( خود پہ ہنستے، قہقہے لگاتے عارف خٹک کا یہ روپ شاید آپ نے پہلے نا دیکھا ہو۔ عارف کی یہ تحریر ایک طمانچہ ہے اس معاشرے کے منہ پر اور اسکے منافقین کے منہ پر۔ ایڈیٹر)
مجھے کافی لوگ طعنہ دیتے ہیں کہ میں مداری ھوں، لکھ کر جھمگٹا لگا لیتا ھوں، مسخرہ ہوں، فحش گو ہوں، لوگوں کی کمزور فطرت سے کھیلتا ہوں، گندے اور ٹھنڈے گوشت کی بوٹیاں پھینک کر ماحول بدبودار کردیتا ھوں۔ مگر یہ بوٹیاں آپ ہی کی تو ہیں، یہ بدبو آپ کے اپنے ہی بدن سے اٹھ رہی ہے۔
آپ کو بوٹیاں تو نظر آتیں ہیں اور نازک ناک کو بو بھی بہت آتی ہے،مگر جناب یہ بوٹیاں آپکی وہ گندی سوچ اور نظریات ہیں جو آپ نے ملمع میں چھپا رکھے ہیں۔ رات کی تنہائیوں میں آپ عزتیں جنجھوڑتے ھیں اور صبح، سفید اجلا لباس پہن کر وعظ کرتے ھیں، عزت و عفت کی حفاظت پر۔ آپ دن میں اتحاد کا درس دیتے ہیں اور شام میں مخالف کو ٹھکانے لگانے کے مشورے، آپ خودی پہ تقاریر و تحاریر کے ڈھیر لگاتے ہیں اور پھر کسی طاقتور کی دولت آپ کو بیخود کر دیتی ہے۔ اس سب کہ باوجود آپ دانشور کہلائے جانے پر بغلیں بجاتے ھیں۔ کم از کم عارف خٹک ایک منافق تو نہیں۔ آئینہ دیکھا کر میں اچھا تو نہیں کررھا نا؟
میں آپکی طرح انگریزی ادب کی ترجمہ شدہ کتابیں پڑھ کر نہیں سنا سکتا۔ میں آپ کی طرح قوم پرستی، عصیبت پرستی اور مذہب پرستی کے نام پر نوحے نہیں لکھ سکتا کیونکہ میں دانشور نہیں ھوں۔ میں آپ کی طرح چند سکوں کے عیوض مذھب نہیں بیچ سکتا اور نہ انسانیت کے نظریات کا کاروبار ہی کرسکتا ھوں، کیونکہ میں دانشور نہیں ھوں۔ میں آپ کے گُرو حسن بن سبا کی طرح حوروں اور نشے کی ڈھال لے کر ایک جنت نہیں بنا سکتا، ایسی جنت جہاں انسانیت جہنم کی آگ میں جل جائے؛ کیونکہ میں دانشور نہیں ھوں۔ میں کچرے کے ڈھیر پر بیٹھ کر پرفیوم نہیں بیچ سکتا، میں آزاد فضاؤں کا باسی ھوں اور تیرے الفاظ کے گورکھ دھندے مجھے گمراہ نہیں کرسکتے؛ کیونکہ میں دانشور نہیں ہوں۔
میں جو لکھتا ہوں، خود پر ہنس کر، خود کو مثال بنا کر جو لکھتا ہوں، وہ آئینہ ہے اس معاشرے کا جس میں تمھاری مکروہ شکل نظر آتی ہے۔ مگر اس آئینے میں تم گدھ نظر آتے ہو جو دن رات اس قوم اور مردہ نظریات کی بوٹیاں کھا رہے ہو۔ اسی لیے تم کو میرا آئینہ برا لگتا ہے کہ یہ تمھارے میک اپ زدہ چہروں کا نور اتار کر تمھاری اصلیت دکھا دیتا ہے۔ میں روکھی سوکھی کھا کر اور دادی کی سبق آموز کہانیاں سن کر بڑا ھوا ھوں، جس نے مجھے یہ سکھایا کہ بچہ اپنے سے ایک دن بڑے بندے کو بھی کبھی نام لیکر نہیں بلاتے۔ اور ظلم ہوتا دیکھ کر نظر جھکا کر نہیں چلتے بلکہ ظالم کا ھاتھ اس کے جسم سے جدا کرکے اپنے ایمان اور غیرت کا ثبوت دیتے ہیں۔ میں یہ تماشے بھی لگاتا رہوں گا، تمھارے چہرے اپنے آئینے میں دکھاتا بھی رہوں گا اور تمھارے ظلم کے خلاف لڑتا بھی رہوں گا، کیونکہ میں دانشور نہیں ہوں
Facebook Comments
ہاہاہا لالا اون دی فائر…. جیتے رہیں لالا جی ہمیں یہی آپکی صاف گوئی آپ سے محبت پر مجبور کرتی ہے….. بہت ساری دعائیں اور محبتیں آپ کےلیے……
جیو جان بہت عمدہ بلکہ بہت اعلی
یار خٹک صیب تم سے بڑا دانشور کو ئی ہے نہیں کیونکہ اس قسم کے تیر برسانا ان مترجموں کے بس کی بات نہیں یہ ہمارے لالا کے علاوہ کو ئی اور نہیں کر سکتا ۔ ویلڈن اینڈ کیپ اٹ اپ ۔
آزار بند نہیں بلکہ آزاد بند ھے لالہ ?
واہ واہ لالہ…
کمال
مرابانی کرولالاکوزیاده اوپرمت چڑاو ورنه پٹ جایگایاگرکرمرجایگا خو چه یه لالالوگوں کابڑاکمزوری ہے اورآپ لوک تالی پیٹتاره جایگا توڑاساخیال کرومڑا
Very interesting detailѕ yyߋu have mentioned, appгeciate it for
posting.
Very interesting subject, thank you for putting up.