اے رب جلیل۔۔۔۔۔نینا ابرامووا

 نظم: نینا ابرامووا
(ترجمہ: مجاہد مرزا)

اے رب جلیل، جو کچھ بھی دیا، مشکور ہوں میں

آج خدا صبح سویرے جاگ گیا

شکووں اور تقاضوں سے پر نامے پڑھے

اپنے کرم کا بقچہ کھولا

کسی کو غچہ دیے بنا

خواہاں دلوں میں اسے انڈیلا

سب کا دل نہ کھل پایا

کیونکہ سرے دلوں کے اندر 

معجز آسانی تو نہیں ہے

ایسے دلوں کے دروازے

 حسد و عناد کے باعث بند ہیں

کرم انڈیلا جا نہیں سکتا

کچھ میں رنج و محن کا ڈیرہ

ہے جو بہت ہی دکھ کی بات

خدا کو ان کے نہ کھلنے پر رنج ہوا

وہ پیار انڈیلنا چاہتا تھا 

پر کہاں انڈیلے اس کو

خدا کو پھر غصہ آیا 

کہ لوگ کیوں اپنے دلوں کو

اور اپنی روح کو 

رنجش سے پاک نہیں کر پاتے

جو سالوں سے 

دلوں کو پتھر کیے ہوئے ہیں

دل سلوں کی مانند بے جاں

تاہم خدا نے اٹھ کر دیکھا

پھر یوں کہ مسکا دیا

جب پیار بھرا دل سامنے آیا

اس نے اپنے کرم کا دریا

اس میں خوب انڈیلا

یوں سبھی دلوں میں ہولے ہولے

اس کی رحمت کا گذر ہوا

پھر سب نے اپنے اپنے دوش 

تلاشنے شروع کیے

گر ہم 

عفو شناسا ہوں

پیار، محبت، جانے دو کے قائل ہوں

پھر خدا حساب نہ رکھتا

اپنے کرم کا پورا دریا

دلوں پہ خالی کر دیتا

آج خدا دن چڑھے اٹھا

پائنتی پہ اغراض کی بھاری گٹھڑی تھی

جس میں ایک لفافہ تھا 

بن عرضی کے

اس کے اوپر لکھا ہوا تھا

Advertisements
julia rana solicitors

” اے رب جلیل، جو کچھ بھی دیا، مشکور ہوں میں”۔

نینا ابرامووا روس میں مقیم شاعرہ ہیں۔ آپ مختلف سرکاری محکموں سے وابستہ رہنے کے بعد آجکل مکمل وقت شاعری اور باغبانی کو دیتی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply