دشمنی صرف عبدالسلام سے ہی کیوں؟

یہودیوں کا ماننا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے بعد مزید کسی شریعت کی ضرورت یا گنجائش نہیں، نیز یہ کہ کیونکہ بنی اسرائیل خدا کی چنیدہ قوم ہیں، لہٰذا نبوت انہی کا استحقاق ہے۔ چنانچہ اہل تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں بھی کسی تشریعی نبی کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی بعثت ہوئی تو باوجود اس حقیقت کےکہ وہ انہی کی قوم یعنی بنی اسرائیل میں سے تھے ، ان کی نبوت کا نہ صرف انکار کردیا بلکہ ان کے درپئے آزار بھی ہوئے۔ ہر چند کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی نہ صرف نبوت کے قائل تھے، بلکہ ان کا دعویٰ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دین کے اصل وارث وہی ہیں۔
اس کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو یہودی عیسائیوں کو اپنا فرقہ تسلیم کرتے ہیں، نہ ہی عیسائیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا دین موجودہ یہودیت کا تسلسل ہے۔ یہودی چونکہ آخری نبی کے مبعوث ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور مختلف انبیاءکرام علیہم السلام کی بشارتوں کے طفیل اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ آخری نبی کی بعثت عرب کے علاقے میں ہوگی ، اسی لیے ان کی بڑی تعداد نے یثرب کے گردونواح میں سکونت اختیار کر لی۔ تاہم ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ آخری نبی انہیں کی قوم سے آئے گا، یعنی بنی اسرائیل سے۔ مگر جب چراغِ نبوت خانوادہءِ ابراہیمی میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل کے بجائے بنو اسماعیل (علیہ السلام) میں جگمگایا اور رسالت مآب حضور سرورِ کونین محمد مصطفیٰ ﷺ نبوت سے سرفراز کئے گئے تو اپنی روایتی عصبیت کے پیشِ نظر یہودیوں نے حضورِ اکرم ﷺ کی رسالت کو تسلیم نہیں کیا۔ واضح رہے کہ وہ آپ ﷺ کو بطور آخری نبی پہچان تو گئے تھے (اسی لئے آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کے بجائے اب وہ صرف اپنے مسیحِ دجال یا اینٹی کرائسٹ کے منتظر ہیں) تاہم ان کی عصبیت ان کے رسالت محمدی ﷺ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں مانع رہی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تو وہ اس لئے منکر ہوئے کہ وہ نئی شریعت لائے تھے، مگر تھے تو بنی اسرائیل سے ہی۔ حضور اکرم ﷺ کے معاملے تو دونوں باتیں ہوئیں۔ یعنی نئی شریعت بھی آگئی اور نبی کا تعلق بھی بنی اسرائیل سے نہیں! بھلا پھر کیسے ممکن تھا کہ وہ آپ ﷺ کی نبوت کو تسلیم کرتے۔
چنانچہ یہودیوں نے روز اول سے ہی عیسائیت اور اسلام اپنے مذہب سے الگ مذاہب قراردیئے اور یہ اصولی طور پر درست بھی ہے۔ اسی طرح چونکہ عیسائیوں کے مقبول عقیدے کے مطابق چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر چڑھ کر بنی نوع انسان کے قیامت تک کے گناہوں کا کفارہ ادا کرچکے اس لئے اب کسی نئے نبی یاشریعت کی ان کے نزدیک بھی ضرورت نہیں تھی۔ اس لئے ان کی اکثریت بھی آپ ﷺ پر ایمان نہیں لائی اور انہوں نے بھی اسلام کو اپنے مذہب سے مختلف دین قرار دیا ۔ چونکہ قاعدہ یہ ہے کہ نئی شریعت گزشتہ شریعت کو منسوخ کردیتی ہے اس لئے مسلمانوں نے بھی اپنے دین کو مروجہ یہودیت اور عیسائیت سے الگ دین کے طور پر پیش کیا۔کم از کم اس معاملے میں تو تینوں مذاہب کا اتفاق ہے کہ اپنی مروجہ صورتوں میں اسلام، عیسائیت اور یہودیت الگ الگ ہیں ۔ یہ بات منطقی طور پربھی درست ہے کیونکہ جب بنیادی عقائد میں ہی اختلاف ہو تو کیسے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ نیا آنے والا مذہب اور پرانا مذہب ایک ہی ہیں (واضح رہے کہ میں یہاں مذاہب کی مروجہ صورتوں کی بات کر رہا ہوں، ورنہ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ گزشتہ تمام انبیاءکرام اسلام کے ہی داعی تھے )۔ جب یہودی ہی اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو کہ عیسائیت ان کا کوئی فرقہ ہے تو عیسائی کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ان کا مذہب ہی اصل یہودیت ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عیسائیت یہودیت کی اصلاح شدہ شکل ہے، لیکن کسی یہودی کو یہ دعویٰ تسلیم کرنے پر مجبور تو نہیں کیا جاسکتا۔ یہودیت کیا ہے ، اس بابت یہودی کا قول ہی معتبر ٹھہرے گا، نہ کہ عیسائی کا۔ واضح رہے کہ یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے، یہاں مدعا یہ ہے اپنے مذہب کی تعریف اور اس کے پیروکاروں کا دائرہ کار طے کرنے کا حق کس کو حاصل ہے؟
اتنی لمبی تمہید کی ضرورت اس لئے پڑی کیونکہ ڈاکٹر عبدالسلام کا المیہ بھی اسلام اور قادیانیت کے اسی قسم کے تعلق کے طفیل ہے، جس کا مکمل احاطہ کئے بغیر اس قضیے کا خلاصہ نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستانی یا یوں کہہ لیں کہ اکثر پاکستانی ڈاکٹر عبدالسلام کو کیوں پسند نہیں کرتے؟ وجہ سادہ اور انتہائی معروف ہے کہ ان کے قادیانی ہونے کی وجہ سے۔تو کیا پاکستانی ہر غیر مسلم کے بارے میں اتنے ہی تنگ نظر واقع ہوئے ہیں؟ میری رائے میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ورنہ پاکستانیوں کی اکثریت کے دل میں جسٹس رانا بھگوان داس کے لئے عزت و احترام نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو محمد یوسف اس وقت پاکستانیوں کی اکثریت کا پسندیدہ کرکٹر نہ ہوتا جب وہ ابھی یوسف یوحنا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج بھی عوام کی اکثریت کی ہمدردیاں دانش کنیریا کے ساتھ نہ ہوتیں جو ایک باعمل ہندو ہے۔ اگر حقیقاً ایسا ہوتا تو پاکستانیوں کی اکثریت سیسل چوہدری کو عزت و احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھتی ۔ جسٹس اے۔ آر۔ کارنیلئس، جمشید مارکر ، بہرام ۔ڈی۔آواری، جے۔سالک ، اے۔نیئر ، مسز دینا مستری، شالم زیویئر، دیپک پروانی وغیرہ سمیت کئی ایسے غیر مسلموں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جنہیں پاکستانیوں کی اکثریت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پھر ڈاکٹر عبدالسلام کے معاملے میں پاکستانیوں کو کیا ہو جاتا ہے؟ وجہ وہی، ان کا قادیانی عقیدہ ہے۔
کیا وجہ ہے کہ عام طور پر غیر مسلموں کی پذیرائی کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلا م کے معاملے میں ایک دم تنگ نظر ہو جاتے ہیں اور سوائے ایک مخصوص طبقے کے جو ایک مخصوص قسم کے لبرل ازم کا علم بردار ہے، کسی کے یہاں ان کی کوئی خاص پذیرائی نہیں۔ پاکستانیوں کی عبدالسلام سے اس عمومی بیگانگی کو یہ لبرل طبقہ ان کی سائنس دشمنی سے تعبیر کرتا ہے اور ملبہ ملائیت پر گرادیتا ہے کہ اس نے اکثریت کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی ہے۔ چونکہ اس طبقے کا مذہب سے اتنا ہی لگاؤ ہے جتنا قادیانیت کا اسلام سے تعلق ہے، اس لئے ان کو آج تک عوام کی اکثریت کی عبدالسلام کے معاملے میں بے توجہی کا اصل سبب سمجھ نہیں آسکا۔
قادیانیت کا سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے کہ وہ اپنا تعارف اسلام کے ایک فرقے کے طور پر کرواتی ہے ، جس کو مسلمانوں کے دیگر فرقوں کی جانب سے روایتی فرقہ وارانہ تعصب اور مخاصمت کا سامنا ہے۔ ۔یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن کی بنیاد پر قادیانیت دین سے ناواقف اور دین سے بیزار طبقات کی توجہ اور ہمدردی حاصل کرتی ہے، اور یہ حضرات مولوی پر(جس کو پہلے ہے ایک عفریت قرار دیا جا چکا ہے) لٹھ تان کر اس سے اگلے پچھلے تمام حسابا ت چکانے نکل پڑتےہیں۔اگر آپ قادیانیت کے ہمدردوں سے پوچھیں گے تو اکثریت کو ان کے عقائد کا علم ہوگا نہ ان علتوں کا ادراک جن کے سبب مسلمانوں کے تمام فرقوں کا کم از کم اس بات پر اتفاق ہے کہ قادیانیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
جیسا کہ میں نے تمہید بیان کی تھی کہ جب اختلاف پیدا ہو جائے تو قول کس کا معتبر ہوتا ہے؟ اسی اصول کی طرف پھر رجوع کرتے ہیں۔ یہاں دونوں گروہوں میں ایک انتہائی اہم اختلاف ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کی بعثت مبارکہ کے بعد دین اسلام مکمل ہو چکا اور اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا (ظلی، بروزی، تشریعی، غیر تشریعی سب اس عموم میں شامل ہیں)، اور اب کوئی اگر نبوت کا دعویٰ کرتا ہے، تو دعوے کی حقانیت وعدم حقانیت سے قطع نظر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ دوسری جانب قادیانی عقیدے کی بنیاد ہی مرزا غلام احمد کو نبی (چاہے کسی بھی قسم کا کہہ لیں) ماننے پر ہے، نہ صرف مرزا کی نبوت تسلیم کرنا بلکہ اس کی (خودساختہ) نبوت کو اسلام کا ہی تسلسل تسلیم کرنا۔ آج بھی مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک آپ ﷺ کی ختم نبوت ، جو آپ ﷺ کے بڑے امتیازات میں سے ہے، پر ڈاکہ زنی اس قدر گھناؤنی وارادت ہے کہ وہ اس کے مجرم کو معاف کرنے کے روادار نہیں۔ ہمارے دین بیزار لبرلز بھلے اس کو ملا کی پھیلائی تنگ نظری پر محمول کریں ، حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس رویے کا سبب نبی کریم ﷺ سے وہ بے لوث اور والہانہ محبت ہے جو ہر صاحب ایمان کے دل میں اس کی تمام تر بداعمالیوں کے باوجود عطائے خداوندی کے طفیل ہمیشہ موجزن رہتی ہے۔
سو مرزا کا دعویٰ نبوت ہی مسلمانوں کو اس سے اور اس کے پیروکاروں سے بیزار کرنے کے لئے کافی ہے ، اس پر مستزاد یہ کہ ان کا اصرار ہے کہ انہیں برابر کا مسلمان تسلیم کیا جائے اور اپنے عقائد کی بطور اسلام ترویج کرنے کی اجازت دی جائے۔ اور اگر مسلمان انہیں اپنے دین سے کھلواڑ کرنے سے روکنے کی کوشش کریں تو لعن طعن کا نشانہ بھی وہی بنیں۔ کوئی قادیانیت کے پرچارکوں کا محاسبہ نہ کرے کہ بھائی اگر آپ کو مرزا کی نبوت پر ایمان لانے کا اتنا ہی شوق ہے تو ضرور لائیے ، مگر اس پر اسلام کا لیبل چسپاں کرنے پر کیوں مصر ہیں، جو نہ تو آپ کا حق ہے اور نہ ہی تاریخی و اصولی طور پر درست ہے۔ اپنے مذہب کا کوئی بھی نام رکھ لیجئے مگر جب مسلمان کہہ رہے ہی، اور کیا شیعہ کیا سنی سب ہی مسلمان کہہ رہے ہیں کہ آپ کے دین اور اسلام میں مشرق ومغرب جتنا بعد ہے، تو آپ کیوں اپنے غیر منطقی موقف پر اصرار کر کے ان کی ایذا رسانی کا باعث بن رہے ہیں۔
مسلمانوں کی شریعت، ریاست کاآئین، ملک کا قانون سب کہہ رہے ہیں کہ آپ کا مذہب دینِ اسلام ہر گز نہیں ہے، مگر آپ کو آزادی ہو کہ مسلسل چھیڑ خانیوں کے ذریعے فتنہ پروری بھی کریں اور جب اپنا الو سیدھا کرنا ہو تو بطور اقلیت استحصال کا رونا بھی رو لیں۔ کوئی آپ سے یہ سوال تو کرے گا ہی نہیں کہ بھائی آپ نے خود کو اقلیت تسلیم ہی کب کیا ہے؟ آپ کا تو آج بھی اصرار ہے کہ آپ اصل ہیں اور باقی سب دھوکا۔یقین مانیے جس دن قادیانی اپنے مذہب کی اسلام سے جداگانہ حیثیت کو تسلیم کرلیں گے، ان کے ۹۰ فیصد مسائل بھی ازخود حل ہو جائیں گے۔ کوئی آپ کو زبردستی مشرف بہ اسلام نہیں کرنا چاہتا، اگر آپ کے نصیب میں یہ سعادت نہیں تو نہ سہی ، لیکن آپ کو اسلام کا لبادہ لپیٹ کر دھوکا دہی کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔
خیر، بات کچھ زیادہ طویل ہو گئی۔ اصل بات کی طرف واپس آتے ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت عبدالسلام سے اس لیے ناراض ہے کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق انہیں کافر سمجھتا تھا۔ اور جب ریاست نے اسے اس کے اصل عقیدے کے مطابق آئینہ دکھایا تو وہ بجائے ریاستی آئین کی بجاآوری کرنے کے،ایک ایسے وقت میں ملک کو چھوڑ گیا جب ملک کی اس کو سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ایک ایسے شخص کی محبت اور پیروکاری میں جس کے نزدیک پاکستانیوں کی اکثریت جنگلی سؤروں اور کتوں کی طرح ہیں کیونکہ وہ اس کی (خودساختہ) نبوت پر ایمان نہیں لائے۔ مجھے نہیں سمجھ آتا کہ اگر کوئی شخص میر ے ماں باپ کو کھلم کھلا گالیاں دیتا ہو تو مجھ سے کیسے یہ امید رکھی جا سکتی ہے، کہ میں ایسے شخص کے جملہ متعلقین سے کوئی ہمدردی رکھوں؟ فرض کریں آپ کے پڑوس میں کوئی بدبخت رہتا ہو، جو روز آپ کو سرِعام غلیظ گالیاں بکتا ہو۔ جو آپ کے مرحوم ماں باپ کو بھی نہ بخشتا ہو اور ان کےبارے میں بھی فحش گوئی کرتا ہو۔ کیا آپ کےلئے ممکن ہوگا کہ آپ اس شخص کے اہل خانہ میں کسی سے بھی کوئی تعلق رکھیں؟
بالفرض اگر اس شخص کا بیٹا بورڈ کے امتحان میں اول آجاتا ہے، تو آپ اپنے دل میں اس کے لئے ذرا بھی حقیقی خوشی محسوس کریں گے؟کیا آپ اس کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے محلے میں مٹھائیاں بانٹنے نکل کھڑے ہوں گے؟ میرے خیال میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگاجو یہ سب کرے گا، اکثریت لاتعلق ہی رہے گی۔ تو کیا اس لاتعلقی سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ آپ اپنے پڑوسی کے بیٹے کی ذہانت کے منکر ہیں، وہ بھی صرف اس لئے کہ اس کا باپ آپ کی بےعزتی کرتا ہے، کسی بھی منطقی کسوٹی پر پورا تر سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ کیونکہ آپ کے غیرمسرور ہونے کی وجہ اس لڑکے کے باپ کی ایذا رسانی، اور خود اس لڑکے کا اپنے باپ کی بدعملی کی غیرمشروط تائیدکرنا ہے۔ سو اس مثال میں باپ کی جگہ اگر آپ مرزا غلام احمد قادیانی اور بیٹے کی جگہ ڈاکٹر عبدالسلام کو رکھ کر سوچیں تو سارا معاملہ صاف ہوجاتا ہے۔ کسی کو بھی ڈاکٹر صاحب کی سائنسی قابلیت پر نہ کوئی شک ہے نہ کسی نے کبھی ان کی تحقیقات کا انکار کیا ہے۔
جس طرح ڈاکٹر عبدالسلام اپنے نظریات سے مخلص تھے، جن کی خاطر انہوں نے ملک چھوڑنے سے بھی گریز نہیں کیا، اسی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے نظریات کی پاسداری کی آزادی ہونی چاہیئے، اگر ان کی اکثریت ڈاکٹر صاحب کو اپنا ہیرو تسلیم نہیں کرتی تو ان پر زور زبردستی اور لعن طعن کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کو بطور ہیرو مسلط کرنا بھی ایک انتہا پسندانہ طرز عمل ہے۔ شاید پاکستانیوں کی اکثریت کے نزدیک مرزا قادیانی کی جانب سے دی گئی تکلیف کسی بھی نوبل انعام کے حصول کی خوشی سے زیادہ سنگین ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: اس تحریر کا مقصد قطعاً کسی بھی قسم کے تشدد کی حمایت کرنا نہیں ہے۔ میں عوام کی جانب سے قانون کو ہاتھ میں لے کر تشدد پر مائل ہونے کو، قادیانیوں کے خود پر اسلام کا لیبل لگانے کی طرح غیرآئینی سمجھتا ہوں اور ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرتا ہوں۔ چونکہ اس معاملے کا بالواسطہ امن عامہ سے تعلق ہے، اس لئے میں نے تمام تر مذہبی اختلافات کے باوجود پوری کوشش کی ہے کہ اشتعال انگیز الفاظ سے گریزکیا جائے۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دشمنی صرف عبدالسلام سے ہی کیوں؟

  1. متفق۔
    دشمنی سائنس اور سائنس دانوں سے نہیں۔ دشمنی اس بات سے ہے کہ اس نے سائنس اور نوبل انعام کی آڑ لے کر مذہب کا کھیل کھیلنا چاہاتھا۔ ہم پاکستان میں بسنے والے ان تمام غیر مسلموں کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں جنہوں نے ملک اور عوام کی خدمت کی۔ لیکن اگر کوئی اس خدمت کی آڑ لے کر مذہب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو وہ بھلائی کی امید نہ رکھے۔ حالیہ دنوں کی کشمکش نے ثابت کردیا ہے کہ اب قادیانیت کے خلاف منظور شدہ قانون کو باقی رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے سے متعلق عوامی شعور پہلے کی بہ نسبت بہت بڑھ گیا ہے۔

Leave a Reply