحق ہوتے ہیں ..
ایک وہ لوگ جو خدا سے بهی نہیں ڈرتے انہیں انسان بنانے کے لیے محبت عطا ہوتی ہے ان کی حیثیت سمجهانے کے لیے ان کا قد عام انسانوں جتنا کرنے کے لیے .
یا پهر محبت ان لوگوں کو ملتی ہے جو مرنے کی آرزو میں جیتے ہیں جاں بہ لب ہوتے ہیں ان کے لیئے محبت کا تریاق آتا ہے غیب سے . یکدم ان زندہ لاشوں میں زندگی کے آثار اجاگر ہو جاتے ہیں وہ درختوں کو پرندوں کو چاند ستاروں کو از سر نو دیکهنا شروع کر دیتے ہیں
ایک ایک لفظ حاصل گھاٹ ہے کھلا پنجره ہے پڑھنے والا اسکے سحر سے باہر نہیں آنا چاہتا کتاب ہاتھ میں آجائے، ختم کیئے بنا رکھی نہیں جاتی الفاظ کی قیمت ہوتی تو آنے والی صدیاں بھی قرض اتار رہی ہوتیں
مجھے تو یہ ڈر ہے اگلی صدی کے لوگوں میں کچھ لوگ صرف اس لئے ممتاز ہونگے کہ انہوں نے آپا کو پڑھا ہوگا وہ فخر سے لوگوں کو بتائیں گے ان سے آخرت میں بھی پوچھا جائے گا کہ کیا لائے ہو تو وہ یہی کہیں گے ربا بس آپا کو پڑھ کے آیا ہوں
آہ آپا آپ کا خلا صدیوں پُر نہیں ہو سکتا قوم سے گزارش ہے آپا کو اپنے کردار افکار گفتار میں زندہ رکھیں

Facebook Comments

وثیق چیمہ
خاک ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply